سدی تیمان غزہ کی باڑ سے اٹھارہ میل پرے جنوبی اسرائیل کے صحراِ نجف میں قائم ہے۔ یہاں چار ہزار فلسطینی قیدی رکھے گئے ہیں۔ امریکا نے افغانستان کے بگرام بیس کیمپ، عراق کی ابو غریب جیل یا گوانتا نامو عقوبت مرکز میں دہشت گردی کے خلاف بیس سالہ جنگ کے نام پر جو سلوک روا رکھا۔ امریکا نے قیدیوں پر جسمانی و نفسیاتی ٹارچر کو جس پستی تک پہنچا دیا۔ اسرائیل اس پستی کو بامِ عروج تک لے گیا۔ ویسے تو اسرائیل کی سات مخصوص جیلوں اور کیمپوں میں اس وقت لگ بھگ تیرہ ہزار فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے قید ہیں۔ مگر سدی تیمان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی شہادت محض وہاں سے رہا ہونے والوں نے نہیں دی بلکہ اسرائیلی اخبار ہارٹز، نیویارک ٹائمز، سی این این، اقوام متحدہ کے ذیلی انسانی اداروں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی سدی تیمان کیمپ کے ابتر ماحول کی توثیق کر چکے ہیں۔
کیمپ کے تین سابق منحرف پہرے داروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہاں سب کچھ فوج کی نگرانی میں ہے۔ غزہ کے نوعمر، معذور، ضعیف شہریوں، صحافیوں، ڈاکٹروں اور اساتذہ سمیت تمام قیدیوں کو گزرے دسمبر کے اسرائیل پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت ’’غیر قانونی جنگجو‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت قیدیوں کو کم ازکم پینتالیس اور زیادہ سے زیادہ پچھتر دن تفتیش کی خاطر فوجی کیمپوں میں رکھنے کے بعد باقاعدہ جیلوں میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ مگر باقاعدہ جیلیں چونکہ گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں لہٰذا سدی تیمان کیمپ میں قیدیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹھونس دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو پنجروں میں اور باقیوں کو بیرکوں یا خیموں میں رکھا گیا ہے۔ چونکہ یہ سب غیرقانونی جنگجو قرار دیے گئے ہیں لہٰذا انہیں کوئی قانونی مدد بھی فراہم نہیں کی جاتی اور نہ ہی عزیز رشتے دار مل سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ریڈکراس کا داخلہ بھی ممنوع ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیلی جیلوں میں دورانِ تفتیش ساٹھ قیدی مار دیے گئے۔ ان میں سے پنتیس قیدی سدی تیمان کیمپ میں ہلاک ہوئے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہلاک ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد پچھلے بیس برس میں مرنے والے زیرِ حراست فلسطینیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔
ایک عرب نژاد اسرائیلی وکیل خالد مہاجنے کو پہلی بار سدی تیمان کیمپ میں نظربند العربیہ چینل کے صحافی محمد عرب سے انیس جون کو پینتالیس منٹ ملاقات کی اجازت ملی۔ خالد مہاجنے نے بعد ازاں اسرائیلی جریدے ’’لوکل کال‘‘ کو اس ملاقات کی تفصیل یوں بیان کی کہ کیمپ کے پہرے داروں نے ماسک پہن رکھے تھے۔ جب صحافی محمد عرب کو ایک آہنی جالی کے پیچھے کھڑا کر کے مجھ سے ملاقات کروائی گئی تو محمد عرب کی آنکھوں سے پٹی اتار دی گئی البتہ مشکیں ڈھیلی نہیں کی گئیں۔ محمد عرب کا وزن بہت کم لگ رہا تھا۔ اسے پہلی بار وکیل سے ملاقات کے لیے دھلے ہوئے کپڑے پہننے کی اجازت ملی۔ البتہ چہرہ گرد آلود تھا اور سر پے کبوتروں کی بیٹھ جیسی کوئی گندگی چپکی ہوئی تھی۔
