December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

قاضی صاحب


شاہنوازفاروقی

مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت کے تین پہلو تھے :تقویٰ، علم ، اور سیاسی تحرک ۔مولانا کی شخصیت کے ان تینوں پہلوؤں کا کچھ نہ کچھ اثر مولانا کے بعد امارت پر فائز ہونے والوں پرمرتب ہوا ہے ۔ لیکن میاں طفیل محمد ؒ ان تینوں پہلوؤں میں تقوے کی سب سے نمایاں علامت تھے ۔یعنی میاں صاحب کو جس طرح مولانا کے تقوے سے حصہ فراہم ہو اکسی اور کو نہیں ہوا ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قاضی صاحب کی شخصیت مولانامودودی ؒ کے سیاسی تحرک یا political Activismکا استعارہ تھی قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک کاروانِ دعوت ومحبت تخلیق کیا ۔قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے آئی جے آئی کی سیاسی مہم مرکز کردارادا کیا ۔قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے پاکستان اسلامی فرنٹ کا تجربہ ایجاد کیا ۔قاضی صاحب کے اس سیاسی تحرک نے پاسبان کی صورت گری کی ۔ قاضی صاحب کے سیاسی تحرک نے متحدہ مجلس عمل کی بنیادفراہم کی ۔ ان تمام چیزوں نے جماعت اسلامی کی سیاسی اہمیت میں بے پناہ اضافہ کیا ۔یہ قاضی صاحب کی بڑی کامیابی تھی ،مگر اس بڑی کامیابی کی ناکامیابی یہ تھی کہ سیاسی تحرک مولانامودودیؒ کی شخصیت کا جز تھا لیکن قاضی صاحب نے اس جزپر اتنی توجہ مرکوز کی اور اس پر اتنا اصرار کیا کہ جز،کُل بن گیا ۔ ہم نے کئی بار قاضی صاحب سے عرض کیا کہ بلاشبہ جماعت اسلامی میں پڑھنے لکھنے کی صورت حال دوسری جماعتوں سے بدرجہابہتر ہے مگر اس کی سطح وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے قاضی صاحب کو اس مسئلے کا علم تھا اور وہ کہتے تھے کہ بلاشبہ جماعت اسلامی اور جمعیت میں مطالعے کا رجحان کم ہوا ہے ۔ مگر وہ اس مسئلے کو بہت بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعت کے لیے اصل چیز تحرک یا Activismہے ، اور اس Activismسے ہر کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے اس نقطہ نظر کی وجہ یہ تھی کہ وہ’’ صاحبِ عمل ‘‘ تھے اور اکثر صاحبِ عمل لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ’’عمل ‘‘ کو ہر چیز کا نعم البدل سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمل کی بنیاد ’’علم‘‘ ہوتا ہے، جیسا جس کا علم ہو تا ہے ویسا اس کا عمل ہوتا ہے۔صحیح عمل کے لیے صحیح علم ناگزیرہے اور علم کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے ۔

قاصی صاحب ملک کے واحد سیاست دان تھے جو اقبال کے اردواور فارسی شاعری پر گہری نگاہ رکھتے تھے ۔انہیں اقبال کے سیکڑوں اشعاریاد تھے اور وہ اپنی تحریروں میں اقبال کا حوالہ اس سہولت اور بر جستگی کے ساتھ دیتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی ۔اقبالیات کے سلسلے میں ان کا علم اور فہم ،اقبال کے بہت سے ماہرین سے بھی زیادہ تھا۔اقبال سے ان کا تعلق ادبی نہیں نظریاتی تھا ۔یعنی وہ اقبال کے فن سے زیادہ اس کے نظریات سے دلچسپی رکھتے تھے ، اور یہ دلچسپی زندگی کے ایک دور سے متعلق نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنی عمر کے ایک بڑے حصے میں اقبال کو پڑھااور جذب کیا تھا ۔اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں قاضی صاحب کی غیر معمولی لسانی اہلیت کا بھی دخل تھا ۔پشتوقاضی صاحب کی مادری زبان تھی لیکن وہ اردوبھی اہلِ زبان کی طرح بولتے اور لکھتے تھے ۔ ان کی فارسی زبان کی اہلیت اتنی اور ایسی تھی کہ وہ اقبال جیسے شاعرکے کلام کو فارسی میں پڑھ سکتے تھے ۔ انگریز ی اور عربی بھی قاضی صاحب کو اچھی خاصی آتی تھی ۔اتنی زبانوں کا علم اب اہلِ سیاست کیا علما اور دانش وروں میں بھی کامیاب ہے۔

