قاضی حسین احمد کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے کہ جو زندہ ہوتے ہیں تو زندگی ان پر رشک کرتی ہے اور موت آتی ہے تو بھی وہ مرتے نہیں۔ قاضی صاحب مر کر بھی زندہ ہیں اس لیے کہ جس مشن کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی گزار دی اُن کا وہ مشن زندہ ہے۔ وہ عظیم مشن جس کی بنیاد سید مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے نام سے رکھی تھی قاضی صاحب نے پوری ایمان داری، وفاداری اور عزیمت و استقامت سے اسی مشن میں اپنی جان کھپا دی۔ قاضی صاحب کے جانے کے بعد بھی سید مودودیؒ کا یہ قافلہ سخت جاں رکا ہے نہ رکے گا۔ یہ ابد آفریں قافلہ جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں رہے گا۔ انشاء اللہ قاضی کے لاکھوں بیٹے اور بیٹیاں ان کے مشن کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ان کے راستے پر رواں دواں ہیں۔
چھ جنوری کی شام جب لاکھوں انسانوں کا ہجوم سید مودودیؒ کے لازوال افکار کے اس عظیم علم بردار کو رخصت کر رہا تھا تو نوجوانوں کے نعرے دلوں کی دنیا زیر و زبر کر رہے تھے۔ اس وقت ان کے نعرے پتھروں کو بھی موم کر رہے تھے۔ ”قاضی کے ہم ساتھ مریں گے ۔۔۔۔۔ قاضی کے“ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ نوجوان ان کی ایمبیولینس کے پیچھے بھاگتے جارہے تھے۔ قاضی صاحب کو یہ بے مثال محبت اس لیے ملی کہ انہوں نے اپنے غیر فانی مشن اور نظریے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی۔ جسم کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کی تمام سانسوں کو اس کے لیے وقف کیے رکھا اور جاتے جاتے اپنے پیچھے روشنی کی ایسی ان مٹ اور غیر فانی لکیر چھوڑ کر گئے جو ان کا نقش قدم اپنانے والوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔ خدا کے دین کے تمام سپاہی اس روشنی سے اپنی منزل کا رخ متعین کیا کریں گے اور اس میں ہماری لیڈر شپ کے لیے بھی تقلید کا بہترین نمونہ موجود ہے۔
افغانستان کا محاذ گرم کرنے، مجاہد لیڈروں کے ساتھ قریبی روابط رکھنے اور روس کو عبرتناک شکست دینے کے لیے بے مثال منصوبہ بندی کرنے میں قاضی صاحب کا بنیادی کردار تھا۔ وہ مجاہدین کی قیادت میں اختلافات کو دور کرنے ان کی جہادی سرگرمیوں کو مربوط کرنے اور جہاد کی حکمت عملی طے کرنے کی مشاورت میں بھی شامل رہے۔ نہ صرف افغان جہاد سے ان کی گہری وابستگی تھی بلکہ دنیا کی تمام جہادی تنظیموں سے ان کے رابطے تھے وہ سارے عالم اسلام بالخصوص افغانستان، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، فلسطین، عراق، برما، فلپائن اور تھائی لینڈ کے ہر دکھ اور المیے پر آواز اٹھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔۱۹۹۰ کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے فیصلہ کُن مرحلے کا آغاز ہو گیا تو قاضی صاحب نے اسی سال ’’کاروان جہاد کشمیر“ کے نام سے پاکستان بھر کا طوفانی دورہ کر کے کشمیر ریلیوں سے خطاب کیا۔ قاضی صاحب کی کوششوں سے کشمیر پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں آپ نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تاریخی تقریر کی۔قاضی صاحب کی اپیل پر ہی ۵ فروری ۱۹۹۰ کو ملک میں پہلی بار پاکستانی عوام نے کشمیریوں کو بھرپور یکجہتی کا پیغام دیا۔ اس کے بعد سے ۵فروری کو بھی سرکاری سطح پر بھی ’’یوم کشمیر“ قرار دے کر ہر سال منایا جانے لگا۔جماعت اسلامی کا امیر بننے کے بعد قاضی صاحب نے چاروں صوبوں کے ۳۱۳ افراد کے ساتھ ’’کاروان دعوت و محبت“ کی قیادت کی۔ ایک ماہ تک مصروف سفر رہنے والے اس کاروان نے چاروں صوبوں کے اہم شہروں اور بستیوں کو محبت کا پیغام دیا ۔ ۔ ۔ ۔ محبت جو فاتح عالم ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کو عوامی سطح پر متعارف کروانے کی یہ منظم اور مؤثر ترین کوشش تھی۔
