December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

اتحاد ِ امت کے عظیم داعی

سید منور حسن

سابق امیر جماعت سلامی پاکستان
قاضی حسین احمد بلاشبہ ایک فرد تھا، لیکن ایک تحرک ، سرگرمی، پرجوش رویے اور ایک ہمہ تن فعال شخصیت کا نام بھی تھا۔ قاضی حسین احمد ایک متحرک انسان، ایک بے قرار روح اور ایک مضطرب شخصیت کا نام تھا۔ ان کے اندر اضطراب اس لیے تھا کہ پورے معاشرے کو استحصالی نظام سے بچایا جائے، عدل و انصاف کی میزان نصب کی جائے، گرے پڑے لوگوں کو اٹھاکر سینے سے لگایا جائے اور معاشرے میں ظلم کی جتنی شکلیں ہیں ان سب کا خاتمہ ہو، اس کے لیے وہ کبھی ایک تو کبھی دوسری تدبیر اختیار کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ عمل اس قدر تیز ہوجاتا تھا کہ لوگ شکوہ کرنے لگتے کہ ہمیں کوئی اور کام کرنے کا بھی موقع تو دیں، لیکن ان کا جواب بالکل واضح ہوتا تھا کہ کام تو ایک ہی ہے۔۔۔غلبہ دین اور اقامت دین کا کام، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے اوربندوں کو ان کے رب کی غلامی میں دینے کا کام۔ یہی ایک کام تھا جس کی انجام دہی کے لیے وہ مختلف جہتیںاختیار کرتے اورمختلف انداز اوراسلوب اپناتے تھے۔
سولہ برس کا ساتھ
میں قاضی صاحب کے ساتھ پورے سولہ سال، نہ ایک دن کم نہ زیادہ جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل رہا۔ اس سے پہلے ڈیڑھ سال ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اوراس سے پہلے دو مدتیں کراچی کے امیر کی حیثیت سے گزاریں۔ میں بلاخوف تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ قاضی صاحب کی امارت میں میرے علاوہ کوئی اور فرد ایسا نہیں جو آگے بڑھ کر یہ کہہ سکے کہ وہ قاضی صاحب کے ساتھ زیادہ رہا ہے۔ ان کی خلوت و جلوت اور ان کے فیصلوں کے بارے میںمجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی گواہی پیش کر سکتا ہو۔ میں ان کے سبھی معاملات، زندگی کے تمام دائروںاور خوشی غمی میں قاضی صاحب کے قریب رہا۔ ویسے یہ بات میں پروفیسر غفور صاحب کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ ان کی امارت اورجماعتی ذمہ داریوں میںکوئی دوسرا زیادہ دخیل نہیں رہا، اس لیے کہ میں ان کا سیکرٹری جنرل بھی رہا اور زندگی کے تمام دائروں میں ان کی معاونت اور ہر اعتبار سے ان کی نیابت کرتا رہا ہوں۔ انسان ہمیشہ انسان ہی رہتا ہے کبھی فرشتہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے یہ گمان کرنا کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی یہ بہت سادگی کی بات ہے۔ قاضی صاحب سے سو پچاس نہ سہی دس بیس غلطیاں تو ہوئی ہوں گی، ہر کام کرنے والا انسان غلطی بھی کرے گا۔ کوئی انسان چاہے وہ کسی بھی منصب پر ہو، کوئی بھی ذمہ داری ادا کر رہا ہو، اس کی خامیاںگنوانا بے معنی بات ہو گی، کیوں کہ خامیاں تو ہوں گی؛ البتہ جماعت اسلامی کے نظام میں خامیوں کا علاج بھی موجود ہے۔ وہ لوگ جو سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ خامیوں پر توجہ دلائیں، اس لیے کہ وہ تخلیے میں وہ بات کر سکتے ہیں جو مجمعے میں نہیں کی جا سکتی۔ جماعت میں قاضی صاحب کو توجہ دلانے والے، متنبہ کرنے والے اور متبادل راستہ سجھانے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔ وہ لوگ بھی تھے جو تندو تیز لہجے میں تنقید کیا کرتے تھے، مگر قاضی صاحب نے انہیں بھی کبھی اپنے آپ سے دور نہیں ہونے دیا۔ ان کے فیصلوں کے حوالے سے کچھ لوگوں کے تحفظات رہے ہوں گے، لیکن قاضی صاحب اپنی خوبیوں اورخصوصیات کی وجہ سے جانے جاتے رہیں گے ۔

