’’راحیل بیٹا ، یہ ایک بچی اپنے مقالے کے لیے انٹرویو لینے آرہی ہے، تم بھی سارا دن اسی جستجو میں رہتی ہو کہ آغا جان کی یادداشتیں مرتب ہو جائیں۔ میں اسے اپنے واقعات سنا رہا ہوں۔ تم بی آکر اسے لکھ لینا ‘‘۔ میں نے چار گھنٹے پر مشتمل طویل ملاقات کا احوال لکھا جس میں آغاجان نے اپنی پوری ندگی کے چیدہ چیدہ حالات بیان کیے تھے، اور اُس ڈائری کو رکھ لیا کہ اسے مرتب کرنا ہے۔ دسمبر 2012ء کے آغاز سے ہی ایک بے نام سی اداسی نے میرے گھر اور ذہن دونوں میں ڈیرے ڈال دیئے تھے اور میں اس دسمبر کا رومانس سمجھ کر ٹالتی رہی۔ امی کے گھٹنوں کا درد شدید سے شدید تر ہوتا چلا جارہا تھا اور آغاجان کی امی کے بارے میں تشویش میں بھی اضافہ ہورہا تھا ۔ وہ خود انہیں ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے لے جاتے رہے ۔5جنوری 2013ء کو امی کی رپورٹس آئیں ۔ ڈاکٹروں نے دوبارہ آپریشن کا کہا۔ آغا جان نے ساڑھے دس بجے رات کو امی سے تفصیلی بات کی۔ میں امی کے پاس تھی ۔امی کی رپورٹس آغاجان نے اسلام آباد منگوائیں تو میں نے وہ رات کو ہی آغا جان کو بھجوائیں اور اپنے بھائی ڈاکٹر انس فرحان قاضی کو فون کیا۔ بھابھی مہرین سے بات ہوئی کہ صبح وہ رپورٹس منگوالینا۔ میں نے پوچھا کہ بارہ بج رہے ہیں، آغاجان سوگئے یا جاگ رہے ہیں؟ مہرین نے کہا کہ ابھی لقمان کے بچے اریج اور حسن، آغاجان سے گپ شپ کر کے گئے ہیں اور وہ ابھی لیٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں فجر میں آغاجان سے بات کرلوں گی ۔امی نے کہا کہ راحیل سوجاؤ۔میں نے کہا کہ امی مجھے آغاجان کی یادداشتیں مرتب کرنی ہیں ،آپ سوجائیں ، میں یہ لکھنے لگی ہوں۔ میں نے ڈائری کھولی اور آغاجان کی پوری زندگی کی فلم واقعات کی صورت میں میرے ذہن میں چلنے لگی ،ابھی کچھ ہی صفحات لکھے تھے کہ میرے بیٹے محمد کی روہانسی آواز آئی کہ امیِ آغا جان کی طبیعت خراب ہے اور اسلام آباد جانا ہے۔ میں فوراََ ڈائری رکھ کر امی کے پاس گئی اور بتایا کہ آغاجان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور ہمیں اسلام آباد جانا ہے۔ میں اور امی اسی بات کے عادی تھے کہ انہیں کبھی کبھی سردی لگ جاتی ہے اور دل کے مریض کو سانس کی تکلیف ہوجائے تو وہ زیادہ تشویشناک ہوجاتی ہے، اور آغاجان کو سردیوں میں یہ تکلیف بڑھ جاتی تھی، مگر اس بارتو وہ خلافِ معمولی بہت ہشاش بشاش تھے۔ اُن کے چہرے کا نور کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔ میری ایک سہیلی ملنے آئی تو کہا کہ راحیل، تمھارے آغاجان ولی اللہ لگتے ہیں ۔اُن کے باطن کا نور اُن کے چہرے پر سے چھلکتا رہتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہر بیٹی کو اپنا باپ بہت ہی خوبصورت نظر آتا ہے مگر میرے آغاجان واقعی بہت وجیہ ہیں اور پڑھاپے میں تو اُن کی شخصیت شفقت وجمال سے پُر نور ہوگئی ہے۔