قاضی صاحب کا دو مرتبہ دل کا بائی پاس اور خون کی بڑی رگ کا خطرناک آپریشن بھی ہوا تھا مگر انہوں نے آرام کرنا نہیں سیکھا تھا۔ وہ آخر دم تک گھر پر نہیں بیٹھے۔ افغانستان ہو، فلسطین ہو یا مصر یا دیگر اسلامی ممالک ان کے آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے اکثر ان کو مصالحتی مشن پر جانا پڑتا تھا۔ اخوان المسلمون کی کامیابی پر بے حد خوش تھے۔ طیب اردگان، نجم الدین اربکان اور عرب وعجم کے تمام مسلم لیڈروں سے ان کے تعلقات اور روابط تھے۔ حماس کے رہنما خالد مشعل کے بارے میں تو یہ بھی مشہور ہے کہ انُکے والد نے انہیں قاضی صاحب کی خدمت میں تربیت کے لیے بھیجا تھا۔ قاضی حسین احمد نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کے لیے مئ ۱۹۹۰ میں ترکی، مصر، عراق، ایران، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب اور قطر کا دورہ کیا۔ دورے کے بارے میں ہفت روزہ ’’تکبیر“ میں صلاح الدین مرحوم نے لکھا: ’’جو کام حکومت نہ کرسکی قاضی صاحب نے کر دکھایا‘‘۔
خلیج کے بحران میں قاضی صاحب نے عالمی اسلامی تحریکوں کے وفود کی قیادت کی اور اردن، سعودی عرب، عراق اور ایران کے تیرہ روزہ دورے میں ان ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کر کے خطے سے جنگی اثر و نفوذ ختم کروانے کی ہر ممکن کوششیں کیں۔ ترکی کی اسلامی تحریک سے ان کے خصوصی روابط رہے۔ قاضی صاحب ضعیف العمری اور تین بڑے آپریشنوں کے باوجود کسی جوان کا سا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی پر کئی بار ایسا وقت آیا کہ بہت سے لوگ حوصلہ ہار بیٹھے لیکن انہوں نے کٹھن حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کارکنوں کو حوصلہ دیتے رہے۔
قاضی حسین احمد ذاتی زندگی میں انتہائی درویش منش اور سادہ مزاج تھے، منصورہ میں دو کمروں کے فلیٹ میں سارا دور امارت گزارا، امیر جماعت کے لیے مخصوص گھر میں نہ گئے۔ پشاور میں ان کا شاندار مکان موجود تھا جو انہوں نے افغان جہاد کے لیے وقف کردیا تھا۔ منصورہ میں اپنے گھر سے پیدل نکل کر دو گلیوں سے گزر کر مسجد آتے نماز پڑھاتے اور اسی طرح اکیلے پیدل ہی واپس روانہ ہوجاتے۔ قاضی صاحب سب کے سر پر ہاتھ رکھتے پیار کرتے اور چومتے تھے۔ کوئی بھی فرد تن تنہا دو مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر، سینیٹر، ایک ملک گیر جماعت کے سربراہ عالمی اسلامی تحریکوں کے مقبول رہنما کو راہ چلتے روک کر ملاقات کر لیتا، بات چیت اور اپنا کوئی مسئلہ بیان کرلیتا تھا۔ یہ مثال پاکستان کے سیاستدانوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ قاضی صاحب کی اعلیٰ ظرفی کی ایک بڑی مثال یہ تھی کہ جب حکومت نے لٹن روڈ لاہور کے دفتر میں قاضی صاحب سمیت بہت سے رہنماؤں اور کارکنان پر بدترین پولیس گردی کروائی۔ شدید شیلنگ اور لاٹھی چارج نے اس مقام کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا تھا اور قاضی صاحب اس دفتر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ اس وقت خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ حکمران وقت نے جماعت اسلامی کی اعلی قیادت کے ساتھ یہ سلوک کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا تھا۔ بعد میں جب یہ ہی حکمران معافی کے درخواست گزار ہوئے تو انہوں نے بنا کسی ردوکد کےانہیں خلوص دل سے معاف کردیا۔
قاضی صاحب نے ملت اسلامیہ کی بھرپور ترجمانی کی لیکن ہم خود کو ملت ثابت نہ کرسکے۔ بونوں کی دنیا میں ایک قد آور شخص کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ زرداری صاحب جب بدعنوانی کے مقدمے میں جیل میں تھے تو قاضی صاحب انہیں تفہیم القران اور دیگر کتابوں کا سیٹ دے آئے جو بقول زرداری ’’میں نے پڑھ کر ان سے بہت کچھ سیکھا‘‘۔ عمران خان اپنی اسلام فہمی کا ذریعہ قاضی صاحب کو ٹھہراتے ہیں۔