جماعت اسلامی اور عوام
کچھ لوگ کہتے ہیں قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو عوامی بنادیاتھا، یہ بات جتنی کہنے میں آسان ہے، کرنے میں اسی قدر مشکل ہے۔ یہ بڑی سادگی اور جماعت اسلامی کے مزاج سے ناواقفیت کی بات ہے۔ کہنے والے کو یہ پتہ ہے کہ عوامی کس کو کہتے ہیں نہ ہی یہ پتہ ہے کہ جماعت اسلامی کس کو کہتے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی اور انقلابی جماعت ہے، قرآن و سنت پر مبنی اس کا پورا نظام ہے جس کے تحت اس کے کارکنوں کی تربیت ہوئی ہے۔ اگر عوامی بنانے سے مراد یہ ہو کہ انہوں نے عوام کو جماعت اسلامی کی دعوت پہنچائی، توبلاشبہ قاضی صاحب نے یہ کام کیا اور بہت اچھی طرح کیا، جماعت اسلامی کی دعوت عوام تک لے گئے، لیکن اگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ انہوںنے جماعت کے نظریات کو بدل کر اسے عوام کے لیے قابل قبول بنایا، جس طرح دوسری جماعتوں میں ہوتا ہے اور اسے خوبی بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ کام انہوں نے نہیں کیا، نہ ہی جماعت اسلامی کا کوئی امیر ایسا کر سکتا ہے۔ بے شمار لوگ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے مل کر کہتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہونا چاہتے ہیں، بے شمار لوگوں سے ہم یہ کہتے ہیںکہ جماعت اسلامی میں آ جائیں، لیکن اگر ایک شخص نماز ہی نہیں پڑھتا تو ہم اس کا کریں گے کیا؟ اگر اس کے معاملات کے اندر پیچیدگیاں ہیں، وہ سود ی کاروبار کرتا ہے، کرپشن سے دولت کماتا ہے تو ہم اسے کیسے اپنا سکیں گے؟ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو اس معنی میںعوامی نہیں بنایا، نہ جماعت اسلامی وہ عوامی جماعت بن سکتی ہے جیسی عوامی مسلم لیگ ہے، یا جیسی عوامی تحریک انصاف ہے۔ میں ان کی نفی نہیں کر رہا کہ وہ کوئی خراب کام کر رہے ہیں، وہ جیسے چاہیں کام کریں، لیکن جماعت اسلامی کے اپنے اہداف و مقاصد ہیں، اپنا طریقہ کار ہے، ایک طریق تربیت ہے، اس کے ہاں تزکیہ نفس کا ٹھوس حوالہ موجود ہے، تمام دائروں کے اندر ذہن سازی ہوتی ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی کا عوامی بننا تب ہی ممکن ہوگا جب ہم عوام الناس کوجماعت اسلامی کے اندر لے آئیں گے، جماعت کے نظریات اور عمل کو عوام میں داخل اور شامل کر لیںگے اور جماعت کے تمام رویوں کوعوام قبول کرے گی۔ تاہم ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جا سکتی، یہ کام برسوں کی جاں فشانی چاہتا ہے، بلکہ بعض اوقات صدیوںپر محیط ہو جاتا ہے۔ میںیہ نہیں کہہ رہا کہ اسلامی انقلاب صدیوں میں آئے گا، بلکہ میں یہ کہ رہا ہوں کہ اسلامی انقلا ب میرے اور آپ کے کام کے نتیجے میں ہی نہیں آئے گا، بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، ہمیں وہ شرائط پوری کرنا ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے اندر اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے ذریعے بتائی ہیں۔
