December 9th, 2024 (1446جمادى الثانية7)

غزہ کا بحران نئی جنگ کا پیش خیمہ

فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ کی پٹی کے موجودہ زمینی حالات یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ غزہ کو درپیش بحران ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ موجودہ بحرانوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ صہیونی دشمن اور اس کے حلیفوں نے مل کر غزہ کی پٹی کےعوام سے امید کی آخری کرن بھی چھین لی ہے۔ غزہ کے عوام کو مصائب سے بھرپور حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے عوام کو کوئی ایک نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں ان گنت بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان مصائب اور بحرانوں کا آغاز معاشی بحران سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری، تنخواہوں کی عدم ادائیگی، محاصرہ اور غزہ پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کےاشارے تمام ایک سےبڑھ کر ایک بحران ہیں۔
اسرائیل کے ذرائع ابلاغ میں حالیہ دنوں میں اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کے بیانات میں غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنے اور فلسطینی مزاحمت کو کچلنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر جامع جنگ مسلط کرنے سے قبل آخری حد تک دباؤ ڈالے گا۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء کے آخر تک ہم حماس کی تیار کردہ غزہ کی ان سرنگوں کو تباہ کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کریں گے۔ لائبرمین کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ حماس جنگ کے لیے تیار ہے۔ ہماری حکمت عملی واضح ہے، ہم آخری حد تک حماس پر دباؤ ڈالیں گے اور اس کے بعد ہمہ گیر جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
غزہ کی پٹی پرحملے کے بیانات کے ساتھ اسرائیل عملی طورپر بھی جنگ کا ماحول بنا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پر سرنگوں کو تباہ کرنے کی آڑ میں بمباری جاری ہے۔ اس کے ساتھ سرحد پر باڑ فاصل کا قیام اس لیے جاری ہےتاکہ غزہ کے عوام کا ناطقہ بند کیا جاسکے۔ جہاں تک غزہ کی سرنگوں کا معاملہ ہے تو اسرائیل گزشتہ 6 ماہ سے دھمکی آمیز لہجے میں کہتا آ رہا ہے کہ وہ سرنگوں سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا۔ غزہ پر حملے سے قبل وہاں پر بنائی گئی زیرزمین سرنگیں تباہ کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ اسرائیل 2008ء،2009ء، 2012ء اور 2014ء کے دوران غزہ کی پٹی پر 4 بار جنگ مسلط کرچکا ہے۔ ان جنگوں میں مجموعی طورپر 4500 فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔150 گھروں کو مکمل طورپر تباہ کردیا گیا اور بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔
طاقت آزمائی
غزہ کی پٹی میں عوام مسلسل بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ وہاں نہ جنگ ہے اور نہ ہی امن کی حالت ہے۔ علاقائی ملکوں کی سستی اور لاپروائی سے غزہ کے عوام کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ تحریک فتح اور حماس کے درمیان جاری مصالحتی کوششیں اول الذکر کی اسرائیل سے تصفیے کی کوششوں کی وجہ سے متاثرہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار محمود العجرمی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی ریاست ’طاقت کا زخم‘ لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ 2 جنگوں کے دوران مزاحمتی رکاوٹ کو عسکری تکنیک کے طور پراستعمال کیا گیا جس کا مقصد ایک فریق کو کمزور کرنا تھا۔
پچھلے 2 ماہ کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں مزاحمتی سرنگوں پر حملوں کادائرہ پھیلا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مزاحمت کاروں پر غزہ سے راکٹ حملے کرنے کا بھی الزام عایدکرتی ہے۔ غزہ کی پٹی کے علاقے میں جنگی کارروائیوں کوآگے بڑھانے کے ساتھ اسرائیل نے سرحد پر کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔
العجرمی کا کہنا ہےکہ اسرائیل کی طرف سے پچھلی 2 جنگوں کے دوران فلسطینی مزاحمت کاروں کی طاقت کچلنے کی پوری کوشش کی گئی۔ 2006ء کے بعد اسرائیل اس پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ فلسطینی مزاحمت کار آئندہ کی کسی جنگ کے قابل نہ رہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی مراکز اور سرنگوں کی نشاندہی کے لیے وسیع انٹیلی جنس مہارت حاصل کرلی ہے۔
اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان نے ایک بیان میں دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے ہمارے بارے میں غلط نظر سے دیکھا تواس پر نیا حملہ غزہ پر اس کی گرفت ختم کردے گا۔ اسی طرح کا بیان اسرائیلی وزیر برائے زراعت اوری ارئیل بھی دے چکے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ جنگ میں حماس کی چوٹی کی قیادت کو ختم کردیا جائے گا۔
فلسطین کے سیکورٹی امور کے تجزیہ نگار میجر جنرل واصف عریقات کا کہنا ہے کہ اس وقت اسرائیل غزہ کے پر اپنی توجہ کا مرکز سرنگوں کو بنائے ہوئے ہے مگر فلسطینی عسکری قیادت بھی اسرائیل کا ہدف ہوسکتی ہے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو اس دوران حماس کی قیادت کو چن چن کر نشانہ بنانے کاخدشہ موجود ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ فلسطینی قیادت کے مشترکہ فیصلے اور باہمی اتفاق واتحاد میں ناکامی کے بعد غزہ کے عوام پر اجتماعی سزاؤں اور انتقامی اقدامات کا نفاذ کیا گیا۔ غوام کے عوام پر غربت مسلط کرنے اس کے مجرمانےحربے کا مقصد بھی اہلیان غزہ کو دباؤ میں لانا تھا۔
سرنگوں کا ڈراؤنا خواب
اسرائیلی ریاست کے خیال میں غزہ کی پٹی کے سقوط کا راستہ وہاں پر کھودی گئی سرنگوں سے شروع ہوتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کار ان سرنگوں کو اسرائیلی فوج کے حملوں کے انسداد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان سرنگوں سے 2006ء سے 2014ء تک اسرائیل کے اندر راکٹ حملے کیے جاتے رہے۔ یہ سرنگیں فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس دراندازی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے کا ایک جال ہے۔
تجزیہ نگار العجرمی کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست غزہ کے عوام کا ناطقہ بند کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرنگوں کا انکشاف، فلسطینیوں کے اسلحہ کارخانے اور راکٹوں کے ذخائر کے دعووں کی آڑ میں صہیونی فوج غزہ پرجنگ مسلط کرنے کا ماحول بنا رہی ہے۔ چند ماہ قبل اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ جدید آلات کی مدد سے انہوں نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی بڑی تعداد میں سرنگوں کا پتا چلایا ہے۔
صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی سرنگیں اسرائیل کے لیے تزویراتی خطرہ ہیں۔ اسرائیل کے اسٹیٹ کنٹرول یوسف شابیرا کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ مں وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع موشے یعلون پر الزام عاید کیا تھا کہ انہوں نے گزشتہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا تھا جس کے باعث اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آئے اور متعدد قابض فوجیوں کو غزہ میں جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔
بنیادی ڈھانچہ ہدف
اسرائیلی حکام یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ 2006ء کے بعد سے 2018ء تک مقامی آبادی کی طرف سے بھرپور تعاون کیا جاتا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پر 2006 ء کے بعد سے مسلط کی گئی جنگوں کے دوران داخلی سطح پر فلسطینی عوام کی جانب سے بھرپور تعاون کیا گیا۔
اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی پر کسی ممکنہ جنگ سے قبل 3 مراحل سے گزرنا چاہتی ہے۔ پہلا مرحلہ انتظامی نوعیت کی تیاریوں کا ہے اور اس مرحلے میں فلسطینیوں پرنفسیاتی دباؤ ڈلنا ہے۔ دوسرا اقدام وقفے وقفے سے تباہ کن حملے کرنا اور تجربات کے انداز میں فوج کو تیار رکھنا ہے، جیسا کہ 2008ء کی جنگ چھیڑنے سے قبل کیاگیا۔ آخر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والی جنگ مسلط کرنا اسرائیلی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
تجزیہ نگار عریقات کاکہنا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی پر کسی جنگ کے دوران فلسطین کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنائے گی۔ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنا فلسطینی عوام اور مزاحمتی قوتوں دونوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے۔

بشکریہ جسارت