December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

منور صاحب کے بیٹے کا تقریب ولیمہ فاران کلب میں جاری تھا ، ملکی سطح کے لیڈران تقریب میں شریک تھے کہ رات شاید 9:30 یا 10 بجے یہ روح فرساں خبر آئی کہ غفور صاحب انتقال فرما گئے ۔۔۔ ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) ۔۔۔۔ خوشی سے دمکتے چہروں پر مایوسی اور غم کی کیفیت طاری ہوگئی ۔۔۔ جہاں کچھ دیر قبل خوشی کی انتہا نہ تھی وہاں اب غم کی بھی انتہا نہ تھی ۔۔۔ خبر آتے ہی میرے موبائل فون پر ٹی وی چینلز کی نا ختم ہونے والی کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ سلمان شیخ ، سعد شاہ اور چند دوستوں کے ساتھ فوری طور پر فاران کلب سے پٹیل ہاسپٹل گلشن اقبال کی جانب روانہ ہوا مگر ہاسپٹل پہنچنے سے قبل ہی انکی میت گھر کے لیے روانہ کر دی گئی ۔۔۔ ہماری گاڑی بھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ لگ گئ اور جب گھر پہنچے تو گھر کے باہر اہل محلہ ، رشتہ دار اور جماعت کے کارکنان جمع ہو چکے تھے ۔۔۔ نمایاں شخصیات میں سے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی اور ڈاکٹر واسع شاکر پہلے سے موجود تھے ۔۔۔ جسد خاکی کو ایمبولینس سے اتار کر گھر کے اندر لے جایا گیا ، تمام افراد کو کمرے سے باہر نکال دیا گیا کہ اہل خانہ دیدار کرلیں ۔۔۔ ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے ارکان عامر خان اور واسع جلیل بھی دیگر ذمہ داران کے ساتھ گھر پہنچے ۔۔۔ ڈاکٹر معراج انہیں لے کر کمرے میں گئے اور غفور صاحب کا دیدرا کروایا ۔۔۔ فاران کلب کی تقریب سے فراغت کے بعد دیگر تنطیموں کے ذمہ داران بھی تشریف لے آئے ۔۔ تقریب میں آئے دیگر تنظیموں کے رہننما اور وزراء بھی گھر تشریف لے آئے ۔۔۔ سب غم سے نڈھال تھے ۔۔۔ اہستہ آہستہ رات 12:30 کے بعد سب لوگ جانے لگے ۔۔۔۔ سردی کا موسم تھا ڈاکٹر معراج اور ڈاکٹر واسع شاکر نے اہل خانہ کی باہمی مشاورت سے جسد خاکی کو گھر میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ برف کی سیلیں چاروں طرف لگا دی گئیں ۔۔۔ رات 2 بجے میں بھی نکلا کہ صبح جلدی آنا ہے ۔۔۔ اس وقت تک ڈاکٹر معراج اور چند رہنما رہ گئے تھے جو کہ وہیں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

صبح جب دوبارہ غفور صاحب کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ معراج بھائی اب بھی وہیں موجود ہیں اور شاید رات سوئے بھی نہیں ۔۔۔ ، محترم قاضی حسین احمد صاحب بھی گھر پر تشریف لا چکے تھے جبکہ وہ خود شدید بیمار تھے ۔۔۔ مگر اپنے دست راست کے جنازے میں آنا ضروری سمجھا ۔۔۔ جسد خاکی کو اداہ نور حق لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے اپنی زندگی گذار دی تھی ۔۔۔ عوام اور کارکنان کا رش تھا جو آخری دیدار کرنا چاہتا تھا ۔۔ تمام تنظیموں کے مرکزی رہنما آئے ہوئے تھے ۔۔۔ قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ نماز جنازہ میں پہلی صف میں کھڑے بھی ہوئے اور جنازے کو کاندھا بھی دیا کسی کو نہیں معلو تھا کہ چند دنوں کے بعد ہی قاضی صاحب بھی ہم سے رخصت ہوجائیں گے ۔۔۔ غفور صاحب کی نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن صاحب نے پڑھائی ۔۔۔ جسد خاکی کو سخی حسن قبرستان لے جانے کے لیے جب الخدمت کی ایمبولینس میں رکھا گیا تھا موجودہ قیم کراچی جماعت اسلامی عبد الوہاب بھائی نے ڈرائیور کو ہٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور اہل خانہ کے ساتھ ساتھ معراج بھائی بھی ایمبولینس میں بیٹھ گئے ۔

معراج بھائی کی غفور صاحب سے محبت دیکھ کر میں نے قیم جماعت کراچی نسیم صدیقی صاحب سے پوچھ لیا کہ یہ معراج بھائی مستقل کیوں ہیں یہاں پر ، سب لیڈران آئے اور چلے گئے مگر معراج بھائی نہں جا رہے تو انہوں نے کہا کہ " معراج بھائی کو غفور صاحب جمعیت کی کراچی کی نطامت کے دور سے ہی بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور منہ بولا بیٹا بھی بنایا ہوا تھا " ۔۔۔

جمعیت سے فراغت کے بعد جماعت میں میری میڈیا میں ذمہ داری لگی تو غفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔۔۔۔ حقیقت میں غفور صاحب کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ شدید مخالفین بھی انکی دل سے عزت کرتے تھے ۔۔۔ جلسے ، جلوس ، پریس کانفرنسز میں غفور صاحب کو کبھی کسی کا نام لیکر براہ راست تنقید کرتے نہیں دیکھا ۔ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے تھے مگر مفاہمت کا دروازہ وہ ہمیشہ کھلا رکھتے تھے جبھی وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کہلاتے تھے ۔۔۔ شدید علالت کے باوجود ذمہ داران جماعت کی خواہش پر وہ خطاب کرنے آتے تھے ۔۔۔ آخری لمحون میں کار سے باہر لایا جاتا بمشکل ایک سے 2 منٹ خطاب کرتے اور انکے گنتی کے چند جملے ہی کئی کئی گھنٹے خطاب پر بھاری ہوتے تھے ۔۔۔ کئی گھنٹوں سے کھڑے صحافی حضرات خوش ہر کر کہتے کہ " نیوز مل گئی " ۔۔۔۔ جب غفور صاحب مستقل بستر پر آگئے تو کئی بار ذمہ داران جماعت کے ہمراہ انکی عیادت کے لیے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا ۔۔۔ وہ واقعی بہت عظیم شخص تھے ، کبھی انکے منہ سے ایک لفظ شکایت کا نہیں سنا ۔۔۔

اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاءفرمائے ۔ آمین

ریاض صدیقی، کراچی