یہاں مجھے ایک بات ضرور ریکارڈ پر لانی ہے کہ ایک مرتبہ تو قاضی صاحب نے۱۹۹۳ء کے معاملے کے بعد جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا تھا، وہ میرے حساب میں درست وقت پر ایک درست فیصلہ تھا اور اس کا درست اور بروقت نتیجہ بھی برآمد ہوا۔ اس وقت بھی کچھ لوگوں کی رائے ( ہماری نہیں) تھی کہ استعفیٰ نہیں دینا چاہیے۔ لیکن یہ جو قاضی صاحب نے آخری مرتبہ معذرت کی جسے قبول بھی کر لیا گیا اور نیا انتخاب ہوا، مجھے ذاتی طور پر یہ بات معلوم ہے اور یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کی صحت ایسی خراب نہیں تھی کہ وہ کام نہ کر سکیں، بلکہ جیسی صحت اس عمر میں ہوا کرتی ہے، اس سے کچھ بہتر ہی تھی، وہ بھرپور کام بھی کر رہے تھے اور وہ جماعت کی امارت سنبھالے رکھ سکتے تھے، لیکن چند لوگوں نے واقعی انہیں بہت تنگ کیاتھا ( نام لینے کی ضرورت نہیں) اس میں شبہ نہیںکہ انہوں نے زچ ہو کر جماعت کی امارت سے استعفا دیا تھا۔ ہمارا آپس میں مشورہ بھی ہوا تھا اور ہم لوگوں سے جو بات کر سکتے تھے یا جو دوسرے بات کر سکتے تھے وہ سب بھی کر دیکھا، لیکن بات نہیں بنی۔ اس سے میں یہ بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوںکہ اجتماعی زندگی میں ناپسندیدہ لوازم بھی بہت سارے ہیں، نہایت تلخ حقائق بھی ہیں، لیکن قاضی صاحب نے ان تلخیوں کے باوجود، اس جھنجلاہٹ کے باوجودخود پر قابو رکھا اور اس اشتعال کے باوجود کسی کے خلاف کوئی جوابی اقدام نہ کیا۔ ایسے لوگوں کو دیوار سے لگانے کے سو طریقے امیر جماعت یا جماعت کے پاس ہوتے ہیں ان کو استعمال نہ کیا اور ان لوگوں کے خلاف عوامی سطح پر یا شوریٰ میں کوئی ایسی بات کبھی ان سے صادر نہیں ہوئی۔ یہ ان کے تحمل، بردباری، حوصلے، صبر، خیر خواہی، ایثار، درگزر اور رفقاء کے درمیان اعتماد کی فضا کو برقرار رکھنے کی دلیل ہے۔ بعض لوگوں کے لیے بہت آسان ہوتاہے کہ آپ کو دکھ پہنچائیں، لیکن آپ کے دکھ کا ازالہ کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ آسان کام بہت سے لوگ بہت آسانی سے کر لیتے ہیں کہ آپ کو تلخیوں کے اندر دھکیل دیں۔ اجتماعیت میں ہر شخص کو جواب دینا بھی آتا ہے، آپ اینٹ پھینکیں تو دوسرا پتھر بھی پھینک سکتا ہے، آپ کو اگر طنز کرنا آتا ہے تو دوسرا بھی اس ہنر سے واقف ہے۔ اگر وہ خود نہ کرے تو اس کے چار ساتھی طنز کر سکتے ہیں، لیکن اس کلچر کو جماعت میں فروغ نہیں پانے دیا گیا، اس کی حوصلہ شکنی کی گئی اور قاضی صاحب نے اپنی ذات کے اوپر چیزوں کو سہا، برداشت کیااور ایک حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے رفقاء کے درمیان انصاف، عدل اور ایثار کا ماحول پیدا کیا اور اسے برتااور ظاہر ہے کہ اس کے فوائد بھی حاصل ہوئے۔ یہ عمومی اور اصولی بات ہے کہ بعض اوقات ہمارے کسی ایک رویے کے باعث ساری اجتماعیت کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
قاضی صاحب کی تعمیر
قاضی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں بھی بڑے انسان تھے، وہ جمعیت علماء ہند کے ایک بہت بڑے عہدے دار کے بیٹے تھے، لیکن ؎ ان کی شخصیت سازی کے حوالے سے جماعت اسلامی کا جو کردارہے وہ بہت واضح ہے۔ ان کی تعمیر و تشکیل میں جماعت اسلامی نے بنیادی کردار اداکیا۔ جماعت اسلامی نہ ہوتی توقاضی صاحب بھی وہ قاضی صاحب نہ ہوتے جن کو ہم جانتے ہیں۔ قاضی صاحب تو بعد میں آتے ہیں، مولانا مودودیؒ کو لے لیجیے، انہوں نے سو کتابیں لکھی ہیں، دو سو بھی لکھی ہوتیں اور جماعت اسلامی نہ بنائی ہوتی تو لوگ اب تک انہیں بھول چکے ہوتے۔ خال خال کہیں ان کی کوئی چیز مل جاتی اور بس۔ یہ جو ایک سو زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے ہو ئے ہیں، تو اس میں ان کی تحریک کا کردار کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے خود مولانا مودودیؒ بھی اگر اب تک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں تو اس کا بڑا سبب اور وجہ جماعت اسلامی ہے جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔ اس لیے میںسمجھتا ہوںکہ جو بھی شخص جماعت اسلامی میں ہے اس کے اندر جو خوبیاں ہیں اس کی شخصیت کی تعمیر کا کریڈٹ جماعت اسلامی کوجاتا ہے۔ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو مضبوط بنانے اور اسے منظم کرنے کے لیے بہت کام کیا، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کو بنانے میں اور ان کے حوالے کو مضبوط کرنے میںزیادہ کام کیا اور اس حوالے سے کوئی استثنیٰ بھی نہیں۔قاضی صاحب اور جماعت اسلامی نے روس کے خلاف افغانوں کی جدو جہد میں تاریخی کردار ادا کیا، اس میں صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوش نودی ہمارے پیش نظر تھی۔ ہم نے وہی کیا جو پاکستان کے بہترین مفاد میںتھا اور ہمارے عقیدے کا تقاضا تھا۔ ہمارا موقف ہمارے اپنے دلائل کی بنیاد پر تھا۔ ہم سمجھتے تھے جہاد افغانستان درست ہے، روسی فوجوں کا آنا غلط ہے، روس کی افغانستان میں کامیابی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرناک ہے، اس لیے ان کو واپس جانا چاہیے اور اس معاملے پر ہمیں افغانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر آپ کے دلائل کے نتائج یہ ہیں اور اتفاق سے آپ کا دشمن بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہے تو اس وجہ سے آپ اپنا موقف چھوڑنہیںدیں گے۔ کیا اس خیال سے کہ امریکہ اس جنگ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ہم افغانوں کی حمایت ترک کر سکتے تھے؟
میری حلف برداریامارت کے انتخاب کے بعد کافی عرصے تک ہم لوگ حلف برداری کی تقریب منعقدنہیں کر رہے تھے۔ میںنے قاضی صاحب سے کہا، شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے، میں اپنی بات ارکانِ شوریٰ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، پھر دیکھا جائے گا کہ کیا کیا جائے۔ لوگوں کو بھی بہت فکر ہو رہی تھی کہ زیادہ وقت گزر رہا ہے اب تک حلف ہو جانا چاہیے۔ میں نے شوریٰ کے اجلاس میں لوگوں سے کہا، دیکھیں مولانا مودودیؒ اکتیس سال تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، ۱۹۷۲ء میں جب انہوں نے استعفا دیا اور معذرت کی جو لوگوں نے قبول کی تو اس وقت ان کی عمر ۶۹ برس تھی۔ میاں صاحب پندرہ سال امیر رہے اور ۱۹۸۷ء میں جب انہوں نے امارت سے معذرت کی تو اس وقت ان کی عمر ۷۴ برس تھی۔ یہی معاملہ قاضی صاحب کا ہے۔ لیکن مجھے آپ امیر بنا ہی اس عمر میں رہے ہیں جس عمر میں لوگ امارت چھوڑتے رہے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں یہ جماعت کے ساتھ بھی انصاف نہیں اور خود میری ذا ت کے ساتھ بھی انصاف نہیں، کیوں کہ اس عمر میں آدمی کی استعداد کار اور چلت پھرت کم ہو جاتی ہے اور کام میں دلچسپی بھی ویسی نہیں رہتی جیسی عمر کے دوسرے حصوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے آپ میری معذرت قبول کر لیں اور اس کے علاوہ مجھے کوئی ذاتی الجھن یا پریشانی نہیں۔ ابھی دو چار لوگوں نے ہی اس پر بات کی تھی کہ قاضی صاحب نے حکم صادر فرما دیا:’’ بس جی اور کوئی بات نہیں سننی، ان سے کہیں کہ حلف اٹھائیں‘‘۔ اس کے بعد یہ اسی وقت طے ہو گیا کہ اسی شام حلف برداری ہو گی۔ اس طرح کی بات جب ان کی اور شوریٰ کی طرف سے آ گئی تو ظاہر ہے مجھے کوئی بحث مباحثہ تو نہیں کرنا تھا ۔