فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کردیے گئے۔ وہ نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اسماعیل ہنیہ اور ان کے ساتھی تہران کی جس عمارت میں مقیم تھے اسے اسرائیل کے گائیڈڈ میزائلوں نے نشانہ بنایا۔ ایران کی حکومت نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کردی ہے اور اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ حماس کی جانب سے بھی تصدیق کردی گئی ہے کہ اسرائیلی حملے میں اسماعیل ہنیہ شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج نے باضابطہ طور پر اس واقعے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے امریکی ذرائع ابلاغ سے کہا ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ میں نشر اور شائع ہونے والی خبروں پر تبصرہ نہیں کرتے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی خبر غیر متوقع نہیں ہے۔ وہ ایک زندہ شہید ہیں اور اس قوم کے نمائندے ہیں جس نے صبر و استقامت کی ایسی مثال رقم کی ہے کہ جس کی مثال موجودہ عہد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسماعیل ہنیہ غزہ کی پٹی میں مقیم تھے۔ اسرائیلی کی فوج نے کئی بار غزہ میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا لیکن ان کی شہادت تہران میں لکھی ہوئی تھی۔ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے کم از کم 62 افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جن میں ان کے بیٹے، پوتے، پوتیاں، بھائی اور بہن بھی شامل ہیں۔ حماس میں اپنے پیش رو قائدین کی طرح شہادت کی موت کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ حماس کے فکری رہنما اور پہلے قائد شیخ احمد یسین جو ایک معذور شخص تھے انہیں اسرائیلی فوج نے میزائل کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ اس کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو بھی اسی طرح میزائل کے ذریعے شہید کیا گیا۔ عبدالعزیز رنتیسی کی شہادت کے بعد حماس نے سیاسی قائد کے طور پر اسماعیل ہنیہ کا اعلان کیا۔ اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کی کارروائی کے لیے اسرائیل کی فوج نے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جبکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری تھے اور اس کے شرائط و ضوابط کے لیے تجاویز اور منصوبے ایک دوسرے کو دے دیے گئے تھے۔ ان مذاکرات کے لیے قطر، ترکی اور مصر خاص طور پر اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ قطر میں حماس کاسیاسی دفتر قائم ہوگیا تھا جہاں اسماعیل ہنیہ مقیم تھے، اسرائیل اسماعیل ہنیہ کو ہر صورت ہٹاناچاہتا تھا، یہ بات تو ہر کسی کو معلوم تھی، جو زندگی اسماعیل ہنیہ نے بسر کی ہے اس کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندہ شہید تھے۔ اسماعیل ہنیہ جب غزہ میں تھے تو بھی ان پر فضائی حملے کیے گئے ہیں لیکن زندگی اور موت کے فیصلے تو اللہ کے ہاں ہوتے ہیں جبکہ غزہ کے فلسطینی نسل کشی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں ایسی جنگ جاری ہے جو دو باقاعدہ فوجوں کے درمیان کی نہیں ہے بلکہ اسرائیل غزہ کے نہتے شہریوں کے قتل عام کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور اسے دنیا سے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی حاصل ہے۔ اس جنگ میں باقاعدہ اعلان کے مطابق 40 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی کثرت ہے۔ پورا غزہ اسرائیل نے کھنڈر بنادیا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل حماس کی مزاحمت کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکا کے ایوان نمائندگان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دہشت گردانہ جرائم کی تفصیلات بیان کی ہیں لیکن اپنے دعوے کے باوجود فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو ختم نہیں کرسکے۔ اسماعیل ہنیہ نے تو اپنا عہد پورا کردیا، لیکن وہ ساری دنیا کے سامنے بالخصوص عالم اسلام اور عالم عرب کے حکمرانوں اور ان کے فوجی قائدین کے سامنے کئی سوالات چھوڑ گئے ہیں، اس سلسلے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عالم اسلام کے ممالک اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کس ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت عالمی سیاست اور خطے میں اس کے اثرات کے اعتبار سے بہت اہم واقعہ ہے۔ اس واقعہ کی اہمیت یہ ہے کہ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کا انتخاب کیا ہے۔ اسرائیل حماس جنگ کے دوران میں اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائل اور ڈرون حملے اور جوابی حملے ہوئے لیکن ابھی تک غزہ کی جنگ خطے کے دیگر علاقوں تک نہیں پھیلی ، ایک خاص علاقے تک محدود ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لبنان میں جنگ پھیل جانے کا خدشہ جاری تھا، اسرائیل نے حزب اللہ کے کمانڈروں کو شہید کیا لیکن عملی جنگ ابھی نہیں پھیلی ہے، نیتن یاہو نے امریکا میں اپنی تقریر میں سارا ہدف ایران کو بنایا تھا۔ اس تقریر کے چند دنوں بعد ہی اسرائیل نے تہران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا۔ ایسے وقت کا اسرائیل نے انتخاب کیا جب تہران میں غیر ملکی سربراہان مدعو تھے۔ اس واقعے کے بعد ایران کے رہبر، ایرانی صدر اور پاسداران انقلاب نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ایران میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، اسرائیل کے جاسوسوں نے ایرانی حدود میں کئی لوگوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن ایران میں مقیم مہمان کو گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنا کر شہید کرنا، غیر معمولی واقعہ ہے اس کے مضمرات کو سامنے رکھ کر اسرائیل نے اپنے منصوبے پر عمل کیا ہے۔ اس لیے کہ ایسے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے طویل منصوبہ بندی کی گئی ہوگی۔ غزہ سے نکلنے کے بعد اسماعیل ہنیہ آسان ہدف تھے۔ انہیں قطر اور ترکی میں بھی نشانہ بنایا جاسکتا تھا لیکن جب ایسے وقت میں کہ دنیا جنگ بندی کے معاہدے کا انتظار کررہی تھی اسرائیل نے تہران میں دو دن کے لیے مہمان بن کر آئے ہوئے ہنیہ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ اس کے علاوہ ایک اور واقعے کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ چین نے فلسطینی تنظیموں کے درمیان ثالثی کی تھی۔ دارالحکومت بیجنگ میں حماس اور الفتح کی قیادت کے درمیان معاہدہ کرایا تھا۔ چین کا فلسطینی تنظیموں بالخصوص فتح اور حماس کے درمیان مصالحت کے لیے متحرک ہونا اہم واقعہ تھا جس کا زیادہ ذکر نہیں ہوا۔ چین جیسے غیر مسلم ملک فلسطینیوں کے غم اور دکھ کو محسوس کررہے ہیں، او آئی سی اور مسلم ممالک کی بے حسی اور خاموشی کے نتیجے میںاسرائیل کو ایسا مجرمانہ قدم اٹھانے کا موقع ملا۔اسی طرح فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے والا غیر مسلم ملک جنوبی افریقا ہے۔ امریکا اور یورپ میں بھی احتجاج ہورہا ہے لیکن عالم اسلام کے موثر اور اہم ممالک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور وہ غزہ کے فلسطینیوں کے آخری آدمی کے شہید ہونے کا انتظار کررہے ہیں تا کہ فلسطینیوں کے گھروں کے ملبے پر اسرائیل سے دوستی کا جشن منا سکیں۔ شاید یہ مسلم حکمران بھول گئے کہ ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرا سکتی ہے اور باری باری سارے ممالک اور ان کے حکمران نشانہ بنیں گے ۔ یہ آنکھ بند کر کے محفوظ نہیں رہ سکیں گے ، انہیں دنیامیں بھی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی۔
بشکریہ جسارت