قاضی صاحب مزاجاََ وسیع المشرب تھے ۔ اگرچہ وہ جماعت اسلامی کے مخصوص ماحولکی پیداوار تھے لیکن وہ جماعت کے مخصوص کلچر سے بلند ہوکر سوچ اور عمل کر سکتے تھے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے جماعت کے دائرے کے باہر ایسے ذاتی مراسم پیدا کرکے دکھائے جواجتماعیت کے لیے انتہائی مفید تھے ۔مولانانورانی کی ایک عمر جماعت اسلامی کی مخالف میں بسر ہوئی تھی مگرقاضی صاحب مولانانورانی کے خاندان کا فرد محسوس ہوتے تھے ۔اگر چہ مولانانورانی کے انتقال کے بعد یہ تعلق یک طرفہ ثابت ہو الیکن مولانا نورانی جب تک زندہ رہے قاضی صاحب کے مراسم اجتماعیت کے لیے فیض رساں رہے ۔مولانافضل الرحمن اور ان کی سیاست رازنہیں ۔مولاناسے تعلق قائم کرنا آسان ہے مگراس کابوجھ اٹھانابہت مشکل ہے ۔ لیکن قاضی صاحب نے یہ بوجھ بھی اٹھاکر دکھایا اور شخصی اور اجتماعی سطح پر اس کی بھاری قیمت ادا کی ۔عمران خان کی شخصیت،ماحول اور پس منظر بہت مختلف تھا مگر قاضی صاحب نے عمران خان کے ساتھ بھی انفرادی نوعیت کے مراسم قائم کرکے دکھائے ۔ انہوں نے مراسم کو یہاں تک نبھایا کہ عمران خان اور جمعیت کے درمیان تنازع برپا ہو اتو قاضی صاحب نے عمران کے مؤقف کودرست تسلیم کرتے ہوئے اُن کی حمایت کی ۔

قاضی صاحب کے حوالے سے ہمارا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ وہ اچھے سامع تھے اور ہم جیسے معمولی کارکنوں کی بات بھی توجہ سے سنتے تھے،اور اگر انہیں بات کرنے والے کی رائے میں کوئی معقولیت نظرآتی تھی تو وہ اسے قبول کرلیتے تھے۔ڈاکٹر عبدالقدیرجنرل پرویزمشرف کے ظلم اور جبر کا نشانہ بنے تو پوری قوم اضطراب ،ملال اور توہی کے احساس سے دوچارہوگئی۔ ہم انے اس فضامیں ایک رات 12بجے کے بعد قاضی صاحب کو فون کیا اور کہا اس صورت حال میں اور کچھ نہیں تو ملک گیرہڑتال ہی کرالی جائے ۔ قاضی صاحب نے کہا کہ ہم متحدہ مجلس عمل کی سیاست کررہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن سعودی عرب میں ہیں ، ہم نے اُن سے پوچھے بغیر ہڑتال کا اعلان کیا تو وہ اس کا برا مان سکتے ہیں ۔ہم نے عرض کیا کہ اس موقع پر ہڑتال مولاناکی ناراضی سے زیادہ اہم ہے۔ قاضی صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا اور اگلے دن ہڑتال کا اعلان کردیا ۔یہ ہڑتال پورے ملک میں جزوی طورپراور کرچی میں مکمل طورپرکامیاب ہوئی ۔قاضی صاحب ایک بار کراچی آئے تو کہنے لگے کراچی میں ’’اجنبیت‘‘ محسوس ہوتی ہے ۔ان کا اشارہ ایم کیوایم کے اثرات سے پیدا ہونے والی صورت کی جانب تھا ۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ قاضی صاحب جتنے مقبول اس’’اجنبی شہر‘‘ میں تھے اتنے مقبول وہ کہیں بھی نہیں تھے۔اسلامی فرنٹ کی شکست کے بعد قاضی صاحب کے خلاف ایسی فضاپیدا ہوئی کہ انہیں امارت سے مستعفی ہونا پڑا۔لیکن امیرکا انتخاب ہو اتو قاضی صاحب ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے اور انہیں سب سے زیادہ ووٹ اہلِ کراچی نے دیے۔

اقبال ؒ اور مولانا مودودی ؒ کی فکر اور جماعت اسلامی کی جدوجہد نے قاضی صاحب کی شخصیت میں ایک ایسی بین الاقوامیت پیدا کردی تھی جو ہر اعتبار سے تحریک اسلامی کے رہنماکے شایانِ شان ہے۔قاضی صاحب کی اس بین الاقوامیت پر بعض لوگ یہ کہہ کر تنقیدکرتے تھے کہ ہمیں باہر سے زیادہ اپنے ملک کی پرواہونی چاہیے اور یہ کہ ہم بیرونی دنیا پر بہت زیادہ توجہ کر کے اسلام دشمن طاقتوں کو خوامخواہ اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔ مگر قاضی صاحب کبھی اس طرح کے تجزیوں کو خاطر میں نہیں لائے اور وہ اسلامی تحریکوں سے قریبی تعلقات اور امتِ کے اتحادکے لیے آخری وقت تک سرگرم عمل رہے ۔