گاڑی میں بیٹھے تو میرے بیٹے نے میرا موبائل مجھ سے بہانے سے لے لیا اور اسلاآ باد روانہ ہوگئے۔ راستہ بھر میں اور امی دعائیں کرتے گئے اور جب اسلام آباد انٹر چینج آیا تو بجائے اسلام آباد مڑنے کے گاڑی پشاور کی طرف دورنے لگی اورعین اسی لمحے میرا موبائل فجر کے الارم کے سا تھ بجنا شروع ہوگیا اور مجھے لمحہ بھر میں ساری کہانی سمجھ میں آگئی کہ میرا سائبان مجھ سے اُڑ گیا ہے۔ میں نے محمد سے کہا کہ میرا فون مجھے دے دو۔ اُس نے جیسے ہی میرا فون مجھے پکڑایا، برف سی کی ایک ٹھنڈی لہر میرے پورے وجود میں سرایت کرگئی۔ میں نے یہ لہر ایک دفعہ 1999ء کی ایک رات کو اسی طرح سے محسوس کی تھی جب جمیل مجھ سے جدا ہوئے تھے، مگر میرے شفیق باپ نے 14سال مجھے اور میرے بچے کو ایسی شفقت اور محبت سے رکھا کہ ہمیں احساس بھی نہ ہوا کہ ہماری زندگی میں اتنی بڑی کمی آگئی ہے۔ میرے بچے کہتے ہیں کہ ہمیں تو اپنے ابو یاد بھی نہیں ہیں مگر آج ہم یتیم ہوگئے ہیں۔
ہم صبح جب پشاور اپنے آبائی گھر پہنچے جسے افغان جہاد کا مرکز ہونے کی سعادت حاصل ہے، جسے میری امی اور آغا جان نے1977ء میں تعمیر کیا تھا اور نئے گھر میں افغان مجاہدین کا اولین پڑاؤ بنا۔ ہمارے اس خوبصورت ،محبت سے لبریز گھر میں ساری ساری رات نشستیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس کے وسیع لاؤنج میں میرے آغا جان میرے بھرے پرے خاندان کے ہجوم میں اتنے آرام سے سوئے ہوئے تھے کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ آغاجان اتنی گہری نیند سوچکے ہیں اور کسی نے ان کے بارے میں یہ اشعار بھیجے
کڑے سفر کا تھکا مسافر
تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خو د اپنی آنکھیں تو بند کر لیں
ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
مجھے ایسے لگا کہ غم سے میرا دل پھٹ جائے گا، مگر یکا یک آغا جان کی خوبصورت گونج دار آواز میرے کانوں میں گونجی ۔ (آل عمران 184:3) ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں تمہارے بدلے پورے لوٹائے جائیں گے اور جو آ گ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ بڑی سرفرازی سے کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا تو محض ایک دھوکہ ہے‘‘۔ یہ آیات وہ غم کی ہر جگہ اور میت پر پڑھتے تھے۔ جمیل کی وفات کے بعد ایک حدیث سنائی کہ بیٹا اس حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کسی کی جدائی تمہیں بہت بے قرارکردے تو میری جدائی یاد کر لیا کرو۔ تم حضور ﷺ کی جدائی کو یاد کیا کرو اور درود شریف پڑھا کرو۔ تمہارے دل کو قرارآ جایا کرے گا۔
اس کی وجہ سے کافی افاقہ مل جاتا ہے۔ مگرآغاجان کا ایساغم ہے۔ لقمان کہہ رہا تھا کہ قبائلی بہت ہی سخت جان ہوتے ہیں۔ اور ہم نے اُن کے شدید غم میں بھی انہیں کبھی روتے نہیں دیکھا، مگر اب ایسے بے قراری سے روتے ہیں کہ جگر کٹ جاتا ہے۔
تھوڑی دیر میں انہیں انس نے غسل دے کر اور تیار کرکے ہمارے پاس پہنچایا تو ان کے چہرے کی بشاشت اور رونق میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ مجھے اپنے رب کی رحمت سے اُمید ہے کہ وہاں بھی اج کا ایسے ہی استقبال ہوا ہوگا جیسے کہ عزت سے رب رحمٰن کے بندوں نے انہیں رخصت کیا ۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ میرے شفیق آغاجان چلے گئے ہیں۔ مجھے ہر جگہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی یہیں کہیں سے اپنی محبت بھری آواز میں السلام علیکم کہہ کر آجائیں گے۔ ہمارے آغاجان نے ہمیں ایک محبت بھرا بڑا اور بھر پور خاندان عطا کیا ہے۔ آغاجان 10 بہن بھائی اور امی 7 بہن بھائی،اور ان 17 بہن بھائیوں کو 80 سے زیادہ اولادوں کے ایک بڑے خاندان کو جو علمائے دیوبند کے کبارعلماء کا گھرانہ تھا، آغاجان نے اپنی محبت اور اخلاص سے مولانا مودودی ؒ کی جماعت کا گرویدہ کرلیا۔ آغاجان حضور نبی کریمﷺکے ایک عاشق اُمت تھے۔ انہوں نے حضور نبی کریمﷺ کے ہر روپ کی پیروی کرنے کو اپنا افتخار جانا تھا۔ میری امی سے اتنی بے پناہ محبت کرتے کہ حضورنبی کریم ﷺ کی اہلِ خانہ سے محبت کی تمام یاد آجاتیں۔ میری امی کو بہت زیادہ لاڈ پیار اور بہت زیادہ عزت اور محبت سے نوازا۔ میرے آغاجان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بہت زیادہ عزت افزائی کیا کرتے تھے۔ گھر میں امی کے فیصلوں کو بہت اہمیت دیتے۔ اُن کی رائے کو بہت غور سے سنتے اور اسی پر عمل درآمد کرتے۔ اپنے امی ابو کو میں ایک آئیڈیل جوڑے کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی۔ آغاجان محبت کے اظہار میں کبھی بھی بخل سے کام نہ لیتے۔ دونوں میں نوک جھونک چلتی رہتی مگر ناراضی کبھی طول نہ پکڑتی۔ تھوڑی دیر میں دونوں ایک جان دو قالب نظر آتے۔ میری امی خواتین کے حقوق کی علم بردار ہیں اور آغاجان ان کی حمایت میں صف بستہ نظر آتے رہے۔ مجھے اور میری چھوٹی بہن خولہ کو بہت زیادہ محبت دی، اور ان کا کمال تھا کہ ہم چاروں بہن بھائیوں ، اور ان کے دامادوں ا ور بہوؤں سب کا یہ خیال ہے کہ آغاجان سب سے زیادہ محبت بس اُسی سے کرتے تھے۔
انسان پوری دنیا کو متاثرکرسکتا ہے مگر اپنے خاندان کو اُس وقت تک نہیں جب تک اُس کے کردار میں وہ جاذبیت نہ ہو جو آپ کو متاثر کرسکے۔ میرے آغاجان نے 9 باتوں والی حدیث پر عمل پیرا ہوکر اپنے خاندان کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا جس میں2 احکام پر وہ بہت خلوص کے ساتھ کرتے کہ جو مجھے محروم کرے اُسے عطا کروں اور جو مجھ سے کٹے اُس سے جڑوں۔ ہمارااتنا بڑا خاندان اور اس کے ہر فرد کو وہ انفرادی توجہ دیتے۔ میری چار اور کزنز بھی جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ ہم پانچوں نے اپنے آغاجان کے لیے گواہی دی کہ ان کی مغفرت کے لیے ہم اور ہمارے بچے ہی ان شاء اللہ کافی ہوں گے۔ انہوں نے مجھے اور میرے بچوں کو نہ صرف شفقت ومحبت سے پالا بلکہ خاندان میں ہماری عزت کو بھی قائم رکھا۔ اکثر گھرانوں میں بیواؤں اور یتیموں کو پالا جاتا ہے مگر ترس اور رحم کھا کر۔ مگر میرے والدین نے شفقت، محبت اور بہت عزت افزائی کے ساتھ ہماری پرورش کی۔ میری اور خولہ کی تعلیم وتربیت میں بہت زیادہ دلچسپی لی۔ میرے آغاجان ہمارے بچپن میں کتابوں کی دکان پر لے جاتے اور ہر قسم کی کتابیں ہمارے لیے خریدتے۔ بچوں کے سات رسالے ہمارے لیے لگائے ہوئے تھے اور بچوں میں ہم راجا اندر کی طرح پھرتے کہ ہمارے پاس دنیا بھر کی کتابیں اور کھلونے موجود ہوتے۔ پشاور کے مشہور ہیئرڈریسر سے ہمارا ہیئر کٹ کرواتے، ہمیں اُردو میڈیم اسکولوں میں شعوری طور پر داخل کروایا کہ ہماری اپنی زمین اور اپنے لوگوں سے رشتہ استواراور برقرار رہے۔ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ میں نے تمہیں قصداََ انگلش میڈیم اسکولوں میں نہیں پڑھایا تا کہ طبقاتی ذہنیت سے تم لوگ دور ہو۔ ہماری امی اور آغاجان نے مل کر دینی و دنیاوی تعلیم میں ہماری ایسی راہنمائی کی کہ الحمد اللہ آج ہم تین بہن بھائیوں نے یونیورسٹیوں میں اول پوزیشن حاصل کی ہے اور چوتھا بھائی ڈاکٹر ہے، اور ساتھ ہی دین کی خدمت میں بھی اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہی ہیں۔
قرآن کی تعلیم میں آغاجان نے خصوصی دلچسپی لی اور اسکول جانے سے پہلے وہ ہمیں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے، یاد کراتے۔ اقبال کے کلام کے بھی عاشق تھے۔ مجھے اقبال کی فارسی شاعری اتنی پڑھائی ہے کہ فارسی زبان سے بھی آشنا ہوگئی۔ اُن کی زندگی قرآن وحدیث اور اقبال کی شاعری کی عملی تفسیر تھی۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے علماء کے گھرانے کے وارث ہوتے ہوئے بھی وہ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل رہے ۔ میری امی کے ساتھ ساتھ ہم دونوں بہنوں اور اپنی دونوں بہوؤں کے لیے ایک شفیق اور حوصلہ دلانے والے اور زندگی کی آزمائشوں سے بخوبی عہدہ برا ہونے کے گُر سکھانے والے آغاجان تھے۔ خولہ بہت زیادہ لاڈلی تھی۔ وہ جب انہیں ایک ہی سانس میں اپنی ساری بات بتانے کی کوشش کرتی تو مسکراکر اُسے گلے لگالیتے۔ اُسے خود کالج چھوڑنے جاتے۔ ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں شمالی علاقہ جات کی سیر پر لے جاتے۔ فطرت کے قریب رہ کر ہمیں اپنے رب کے قریب کرتے اور اس کی معرفت سے آشنا کراتے۔ ہماری شادی سے پہلے ہمیں حج کرایا اور وہاں امی اور ہم چاروں بہن بھائیوں کو تمام زیارات کی تفصیلات بتائیں۔ مسجد نبویﷺ میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر سورۂ محمد، سورۂ فتح اور سورہ الحجرات پڑھائیں اور وہاں رو رو کر یہ دعا مانگتے جاتے کہ اے اللہ! ہم سے اپنے دین کی مزدوری کا کام لے لینا، مجھے اور میرے معصوم بچوں کو اپنے دین کا خادم بنالینا۔ اللہ نے اُن کے لیے تو یہ دعا قبول کرلی، اور یا اللہ ہمارے حق میں بھی اس دعا کو قبول کر لینا۔ آغاجان کی زندگی میں دو لفظ بہت زیادہ معنی رکھتے تھے۔ ایک ’’جہدِ مسلسل ‘‘ اور دوسرا ’’محبت‘‘ ۔ اقبال کی شاعری میں بھی اسی لیے بہت پسند تھی کہ وہ جہدِ مسلسل اور محبت کا پیغام دیتی ہے۔ مجھے یہ اشعار بہت سناتے تھے۔
بہل اے دخترک ایں دلبریھا
مسلماں را نہ زیبد کافریھا
منہ دلبر جمال غازہ پرور
ازنگاہ باموز غارت گری ھا
اے بیٹا ! یہ ناز و انداز اور آرائش وزیبائش ترک کردو۔ مسلمانوں کو تو کافروں کے طور طریقے زیب نہیں دیتے۔ اپنے کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھ لو۔
زشام ما بروں آور سحر را
زقرآں بازخواں اہل نظر را
نمے دانی کہ سوز قرآت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمر ؓ را
میری اُمت کی تاریک شام میں سے سپیدۂ سحر کی نوید دلادو۔ اہلِ بصیرت کو پھرسے قرآن کی تلاوت سے آشنا کرادو۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ تیری تلاوت کا سوزہی تو تھا کہ جس نے حضرت عمرؓ کی تقدیربدل دی ۔