قیدی محمد عرب کے بقول کیمپ میں اسیروں کے ہاتھ پائوں مسلسل باندھ کے رکھے جاتے ہیں۔ ننگے فرش پر سونا پڑتا ہے۔ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں تب کھولی جاتی ہیں جب انہیں ہفتے بھر بعد بس ایک منٹ کے لیے نہانے کی اجازت ملتی ہے۔ اگر نہانے کا دورانیہ بڑھ جائے تو بطور سزا بندوق کے بٹوں سے مارا جاتا ہے یا گھنٹوں تپتی زمین پر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کی صحت تباہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں روزانہ بس ایک گلاس لسی، کھیرے کے چند ٹکڑے اور ڈبل روٹی کا ٹکڑا نصیب ہوتا ہے۔ ہر سو قیدیوں کے لیے روزانہ ٹائلٹ پیپرز کا صرف ایک رول جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر قیدی بیت الخلا جانے سے کتراتے ہیں اور شدید قبض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ محمد عرب کو جس گودام میں رکھا گیا ہے وہاں سو اور قیدی بھی ہیں۔ مگر بات چیت یا عبادت کی ہرگز اجازت نہیں۔ جو قیدی اسرائیلی پہرے داروں کے خیال میں ڈسپلن توڑتے ہیں انہیں ڈنڈے کے ذریعے ریپ، ان پر کتے چھوڑ دینا، برقی راڈ سے جھٹکے دینے سمیت ہر طرح کی اذیت دی جاتی ہے۔ جو قیدی زخمی حالت میں لائے جاتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال مستند ڈاکٹروں کے بجائے میڈیکل کے طلبہ کے ذمے ہے۔ یہ طلبہ بے بس قیدیوں پر طرح طرح کے ’’تعلیمی تجربے‘‘ کرتے ہیں۔ جن زخمی قیدیوں کے زخم ناسور بن جاتے ہیں یا مسلسل ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے سبب ہاتھ پائوں مفلوج یا گینگرین زدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا آپریشن بغیر انستھیسیا کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو اکثر ننگا رکھا جاتا ہے اور باندھنے کے لیے پیمپرز دے دیے جاتے ہیں۔ تفتیش کے دوران باقاعدہ فردِ جرم نہیں سنائی جاتی بس یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے۔ اس تنظیم کا نام بھی نہیں بتایا جاتا۔ ڈاکٹروں کو سختی سے ممانعت ہے کہ وہ کسی بھی قیدی کی میڈیکل رپورٹ پر اپنا نام نہ لکھیں یا قیدیوں کے سامنے ایک دوسرے کو نام سے نہ پکاریں۔ مبادا کل کلاں ان پر جنگی مجرم ہونے کی فرد عائد ہو جائے یا کوئی قیدی رہائی کے بعد انتقام کا نشانہ بنانے کا سوچے۔ ضروری نہیں کہ قیدیوں کی مار پیٹ ان سے کوئی راز اگلوانے کے لیے ہی ہو۔ بلاوجہ بھی تشدد عام ہے۔ انہیں اسرائیلی پرچم کو بوسہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اذیت رساں ان قیدیوں کے ساتھ ہنستے ہوئے سیلفیاں بناتے ہیں۔ وہ قیدیوں پر تھوکتے ہیں اور زیادہ مستی میں آ جائیں تو قیدیوں پر پیشاب بھی کر دیتے ہیں۔
سدی تیمان کیمپ سے نکلنے والی خبروں کے سبب متعدد اسرائیلی انسانی حقوق تنظیموں نے قیدیوں کو باضابطہ جیل قوانین کے تحت رکھنے اور قانونی مدد کا بنیادی حق بحال کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا ہے کہ جیسے ہی جیلوں میں مزید قیدی رکھنے کی گنجائش نکلتی ہے سدی تیمان کیمپ بند کر دیا جائے گا۔ مگر سدی تیمان کیمپ میں نظربند العربیہ چینل کے صحافی محمد عرب سے ملاقات کرنے والے اسرائیلی وکیل خالد مہاجنے کہتے ہیں کہ محمد عرب نے ملاقات ختم ہونے سے پہلے یہ جملہ کہا کہ ’’یہ کیسی مہذب ریاستیں ہیں جنہیں غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی تو مسلسل فکر ہے۔ مگر اسرائیلی عقوبت خانوں میں غیر انسانی سلوک کے شکار ہزاروں فلسطینیوں کا ذکر ان کے منہ سے ہی نہیں نکلتا‘‘۔ وکیل خالد مہاجنے کے بقول اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد محمد عرب پر کیا بیتی ہو گی۔ وہ اب تک سدی تیمان میں ہے یا کسی اسرائیلی جیل میں؟ زندہ ہے بھی یا نہیں؟ زندہ ہے تو کن اذیتوں سے گزر رہا ہو گا؟ مجھے کچھ خبر نہیں۔ (بشکریہ: ایکسپریس نیوز)