December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

قومی انتخاب اور جماعت اسلامی کی آزمائش

ڈاکٹر حمیرا طارق

جماعت اسلامی پاکستان نے تقسیم ہندوستان اور قیام پاکستان کے بعد اپنے پروگرام میں تبدیلی امامت کے نکتے کا اضافہ کیا تھا۔کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔اس لیے بانی جماعت جو ایک جید عالم دین اس صدی کے مجدد،مفسر القرآن اور حدیث نبوی کا دفاع کرنے والے تھے۔انہوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کا آئین قرآن وسنت کے مطابق ہو تاکہ یہاں کی مقنہ ، عدلیہ اور انتظامیہ دین اسلام کے مطابق نظام حکومت چلائے۔ مسلم اکثریت کے حامل ملک کے اندر اسلام کا دیا ہوا نظام نافذ کرنے کےلیے آئینی اور جمہوری راستے کا انتخاب کیا گیا۔کیونکہ پاکستان کے قانون میں حکومت کے قیام کا جمہوری طریقہ رائج ہے۔گویا کہ عوامی رائے کو اپنے ساتھ ملا کر انہیں آمادہ کرتے ہوئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی قوانین پر عملدرآمد کو ممکن بنانا۔جسے عام اصطلاح میں سیاست کہتے ہیں جبکہ یہ عین دین ہے کیونکہ ارشاد ربانی ہے۔ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (سورۃ یوسف :40) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں اس نے حکم دیا کہ تم صرف اسی کی بندگی کرو۔ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 55 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں در حقیقت تمھارا رب اللہ ہی ہے۔جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھاک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔جس نے سورج ،چاند اور تارے پیدا کیے سب اُ س کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے بڑا بابرکت ہے اللہ ،سارے جہانوں کا مالک پروردگار۔ ارشاد الہی ٰ سے واضح ہوتا ہے کہ دین سے مراد اسلامی نظام زندگی ہے مگر پاکستان میں سیاست کے معنی دھوکہ ،چالبازی اور فریب کے لیے جاتے ہیں ۔اس لیے سیاست کو دنیا داری اور گندہ کھیل کہا جاتا ہے۔عقائد اور چند عبادات کا نظام ہے ۔ مولانا مودودی ؒ نے قرآن کے احکامات اور سنت رسول ﷺ اور فلسفہ اقبال کے مطابق ( جدا ہو دین سیاست سے رہ جاتی ہے چنگیزی) کے مصداق حکومت کو بدلنے کا پروگرام بنایا اس لیے جماعت اسلامی گزشتہ کئی دھائیوں سے انتخابات میں حصہ لے رہی۔ سال کے 365 دن خدمت کے کام بھی انجام دیتی ہے ۔قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے ۔اس کرپٹ نظام کو بدلنے کے لیے جان ومال ،وقت اور صلاحیتیں لگاتی ہے۔مگر ہر بار ناکام ہو جاتی ہے ۔ غور طلب بات ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔اس حوالے سے بہت سارے افراد سوال اٹھاتے ہیں ۔

1۔پیپلز پارٹی آئی اور چھا گئی ۔پورے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ،سیاہ وسفید کی مالک ٹھہری۔اسی طرح مسلم لیگ اور پھر پاکستان تحریک انصاف کا غلغلہ رہا اور آج بھی موجود ہے۔مگر جماعت اسلامی کامیاب نہیں ہوئی۔

2۔ایک سوال یہ بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ پورے ملک کی عوام آپ کو امانت اور دیانت دار سمجھتی ہے۔پیسہ آپ کو دیتی ہے ،آپ کی تعریف کرتی ہے ،مگر ووٹ نہیں دیتی۔

3۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کی برادر تنظیمیں جو مختلف دائروں ( طلبہ وطالبات ،اساتذہ ،ڈاکٹر ،ریلوے وکلا) میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقہ شعبوں کے افراد کی خدمت میں بھی مصروف رہتی ہے۔۔ یونین سازی میں موجود رہتی ہے ۔انتخابات میں حصہ لیتی ہے ۔کبھی کامیاب ہوتی ہے اور کبھی ناکام ہوتی ہے ۔مگر فطری طور پر اپنے کام کے حوالے سے فورم پر موجود رہتی ہے ۔

