April 29th, 2024 (1445شوال20)

عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ پر دوبارہ اسرائیلی حملے

عارضی جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد یکم دسمبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ میں دوبارہ بڑے پیمانے حملے شروع کر دیے ہیں۔ فلسطین ا رضِ مقدسہ ہے ، جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور جو مسلمانوں کا قدیم قبلہ ہے،اور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فلسطین کی ارضِ مقدسہ صرف اہلِ فلسطین کے لیے اہم نہیں بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر اہم ہے۔اس کے مظلوم مسلمان ظلم اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔فلسطین میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر موت کے منہ میں جارہے ہیں ،فسطینی اور حماس اپنے عزم ،اور اللہ کی نصرت کے بھروسے ظلم کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔پوری دنیا کے سامنے غزہ میں فلسطین کے معصوم بچوں،عورتوں،مردوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں نے غزہ میں پھر بمباری کی ہے اور جنگ بندی کے بعد وحشیانہ بمباری کے نتیجے میںبڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ غزہ میں 7 روزہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد شمالی غزہ میں دھماکوں اور فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، مختلف علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ ہم نے غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جب کہ اسرائیل نے مزاحمتی گروپ پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی علاقے میں فائرنگ کا الزام لگایا ہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ مجھے افسوس ہے کہ غزہ میں لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور امید ہے کہ لڑائی میں وقفے کی تجدید ہو سکتی ہے۔قطر اور مصر کی ثالثی میں 24نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران حماس نے 100سے زائد قیدیوں جبکہ اسرائیل نے 240فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل، مواصلاتی نظام منقطع ہے جبکہ غزہ میں 50 فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس سارے عمل میں مغرب کے حکمرانوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کی مکمل حمایت کی ہے اور اسرائیل کی ہر طرح کی مد د کی ہے دوسری طرف ان ملکوں کے عوا م سراپا احتجاج ہیں۔اسرائیلی فورسز کا الشفا ہسپتال پر دھاوا، غزہ میں 36 میں سے 22 ہسپتال غیر فعال ہیں۔اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہورہے ہیں۔پاکستان کے لوگ درد میں ہیں، تکلیف میں ہیں اور کئی ایسے لوگ ہیں جو فلسطین کی صورت دیکھ کر اپنے آنسو نہیں روک پارہے ہیں،لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک بڑی تعداد اپنی دنیا میں مگن ہے اور اُن کے اندر وہ درد پیدا نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت فلسطین لہو لہو ہے اور ماضی میں یہ خبر آچکی ہے کہ سعودی عرب نےامریکا کو یقین دلایا ہے کہ وہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اور بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے، سفاکی اور مسلم دشمنی میں سعودی عرب کا کردار یہ سامنے آیا ہے کہ اُس کے دارالحکومت ریاض میں شکیرا پرفارم کرچکی ہیں ،اور فلسطینیوں کی لاشوں پر یہ مسلم حکمراں رقص کروا ر ہے ہیں۔اس وقت امتِ مسلمہ کو ہر مسلم ملک میں اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔اسرائیل کی دہشت گردی میں ان کا بڑا حصہ بنتاہے۔مسلمان حکمران اگر اب بھی بیدار نہ ہوئے تو اسرائیل فلسطین پر قبضہ کر کے دیگر پڑوسی ممالک پر بھی جارحیت کا آغاز کرے گاپوری امت مسلمہ بے چین، دکھ اور کرب کی حالت میں، حکمرانوں کی جانب دیکھ رہی ہے۔مگر 58 اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک خاموش ہیں ۔ بکھرے اور سہمے ہوئے اسلامی ممالک کو ملت واحدہ کا ثبوت دینے سے قاصر ہیں ۔

باقی دنیا اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہی ہے بلکہ صرف بیان اور مذمت کررہی ہے،یونیسیف نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد عدم فعالیت کو بچوں کے قتل کی منظوری دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے غزہ میں پائیدار جنگ بندی کے نفاذ کی اپیل کی ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ پوری دنیا سمیت مسلم ممالک عمل کی دنیا میں کچھ نہیں کریں گے اور اسرائیل اسی طرح معصوم لوگوںکو نشانہ بناتا رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کب تک جاری رہے اس کی چنگاری ان ممالک تک بھی یقیناً پہنچے گی جو شاید حالات کی نزاکت کو سمجھ پارہے ہیں ۔اس وقت یہ لڑائی فلسطینیوں کو شاید اپنے بل بوتے پرہی لڑنی پڑے۔یہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاسکتا، بس امت کاایک عام مسلمان ان کے درد کو محسوس کررہا ہے اور جل رہا ہے،شاید اگراسے موقع ملے تو وہ مزاحمت کی اس تحریک میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کو تیار ہے۔

                                                                                                       بشکریہ جسارت