میں اور میرا گھرانہ اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جن کو پروفیسر غفور احمد نے شرفِ میزبانی بخشا۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عوام سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا واحد اور سب سے بڑا رابطہ جلسے جلوس اور چھوٹے بڑے اجتماعات ہی ہوا کرتے تھے۔ عید میلاد النبی ؐ کے مہینے میں تو گلی گلی تقاریب ہوا کرتی تھیں اور علمائے کرام مدعو کیے جاتے تھے۔ سیاسی پروگراموں میں بھی جہاں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا وہیں بے شمار چھوٹے چھوٹے اجتماعات ہر ہر بستی میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ اہتمام تو کسی چھوٹے اجتماع یا جلسے کا کیا جاتا لیکن جلد ہی یہ کسی بڑے جلسے کا روپ دھار لیا کرتا تھا۔ چاروں جانب لگی قناطیں لپیٹ دی جاتی تھیں اور اکثر اوقات شامیانے تک اتارنے پڑجاتے تھے تاکہ لوگ اپنے قائدین یا علمائے کرام کو دیکھ اور سن سکیں۔ جماعت اسلامی کے تحت اس قسم کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے مواقع پر یہ صورت حال اُس وقت لازماً پیدا ہوجاتی تھی جب لوگوں کو یہ معلوم ہوتا کہ اس میں مرکزی رہنما پروفیسر غفور احمدؒ مدعو ہیں اور اپنے خطاب سے محفل کو نوازیں گے۔
کراچی کی سطح پر چند شخصیات جو ہر حلقے میں یکساں مقبول و محترم تسلیم کی جاتی تھیں ان میں پروفیسر غفور احمدؒ سرفہرست رہے ہیں اور اپنی عمر کے آخری ایام تک وہ ہر عام و خاص میں مقبول و معروف رہے۔ میں اُن لوگوں میں شامل رہا ہوں جو شاید ہی ان کے کسی ایسے چھوٹے بڑے پروگرام میں شریک نہ ہوئے ہوں جس میں ان کی آمد یقینی ہو۔ مجھے ان سے اور ان کی شخصیت سے عقیدت کی حد تک پیار رہا ہے۔
پروفیسر غفور احمدؒ 26 جون 1927ء کو بریلی یوپی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انڈسٹریل اکاؤنٹس کا کورس مکمل کیا اور انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹس کے فیلو ہوگئے۔ پروفیسر غفور احمدؒ 1950ء میں 23 برس کی عمر میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ آپ کئی برس تک کراچی جماعت کے امیر رہے اور بعد میں نائب امیر جماعت اسلامی کے طور پر کام کرتے رہے۔ تجارتی اداروں میں کام کیا، تعلیمی اداروں میں پڑھایا جن میں انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس پاکستان، انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس اور اردو کالج کراچی شامل ہیں۔ تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں میں دلچسپی اور شغف کی بنا پرآپ کئی برس تک سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی بورڈ فار کامرس کے نصاب سے منسلک رہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ 1958ء میں رکن کراچی میونسپل کارپوریشن اور 1970ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء میں دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کے قائد بھی بنائے گئے۔ آپؒ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ آپ قومی اتحاد کی اُس مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے جس نے ذوالفقارعلی بھٹو سے مارشل لا کے نفاذ سے پہلے فیصلہ کن مذاکرات کیے۔ 1978ء سے1979ء تک آپ ضیا دور میں وفاقی وزیر صنعت بھی رہے جس کو آپ اپنی زندگی کا سیاہ ترین دور کہتے تھے۔ کسی فوجی آمریت میں شرکت کا جماعت اسلامی کو بہت خسارہ اٹھانا پڑا اور کراچی کی سطح پر پروفیسر غفور احمدؒ کی اپنی شخصیت کی شان پر بھی بہت فرق پڑا جس کا انہیں تمام عمر بہت ملال رہا۔ بعد ازاں 1988ء سے 1992ء تک اسلامی جمہوری اتحاد کے سیکرٹری جنرل کے طور پرکام کیا۔
اپنے طویل سیاسی سفر میں وہ متعدد بار گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کا طویل ترین دورانیہ نو ماہ کا وہ عرصہ ہے جب جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا جس کو بعد میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر بحالی کا حکم نامہ جاری کیا۔ آپؒ پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن کا تعلق پاکستانی سیاست سے ہے۔
نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر غفور احمدؒ ، دو دفعہ کے منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کے منتخب سینیٹر، 1973ء کی آئین ساز کمیٹی کے رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کے سابق سیکرٹری جنرل، 1977ء کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کے سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کے استاد، پانچ کتابوں کے مصنف ہاتھ میں چائے کی ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتے ہیں، میز پر رکھتے ہیں اور ڈرائنگ روم میں تشریف فرما صحافیوں سے معذرت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ معاف کیجیے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔ اللہ اکبر، وہ کون سی سہولت ہے جو کسی ایسے فرد کے گھر میسر نہیں ہوسکتی تھی! لوگ محض سیاسی پارٹیوں کے عہدوں پر پہنچ جائیں تو ان کی حیثیتیں بدل جایا کرتی ہیں، آپؒ تو اتنے سارے سیاسی اور معاشرتی عہدوں پر متمکن ہونے کے باوجود گھر میں کام کرنے والیوں یا والوں تک کو رکھنے کے روادار نہیں تھے۔ جو لوگ دوسروں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں وہ اپنی خدمت کسی سے نہیں لیا کرتے۔