اسوقت یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی کو اپنے نام ونشان کے ساتھ ووٹ کیوں نہیں ملتا۔جماعت اسلامی کے ماضی پر نظر ڈالیں تو اتحادی سیاست کے نتیجہ میں حکومت میں شامل رہی کچھ وزارتیں بھی ملیں مگر اتحادیوں نے وعدے پورے نہیں کیے۔جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کی قیادت کے لیے اتحادی سیاست کو خیر باد کہنا مجبوری ٹھہرا۔ اگر ہم برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسلام صوفیا کرام کے ذریعے پہنچا اس لیے ہماری معاشرت میں دین اسلام کا درست تصور آج بھی موجود نہیں ہے ۔دین کو عقائد اور چند مراسم عبودیت کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔جس کا تعلق زندگی کے عمومی معاملات اور مسائل سے نہیں ہے۔اس لیے عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ دینی جماعت کا کام صرف قرآن وحدیث کی تعلیم دینا ۔خدمتی کام انجام دینا ،نکاح پڑھانا اورجنازے اٹھانا رہ گیا ہے۔ یہ لوگ ملک نہیں چلاسکتے اگر انہیں ملکی نظم ونسق پر بٹھادیا گیا تو جبری طور پر اسلام نافذ کر دیں گے ۔اور اسلام پر عمل کے نتیجے میں ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہم نے اگر انہیں مینڈیٹ دے دیا تومقتدر طاقتیں ان سے مینڈیٹ چھین لیں گے اسطرح ہمارا مینڈیٹ ضائع ہو جائے گا۔ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جماعت کے اندر کا کوئی کمزور پہلو مقتدر قوتوں کے پاس نہیں ہے۔جس کو استعمال کرتے ہوئے مقتدر قوتیں جماعت اسلامی کی قیادت کو قابو میں رکھ سکیں ۔ جمہوری معاشروں میں عام آدمی اور دانشور کے ووٹ کی قدر وقیمت برابر ہے ۔ہمارے ملک میں اکثر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔جو تھوڑے سے پیسوں اور معمولی مفاد کی خاطر ووٹ بیچ دیتے ہیں ۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں جاگیر داری نظام اور وڈیرہ شاہی موجود ہے ۔عام آدمی ذہنی اور جسمانی طور پر اُن کے چنگل میں پھنسا ہوا اور وہ ان کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پورے ملک پر چند خاندانوں کی حکو مت ہے وہ خاندان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔اور وہی خاندان مسلم لیگ میں گئے تو مسلم لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اب انھی خاندانوں کی نئی نسل عمران خان کو پسند کرتی ہے ۔ اس لیے مذہبی طور پر پاکستانی عوام مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہے۔دینی قوتیں بھی متحد نہیں ہو پاتیں ،مذہبی جماعتوں کا ووٹ وہابی ، دیو بندی ،اور بریلوی میں تقسیم ہو جاتا ہے۔پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے ۔

