July 27th, 2024 (1446محرم20)

غزہ میں 1لاکھ 86ہزار ہلاکتیں، سلسلہ کب تھمے گا؟

قاضی جاوید

عرب اور ٹی آر ٹی نیوز ترکی کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے شائع ہونے والے دی لینسٹ میڈیکل میگزین میں ’’غزہ میں موت کی تعداد: مشکل لیکن ضروری‘‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہونے والے حملوں میں 1لاکھ 86ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ اس تباہ کن صورتحال کے باوجود عالم اسلام کے 2ارب مسلمان خاموش، اور مست ہیں اپنی مستی میں اور ’’آگ لگا رہے ہیں اپنی بستی میں‘‘ کے مصداق کسی اسلامی ملک اور اب تو عام مسلمانوں کو غزہ کی کوئی پروا نہیں ۔ لیکن یہ کافر ہمیں کم از کم یہ تو بتا رہے ہیں کہ ’’غزہ کی 2022ء کی آبادی کے تخمینہ 2 ملین 375 ہزار 259 کو مدنظر رکھتے ہوئے 1لاکھ 86ہزار سے زائد اموات کی تعداد پوری آبادی کے 7.9 فی صد کے مساوی ہے۔ دنیا بھر میں میڈیکل میگزین یہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ غزہ میں شہادتوں کی یہ تعداد بھی حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق فروری میں کیے گئے تخمینے کے مطابق اندازہ لگایا گیا تھا کہ اگر فوری جنگ بندی نہ ہوئی اور حملے اسی شدت سے جاری رہے تو ہلاکتوں کی تعداد 58 ہزار 260 ہو جائے گی، جب کہ وبائی امراض میں اضافہ اور ہلاکتوں کی تعداد 85 ہزار 750 ہو جائے گی۔ اب یہ سب کچھ ہو چکا ہے لیکن جنگ بندی نہ کر نے کی اسرائیلی ضد اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ عام رائے یہی ہے کہ غزہ میں 19 جون تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 ہزار 396 تھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے لیے علاقے میں ہونے والی تباہی کی وجہ سے اعدادو شمار جمع کرنا مشکل ہے۔ مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وزارت نے مرنے والوں کی تعداد اور شناخت شدہ مرنے والوں کی تعداد کا الگ الگ اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً 30 فی صد کی شناخت نہیں ہو سکی۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کو وزارت کی فہرستوں میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کی وجہ سے کچھ متاثرین کے ناموں کی شناخت کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں غزہ میں 35 فی صد عمارتوں کے تباہ ہونے کے بھی ذکر کیا گیا ہے، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملبے تلے اب بھی لاشوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ دوسری جانب قطر کے دارالحکومت دوحا میں اسرائیل حماس جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، تاہم 9 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششیں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہیں۔ 9جولائی کو حملوں میں اقوام متحدہ کی تنصیبات اور اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 10جولائی کو بھی تل الحوا میں اسرائیلی فوج کے حملے سے مزید 30 فلسطینی شہید ہو گئے۔ یو این خبرنامہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انرا کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ وسطی غزہ کے علاقے تصیرت میں حملے کا نشانہ بننے والے اسکول کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا جہاں تقریباً 2ہزار لوگ مقیم تھے۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے دوران غزہ میں انرا کی پناہ گاہوں پر اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 520 افراد ہلاک اور 1,602 زخمی ہو چکے ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی اور حماس کی قید سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کئی ناکامیوں کے بعد دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔ فلپ لازارینی نے جنگ بندی کی اپیل کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ نو ماہ کی جنگ سے نڈھال غزہ کے لوگوں اور اسرائیل کو اب سکھ کا سانس میسر آنا چاہیے۔ یہ جنگ جتنی طوالت اختیار کرے گی دونوں فریقین میں مخاصمت اتنی ہی گہری ہوتی جائے گی اور لوگوں کی تکالیف میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ جس اسکول کو حملے کا نشانہ بنایا گیا اس میں فلسطینی مسلح گروہوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ فلپ لازارینی کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونا ضروری ہیں تاکہ حقائق سامنے آ سکیں اور اقوام متحدہ کی عمارتوں پر حملوں کے ذمہ داروں یا انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کا محاسبہ ہو سکے۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر اوچا نے غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نو ماہ سے جاری جنگ میں 19 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں جن میں بہت سے لوگوں کو نو یا دس مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ ادھر لبنان اسرائیل سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس میں طرفین کی جانب سے متواتر حملے ہو رہے ہیں۔ لبنان کی مسلح تنظیم اور حماس کی اتحادی حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر واقع ماؤنٹ ہرمون کو حالیہ دنوں ڈرون سے نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی تک وہ اسرائیل پر حملے جاری رکھے گی۔

لبنان میں اقوام متحدہ کے عبوری مشن (یونیفیل) نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ دونوں ممالک کی سرحد پر حالات نہایت کشیدہ ہیں اور کوئی بھی واقعہ بڑے پیمانے پر جنگ اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ’’یونیفیل‘‘ نے ’’اوچا‘‘ کی جاری کردہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 25 جون کے بعد لبنان کے جنوبی علاقے سے تقریباً 97 ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ کشیدگی کے آغاز سے اب تک شہریوں سمیت مجموعی طور پر 435 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ ان حالات میں مسئلے کا طویل مدتی حل سیاسی و سفارتی کوششوں کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی کوشش ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا اور خاص طور سے ناٹو ممالک کے حکمران بھی اسرائیل کی ہر ممکن مدد کریں۔ اسرائیل مذاکرات کو فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نہ جانے فلسطینیوں کی شہادت کا نہ رکنے والا سلسلہ کب ختم گا؟

                           بشکریہ جسارت