سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدکو ہم سے بچھڑے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں کہیں ہمارے آس پاس موجود ہیں ۔قاضی صاحب کی وفات نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پوری پاکستانی قوم ،دنیابھر کی اسلامی تحریکوں خصوصاََ کشمیر کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔کشمیر میں جہاد کا آغاز ہوا تو بھارتی میڈیا نے دن رات قاضی صاحب کو کوسنا شروع کر دیا،روزانہ دعوے کیے جاتے کہ آج قاضی حسین احمد نے کشمیرمیں گڑ بڑ پھیلانے کے لیے اتنے پیسے بھیج دیئے۔۔۔۔۔اتنا اسلحہ بھیج دیا۔۔۔اتنے اگروادی بھیج دیے۔جب جرنل پرویز مشرف کے دور میں سری نگر اور مظفر آبادکے درمیان دوستی بس سروس کا اجراء ہواتو مشرف حکومت کی شدید خواہش تھی کہ گیلانی صاحب دوسرے کشمیری لیڈروں کے ہمراہ پہلی بس میں بیٹھ کر مظفر آباد آئیں اور ان نمائشی اقدامات کی توثیق کریں،جو دونوں حکومتیں حالات کو معمول پر لانے کے لیے کر رہی ہیں ۔حکومت پاکستان نے حزب المجاہدین کی قیادت اور جماعت اسلامی کے رفقاء کے زریعے بھی گیلانی صاحب پر دباؤ ڈلوایا کہ وہ پاکستان آنے پر آمادہ ہو جائیں ۔اگرچہ گیلانی صاحب کی پاکستان آمد کے حق میں ٹھوس دلائل تھے لیکن گیلانی صاحب محسوس کر رہے تھے کہ یہ ایک منافقانہ کھیل ہے جس سے تحریک آزادی کو فائدہ پہنچنے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا، اس لیے انہیں اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا کی گیلانی صاحب دوستی بس کے زریعے پاکستان نہیں آنا چاہتے تو انہوں نے جماعت اسلامی کے رفقاء کو ہدایت کی کہ وہ گیلانی صاحب کو پاکستان آنے پر مجبور نہ کریں وہ ٹھریک آزادیء کشمیر کے تقاضوں کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں ۔خود قاضی صاحب بھی مسئلہ کشمیر پر کسی مداحنت کے قائل نہ تھے ۔وہ گیلانی صاحب کو تحریک آزادیء کشمیر کا حقیقی ترجمان اور قائد سمجھتے تھے۔اور ان کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔گیلانی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ان پر زیادہ پابندیاں نہ تھیں اور بھارت نے انہیں حج پر جانے کی اجازت دی تھی تو ارض پاک میں قاضی صاحب سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں ،کیونکہ وہ بھی حج پر آئے ہوئے تھے۔اس طرح دونوں قائدین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور تحریک آزادی کے احوال و کوائف پر تفصیل سے بات چیت کی اور اس کے بعد مسلسل رابطے میں رہے۔87 میں جب قاضی صاحب نے امارت کی ز مہ داری سنبھالی تو مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد آزادی کی راہ ہموار ہو چکی تھی اور کشمیر کے نوجوان محسوس کر رہے تھے کہ پرامن جدوجہد کے زریعے بھارت سے اپنا حق منوانے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں اور بھارت کی قابض ا فواج نے مقبوضہ علاقے میں ظلم کی انتہا کردی ہے اس لیے مسلح جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔وہ افغانستان میں جہاد کے سبب سویت یونین کو گھٹنوں کے بل گرتے دیکھ چکے تھے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری نوجوانوں کی اکثریت جہاد کے حق میں تھی۔چناچہ ضروری ہوم ورک کے بعد مقبوضہ علاقے میں جہاد شروع ہوا تو حکومت پاکستان نے بھی اس کی تائید کی اور پاکستانی نوجوان بھی جہاد کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔جماعت اسلامی نے قاضی صاحب کی قیادت میں جہاد کشمیر کی بھرپور حمایت کی۔
قاضی صاحب اپنی ذات میں خود مجاہد تھے۔ باطل کے خلاف جہاد کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کو بھرا ہوا تھ اور شہادت کی تڑپ انہیں بیچین کیے رکھتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر مین جہاد کا غلغلہ بلند ہوا تو قاضی صاحب دل و جان سے اس کے پشیتبان بن گئے۔ دامے، درمے ہر اعتبار سے مجاہدین کشمیر کی مدد کو اپنا وظیفہ بنا لیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ خود بھی ہتھیار بدست ہوکر دشمن سے جا بھڑتے اور اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجا لیتے۔ لیکن قدرت نے انہیں سیاسی محاذ کے لیے چنا تھا، ا س محاذ پر انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں کھپا دیں۔ قاضی صاحب کی رہنمائی میں متعدد جہادِ کشمیر کانفرنس منعقد ہوئیں ، پاکستان میں بھی اور آذاد کشمیر میں بھی۔ ان کانفرنسوں میں قاضی صاحب کا خطاب کلیدی ہوا کرتا تھا جسے سننے کے لیے نوجوان چاروں طرف سے اُمڈ آتے تھے اور قاضی صاحب کے حق میں نہایت پُر جوش نعرے لگاتے تھے جہادِ کشمیر کا جو سیاسی مورچہ قاضی صاحب نے پاکستان میں سنبھال رکھا تھا وہی مورچہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں سنبھالے ہوئے تھے وہ قاضی صاحب کی طلب کردہ جہادِ کشمیر کانفرنس میں ٹیلیفونک خطا ب فر ماتے اور نوجوانوں میں شہادت کی لگن پیدا کر دیتے تھے اس طرح دیکھا جائے تو دونوں قائدین جہادِ کشمیر کے نوجوانوں کے دوش بدوش حصہ لے رہے تھے آج قاضی صاحب دنیا میں نہیں تو سید علی گیلانی خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں۔