جماعت اسلامی کی دعوت اُس کے لٹریچر کے ذریعے پھیلی ہے جماعت کا زیادہ تر کام شہری علاقوں میں ہے ۔دور دراز کے دیہاتوں تک ہمارا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا۔مقتدر قوتیں انتخابات سے قبل عوام الناس کی رائے سازی کا عمل شروع کر دیتی ہیں ۔اپنی من پسند نامزد کردہ پارٹی کو نوازنے اور اُن کے ووٹ بنوانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔اور پھر انتخابات کے دن طے شدہ نتائج عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں ۔دھاندلی کے تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔کسی بھی معاشرے کو مہذب اور متمدن بنانے کے لیے اُس طبقہ کے دانشور ،مذہبی راہنما اور نظام تعلیم کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ترقی یافتہ اقوام اپنی نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ہمارا المیہ ہے کہ دانشور طبقہ اسلام کو فرسودہ نظام سمجھتا ہے ۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہے۔دین اسلام کو چند عقائد اور رسمی عبادات تک رکھنا مناسب سمجھتا ہے۔عملی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی نظام میں مغرب کو اپنا راہنما مانتا ہے۔ اس لیے ہمارا نظام تعلیم اور معاشرت نفاق زدہ ہے ۔ہم بچے کو سکھاتے ہیں کہ نماز پڑھنا فرض ہے مگر اُس کے سامنے نماز نہیں پڑھتے گویا کہ اُسے سکھارہے ہیں ،،نماز ایسا فرض ہے جسے نہ بھی ادا کیا جائےتو خیریت ہے،، مذہبی راہنما مسلکی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں ۔دنیاوی تعلیم سے دور ہیں ۔معاشرے میں کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔مادہ پرستانہ معاشرت اُنہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتی۔صاحب عقل ودانش اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہر قوم اپنے نظام تعلیم اور ابلاغ کی پالیسی اپنے نظریہ کے مطابق مرتب کرتی ہے۔ جیسی معاشرت مطلوب ہوتی ہے اُسی کے اعتبار سے نصاب اور استاد متعین کرتی ہے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ گزشتہ پچھتر سالوں سے جو افراد پاکستان کے اقتدار پر قابض رہے ،اُن کا مقصد جیب بھرو ،اپنی نسل سنوارواور ملک لوٹو رہا ہے۔اس لیے لندن اور امریکہ میں اپنی نسلوں کے لیے جائداد یں بنائی گئی ہیں ۔آج ملک پاکستان بغیر کسی نظام کے چل رہا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے ۔کہ ہماری حیثیت کمزور سے کمزور تر اور مہنگائی عروج پر ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس ملک میں جماعت اسلامی کس طرح سے رائے عامہ تبدیل کرنے کی کوشش کرے کہ عوام اسلامی پاکستان ،خوشحال پاکستان اور کرپشن فری پاکستان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی پر اعتماد کرے۔جماعت اسلامی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُسے مذہبی اور سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے۔عام اصطلاح میں دونوں لفظ ایک دوسرے کے مترادف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے متضاد سمجھے جاتے ہیں ۔پاکستان کا مذہبی طبقہ جماعت اسلامی کو کٹر مذہبی جماعت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ۔جماعت تھوڑا سا عوامی ہونے کی کوشش کرتی ہے تو مذہبی طبقہ،ہمدرددان ،وکارکنان جماعت مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔ اور اگر کٹر مذہبیت اختیار کرتی ہے تو سیاسی جماعت ہونے کی حثیت سے عوام الناس پسند نہیں کرتے ،ووٹ نہیں دیتے۔ان حالات میں جماعت اسلامی نے خد مت کے ذریعے عوام میں نفوذ کی کوشش کی ،اس کوشش میں جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے بڑی خدمتی جماعت بن کر سامنے آئی ۔سیلاب ہو یا زلزلہ ،یتیموں کی کفالت کا سہارا ۔صاف پانی کا مسئلہ ہو یا تعمیرنو کے پراجیکٹ سب کچھ عمدگی سے انجام دیا مگر اس خدمت کے کام کو ووٹ میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔کیونکہ انسانی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے،کہ خدمت کے زریعے کبھی ووٹ نہ ملا ۔ایک طرف وطن عزیز کی حالت دگرگوں کی ہوتی چلی جارہی ہے۔نوجوان نسل کا اعتماد اٹھ رہا ہے اور وہ اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے باہر منتقل ہورہے ہیں ،متمول طبقہ کے بچے تعلیم کے لیے یورپی ممالک جاتے ہیں اور پھر وہاں کی شہریت اختیار کر لیتے ہیں ۔مڈل کلاس کے نوجوان اعلی تعلیم حاصل کرکے یورپی ممالک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔غریب والدین اپنی جمع پونجی اور زیورات فروخت کرکے اپنے لخت جگر کو محنت مزدوری کرنے کے لیے دیار غیر بھیج رہے ہیں ۔ادارے تباہ ہورہے ہیں بڑھتے ہوئے خسارے کے تناظر میں پاکستانی حکومت پاکستانی اداروں کو غیروں کے ہاتھوں میں فروخت کر رہی ہے۔امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ نتیجتاَ آج بلوچستان جل رہا ہے ،غصہ اور نفرت کی آگ میں دہشت گردی اور بم دھماکوں سے رہائشی غیر محفوظ ہیں ۔اخلاقیات تباہ ہوچکی ہیں ۔قانوں کی بالا دستی صرف کتابی بات رہ گئی ہے۔پورے ملک میں جس کی لاٹھی اُسکی بھینس کا قانون چلتا ہے۔توانائی کا بحران اور مہنگائی کا عفریت عام آدمی کو خود کشی پر مجبور کر رہا ہے۔ان حالات میں کیا جماعت اسلامی مسلسل شکست کے بعد صرف دعوت وتبلیغ اور خدمت کا کام جاری رکھے ،انتخابی سیاست چھوڑ دے ۔کیا یہ دین کے مقتضا کے مطابق ہوگا۔کیا اسلامی تحریک کے شان شایان یہ فیصلہ ہوگا کہ جس نظام کو وہ حق سمجھتے ہیں انسانیت کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں راہ نجات سمجھتے ہیں شکست کے خوف سے چھوڑ دیں ایسا کیسا ممکن ہے؟یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت مایوس نہیں ہوتی ،شکست کے طعنوں کو اپنے جگر پر سہ کر دامن جھاڑ کر پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہے پھر اپنے اور بیگانے طعنے دیتے ہیں اور آوازیں کستے ہیں کہ یہ بار بار کی شکست کے بعد سمجھ کیوں نہیں لیتے انہیں ووٹ نہیں ملے گا۔اپنے بھی کہتے ہیں کہ پیسہ ضائع کیا ،کارکن کو بھگا بھگا کرہلکان کر دیا۔جب تک جیتنے کی پوزیشن نہ ہو دعوت اور تربیت کا کام انجام دیں ۔