پروفیسر غفور احمدؒ کے متعلق پاکستان کے ایک نام ور صحافی کی ایک کاوش قلم بند کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جو میرے دل کی آواز بھی ہے۔ وہ کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:
’’خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، پروفیسر غفور احمد۔۔۔ بظاہر ان ناموں میں کوئی نظریاتی قدرِ مشترک نہیں۔ نسلی و ثقافتی پس منظر بھی مشترک نہیں۔ مگر یہ سب اُس سیاسی نسل کے لوگ ہیں جو بنی اسرائیل کے بارہویں قبیلے کی طرح کہیں کھو گئی۔ یہ دلائل کے اسلحہ سے لڑنے والے بامروت، وضع دار، حریفوں کی پڑھی لکھی، گرم و سرد کی آزمائش سے گزری کندن پیڑھی تھی۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا، اوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ کا نظریہ بھلے کچھ بھی ہو مگر ان لوگوں سے مل کر آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے، کچھ دے کر نہیں، لے کر اٹھتے تھے۔ یہ سب کے سب ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھے۔ ان کے آگے پیچھے نہ کلاشنکوف بردار لشکر تھے، نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، نہ یہ آنے والے کو طویل انتظار سے گزار کر ’دیکھو میں کتنا اہم اور مصروف آدمی ہوں‘ ثابت کرتے تھے اور نہ ہی ’برخوردار تمہیں کیا پتا، میں تمہیں بتاتا ہوں‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔ مجھے واقعی یاد نہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا، مگر یہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیا تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سیکرٹری کے بجائے انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اسی روز شام کا وقت دے دیا۔ تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالا تو کجا مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ تھے۔ چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیا بلکہ خود غفور صاحب باہر نکل آئے۔ پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈ روم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈ روم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز، ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں اور ایک جائے نماز۔۔۔ چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائب امیرِ جماعتِ اسلامی، دو دفعہ کا منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر، 1973ء کی آئین ساز کمیٹی کا رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سیکرٹری جنرل، 77ء کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا استاد، پانچ کتابوں کا مصنف ہاتھ میں چائے کی ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجیے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔ اور پھر میں ہر تیسرے چوتھے مہینے غفور صاحب کے پاس جانے لگا۔ ضعیفی کے سبب ان کی نقل و حرکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی لہٰذا میں نے ان کی جبری فراغت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے پاس بیٹھ کر بہت سکون ملتا تھا۔ وہ پاکستانی سیاست کے اندرون و بیرون کے ایک اہم شاہد تھے مگر مجھ جیسوں کی بچکانہ بقراطیاں بھی بات کاٹے بغیر سنتے رہتے۔ کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دیتے وقت نہ غفور صاحب کو اِدھر اُدھر دیکھ کر لفظوں کو مشینی انداز سے ناپنے تولنے کی عادت تھی، نہ ہی وہ بات کو اہم اور پراسرار ثابت کرنے کے لیے سرگوشی کی اداکاری کر پاتے تھے، نہ ہی ’نو کمنٹ‘ کہہ کر بات بدلنا جانتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت کا جنرل ضیا کا ساتھ دینے کے بارے میں آج کیا مؤقف ہے، مگر غفور صاحب تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے اور بھٹو صاحب میں معاہدہ طے پا جانے کے بعد فوج کی مداخلت بلاجواز، غیر ضروری اور سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ جنرل ضیا کا ساتھ دینا جماعتِ اسلامی کی ناسمجھی تھی۔ جماعت نے ضیا اور اس کے ارادوں کو سمجھنے میں غلطی کی۔ مگر جماعت چوں کہ امارت کے ڈسپلن کے تابع ہوتی ہے، لہٰذا اندرونِ خانہ تو بے چینی تھی لیکن امیر (میاں طفیل محمد) نے چوں کہ ایک فیصلہ کر لیا تھا لہٰذا اس فیصلے کے ساتھ چلنا تنظیمی ڈسپلن کی مجبوری تھی۔ ایک ملاقات میں ان سے میں نے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اتنے برس بعد کیسا لگتا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ بھٹو مزاجاً فاشسٹ، خوشامد پسند اور منتقم مزاج تھا لیکن ذہین اور قوم پرست تھا اور اس نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں مگر بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی، نہ ہی ملک کو لوٹا۔ یہ رجحان تو بعد میں شروع ہوا۔ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جماعتِ اسلامی اور اس کے نظریات کے شدید مخالفین سے بھی میری ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ بہت سے جماعت کی قیادت کا نام لے کر بھی اچھی بری گفتگو کرتے ہیں، لیکن اب تک کوئی ایک سیاست دان یا کارکن ایسا نہیں ٹکرایا جس نے غفور صاحب کی برائی یا غیبت کی ہو۔ شاید غفور صاحب ان گنے چنے سیاست دانوں کی صف کے آخری آدمی تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی اور عوامیت شک و شبہ سے بالا تھی‘‘۔
موجود لوگوں میں کیا ایسا کوئی ہے۔۔۔