اٰنعام الحق
ریاست فلسطین موجودہ اسرائیل کے کچھ حصوں اور دیگر فلسطینی علاقوں بشمولہ غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مشتمل ہے۔ مصر سے شام جانے والے راستےاور بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن کے پار موجود پہاڑی سلسلوں تک سارا علاقہ اس کی عمل داری میں آتا ہے۔
غزہ (عربی : قطعہ)بحیرہ روم کے مشرق اور وادیٔ سینا(مصر) کے شمال مشرق میں واقع ۳۶۳مربع میل پر محیط ساحلی پٹی ہے جس کی لمبائی ۴۱کلومیٹر، جب کہ چوڑائی ۶ سے ۱۲کلومیٹر ہے۔ شمال اور مشرق میں اسرائیل کے ساتھ اس کی سرحد ۵۱کلومیٹر، جب کہ جنوب میں رفح شہر کے نزدیک مصر کے ساتھ اس کی سرحد گیارہ کلومیٹر طویل ہے۔
۲۳لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ گنجان آباد علاقہ کئی چھوٹے شہروں اور قصبوں (بشمولہ غزہ شہر، رفح، خان یونس) میں تقسیم ہے اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ۱۹۵۰ء سے فلسطین میں متحرک گروہ الفتح کو کرپشن اور بدعنوانی کے باعث حماس نے فیصلہ کن شکست دے دی تھی۔
رفح کی سرحدی راہداری کے علاوہ غزہ میں معیشت، تجارت اور سیاست سمیت ہر شعبۂ زندگی پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ موجودہ حملہ ماضی کے تمام پانچ اسرائیلی محاصروں اور زمینی، فضائی اور میزائل حملوں کی نسبت زیادہ مہلک ثابت ہوا ہے اور اس سے بے شمار شہری خصوصاً عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ گرنے والی لاشوں میں سے ہر تیسری لاش ایک فلسطینی بچے کی ہے۔ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا ’انسانی قید خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی محاصرے اور حماس کے خلاف زمینی جنگ کے باعث دس لاکھ سے زائد فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر جنوب کی جانب ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مغربی کنارہ (عربی: الضفہ الغربیہ) ۱۹۲۰ءسے ۱۹۴۷ء تک برطانوی قبضے میں رہنے والا فلسطینی علاقہ ہے جو دریائے اردن کے مغرب اور غزہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اگرچہ غزہ اور یہ باہم متصل نہیں ہیں۔ مغربی کنارے پر اردن کا دعویٰ ہے اگرچہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ مشرق میں دریائے اردن اور جنوب میں اردن اور بحیرۂ مردار کے علاوہ اس خطے کو ہر طرف سے اسرائیل نے گھیر رکھا ہے۔ مغربی کنارے کا رقبہ تقریباً ۵۶۰۰مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی تقریباً ۳۰لاکھ ہے جو گیارہ شہروں مثلاً جنین، نابلس، رملہ، اریحا وغیرہ میں آباد ہے۔ یروشلم اور بیت اللحم منقسم شہر ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل دونوں یروشلم (بیت المقدس، القدس) کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں لیکن یہ دونوں دعوے ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسرائیلی فوج کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قابض قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے بیت اللحم(یروشلم سے ۱۰کلومیٹر پر واقع) پر ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا لیکن ۱۹۹۵ء میں اس شہر کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا۔ اب مغربی کنارے پر الفتح کی حکومت ہے۔
انسانی جغرافیے کے بعد اب آبادی کا ذکر ہو جائے۔ ۲۰۱۷ء میں فلسطین کے تمام علاقوں بشمول اسرائیل، مغربی کنارہ اور غزہ میں عرب آبادی ۷۹ء۵ ملین تھی جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔اس میں سے ۸۴ ملین عرب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی کنارے میں شرح پیدائش۲ء۳ ، جب کہ غزہ میں۳ء۹۷ ہے۔ غزہ میں فی مربع کلومیٹر تقریباً چار ہزار لوگ آباد ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کی کل آبادی۵ء۹ ملین اور قدامت پسند کٹر یہودیوں کے علاوہ بقیہ آبادی کی شرح پیدائش سرکاری حوصلہ افزائی کے باوجود۲ء۴۷ ہے۔ ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں عرب آبادی کا ایک سیلاب اسرائیل کو بہا لے جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر باقی خطے کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی ہرطرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔
اسرائیل کے سخت گیر حربے مستقبل میں کام نہیں آئیں گے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:اوّل، آبادی کا توازن اسرائیل کے حق میں نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ نسل در نسل فلسطینی نوجوان، جن میں سے ہر ایک اسرائیلی ظلم و سفاکیت کی کسی نہ کسی داستان کا عینی شاہد ہے، اسرائیلی ریاست کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔
دوئم، حماس کا جنم اسرائیل کے ظالمانہ رویے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس کے خاتمے سے مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔ بلکہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک ناانصافی، فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، ان کی زمینوں پر قبضے اور مسلسل فوجی ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ۷۵سال تک ذلت و رُسوائی برداشت کرنے کے بعد مزاج میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے حماس نے ۷؍اکتوبر کو اسی بے چینی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ کسی بھی جنگ میں بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس تنازعے میں فریقین ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اسرائیل اپنی طاقت اور دستیابیٔ وسائل کے باعث ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔
سوئم، کسی بھی قوم کو جبر کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ تاریخ ہمیں بار بار یہی سبق یا ددلاتی ہے۔ فوجی قبضے اور جابرانہ اقتدار کے ذریعے دلوں میں روشن حریت و خودمختاری کی چنگاریاں بجھائی نہیں جا سکتیں۔ یہودی مذہب کے پیروکار، مغربی ممالک کے لوگ، حتیٰ کے اسرائیل کے اندر بھی باشعور لوگ اس حقیقت سے باخبر ہیں۔ انھیں نیتن یاہو کو بھی اس ناقابلِ فراموش حقیقت کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے۔ ہولوکاسٹ کو گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ انسانی وقار کی توہین اور نفرتوں کے سلسلے یونہی جاری رہے تو ارضِ مقدس میں نئے سرے سے ایک ہولوکاسٹ شروع ہوجائے گی۔ حماس نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے جسے اسرائیل اور اس کے نئے نئے ’ابراہیمی دوست‘ مل کر قصۂ پارینہ بنانے چلے تھے۔
چہارم، حکومتوں کو ایک طرف کر دیا جائے تو اسرائیل کا یہ سخت ترین ردعمل دنیا بھر کے عوام میں اس کیلئے ہمدردیاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ دم توڑتے بچوں اور نوحہ کناں عورتوں کی تصاویر اور وڈیو کلپس جو سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر ہمیں ہمہ وقت دکھائی دے رہی ہیں، اسرائیلی بیانیے کو ہمیشہ سے زیادہ کمزور کر دیں گے۔ یوں حماس کو ختم کرنے کی آڑ میں فلسطین کو نابود کرنے کی اسرائیلی کوششیں بھی بے نقاب ہو جائیں گی۔ اس کے اثرات نظر آنے بھی لگے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کم از کم ایک طویل عرصے کے لیے کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ اسرائیلی بمباری سیاسی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اسرائیل ’دفاع کے حق‘ سے کہیں آگے گزر چکا ہے۔
چنانچہ اسرائیلی ریاست کو جلد یا بدیر مسئلے کی جڑ کی طرف متوجہ ہو نا پڑے گا تا کہ نفرت اور تشدد کے اس گھناؤنے چکر کو ختم کیا جا سکے۔ موجودہ صورتِ حال زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی۔ نیتن یاہو کی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر غزہ پر زمینی حملہ کر کے قابض ہونے کا اسرائیلی فیصلہ ایک تباہ کن سیاسی اور عسکری غلطی ثابت ہو گا۔ صدر بائیڈن نے ۱۶؍اکتوبر کو اسی امکان کی طرف اشارہ کیا تھا اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ جلد اسے روکنے کے لیے خطے کا دورہ بھی کریں گے ۔ حماس کو مکمل تباہ کر بھی دیا جائے تو اس کی راکھ سے حماس جیسے کئی ادارے پیدا ہو جائیں گے۔ مزید آتش زنی کی صورت میں دیگر متعلقین مثلاً حزب اللہ، شام، اردن، اور مصر بھی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ ایران اوردیگر عرب ریاستیں بھی عوامی دباؤ کے تحت دخل اندازی پر مجبور ہوں گی۔ یوکرینی جنگ میں مصروف امریکا و یورپ ایسی صورتِ حال کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔
چنانچہ مستقل امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔* فلسطینیوں کو اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے کی آزادی ملنے کے بعد جنگ اور نفرت کا یہ کھیل رفتہ رفتہ ختم ہو گا۔ بصورت دیگر یہ خون ریزی شکل بدل بدل کر جاری رہے گی اور بالآخر افغانستان اور عراق کی طرح کمزور فریق کو بھی مقابلہ کرنے کا ہنر آ جائے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ موساد کو بھی ’اندرونی مخبروں‘ کے جال کے باوجود ایسی ناگہانی صورتیں پیش آتی رہیں گی۔
*اس مسئلے کا نام نہاد’دو ریاستی حل‘ فلسطین کے مظلوموں کو ایک نئے گرداب میں پھانسنے کی دوسری دفاعی لائن ہے اور جنگ و بدامنی برقرار رکھنے کا ایک انتظام۔ واحد حل یہ ہے کہ ناجائزاسرائیلی ریاست کے بجائے فلسطین کی ریاست بحال کرنے کا اعلان کیا جائےاور فلسطین میں موجود تمام مذاہب اور رنگ و نسل کے شہریوں کا خود مستقبل کے تعلقاتِ کار طے کرنے کا حق تسلیم کیا جائے۔ اگر نام نہاد ’دو ریاستی‘ حل ٹھونسا گیا تو وہ اس خطے میں نئی جنگوں اور اسلحے کے انبار خریدنے کی ایک اور بدنما دوڑ کا نقطۂ آغاز ہوگا۔