دعوت اور تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تحریک دعوت اور تربیت کے بغیر مردان کار تیار کر سکتی ہے۔اس بات سے اہمیت سے اعراض ممکن نہیں کہ آج جماعت اسلامی کو کچھ دیر رک کر اپنے مردان کار کی تیاری کا منصوبہ بنانا ہوگا ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ،کیا مردان کار کی تربیت کسی خانقاہ میں ہوگی ؟ایسا تو نہیں ہوگا اسی بات کی تردید تو مولانا مودودیؒ کر گئے ہیں ۔بلکہ اسی دعوتی اور سیاسی میدان میں تربیت کرنا ہوگا کیونکہ جماعت اسلامی کی سیاست عین عبادت ہے جہاد ہے دین حق کی دعوت ہے۔تو پھر یہ کام کیسے ہوگا ؟ ۱۔اپنی قیادت پر اعتبار اور شورائی نظام پر بھروسہ اور شوری ٰ جس میں بڑی تعداد میں علما کرام موجود ہیں ۔ ۲۔اپنے نصب العین ،پروگرام اور دعوت پر مکمل یکسوئی ۳۔دین کا صیح تصور ،جماعت کی پالیسی کو سمجھنا ۴۔دعوتی کام (جسے ہم سیاسی سمجھتے ہیں)انجام دیتے رہیں ،رضائے الہیٰ کا جذبہ غالب رہے۔شریعت اسلامی کی پاسداری ہو ۔حدود اللہ کی حفاظت کی جائے ۔دین کے شعائر کی حرمت اور پاسداری کو اولین فرض سمجھا جائے۔ ۵۔جماعت کا ہر کارکن انصار اللہ کے منصب کو سمجھے اور اس پر پورا اترنے کی کوشش میں لگا رہے۔اگر جماعت کی پالیسی سے اختلاف ہے تو متعلقہ افراد تک رائے پہنچائے۔اگر پھر بھی مطمئن نہ ہو تو دستور جماعت کے مطابق اُس نظام کے اندر داخل ہو جائے۔جماعت اسلامی میں تقویٰ اور خدمت دین کی بنیاد پر عام سے عام فرد قیادت اور شوراوں تک پہنچ سکتا ہے۔اس لیے دور بیٹھ کر تنقید کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ خود اُس مقام پرپہنچا جائےاور جماعت کو قوت دی جائے۔یہ جماعت کسی فرد کی جاگیر نہیں یہ تو نصب العین ،شریعت اسلامی اور دستور جماعت کی پاسداری کرتے ہوئےاقامت دین کے لیے قائم کردہ تحریک ہے ۔جس کا مالک ہر وہ فرد ہے جو جماعت کے مقصد سمجھتا اور پسند کرتا ہےاور اُسے اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہتا ہے ۔پاکستان کی خمیر میں شخصیت پرستی ہے اس لیے ہمیشہ شخصیات ابھریں اور نظام پر چھا گئیں ۔اس لیے آج یہ رائے عام پائی جاتی ہے کہ ووٹر کارکن نہیں بناتا بلکہ ووٹر قیادت بناتی ہے۔اس حوالہ سے قائد کی شخصیت اور اُس کا بیانیہ اہمیت کا حامل ہے۔سیاسی حوالہ سے یہ بات درست ہے مگر دینی جماعت ہونے کے ناطے جماعت اسلامی اس جگہ پر بھی مشکل کا شکار ہو جاتی ہے کیونکہ جماعت افراد کو دین اسلام کی طرف بلاتی ہے کسی شخصیت کی طرف نہیں بلاتی۔اور قیادت کا بیانیہ فرد طے نہیں کرتا بلکہ اُسکی شوریٰ طے کرتی ہے ۔کیونکہ جماعت اسلامی ایک شورائی جماعت ہے۔جماعت کی قیادت روٹی ،کپڑا ،مکان کے نظام پر جمع نہیں کر سکتی ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ دینی حیثت بھی مجروح نہ ہو اور سیاسی طور پر کامیابی مقدر ٹھہرے۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی قیادت کو اہل حل وعقد کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔کہ لاکھوں کی تعداد میں نظریاتی طور پر مضبوط کارکن تیار کیا جائے۔جو عملی اور اعتقادی طور پر بھی مضبوط ہو اچھا سیاسی ورکر بھی ہو،اور عام ووٹر کو جماعت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کونسا طریقہ دعوت اختیار کیا جائے اور قیادت کا بیانیہ کیا ہو۔تاکہ لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا وطن پاکستان اس کی حفاظت ،بقا اور ترقی ہر پاکستانی کے ایمان کا مسئلہ ہے ۔امت مسلمہ کے اتحاد اور بقا کی ضمانت ہے۔کیا وہ وطن عزیز جو کہ اتنی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ۔وہ دنیا میں آئی ہوئی تبدیلی کی لہروں سے محروم رہے گا؟یہ سوال ہم سب کو دعوت عمل دے رہا ہے۔