امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر فلسطینی قوم پر ایک ماہ میں دوسرا حملہ کیا گیا۔ ٹھیک ایک ماہ قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017ء کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی قوم کو تاریخی شہر سے محروم کرنے کا نیا سنگین فیصلہ کیا۔ ایک ماہ کے بعد انہوں نے فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے امدادی ادارے ’اونروا‘ کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔
امریکی عہدیداروں نے تصدیق کی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کی 125 ملین ڈالر کی امداد بند کردی ہے ۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کی بندش امریکا کا قضیہ فلسطین پر القدس کے بعد دوسرا بڑا حملہ ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’صدی کی ڈیل‘ کے اعلان کے بعد تواتر کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور فلسطینیوں کی مالی امداد روکنا جیسے تمام حربے ٹرمپ کے ’صدی کے تاریخ ساز اقدام‘ کا حصہ ہیں۔
امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اسرائیل ۔ عرب کشمکش کی اس تاریخی گرہ کو کھولنے والے ہیں جو آج تک کسی امریکی صدر یا کسی دوسرے عالمی رہنما کی جانب سے نہیں کی کھولی گئی۔ 6 دسمبر 2017ء کو القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا امریکی اعلان اسی مشکل گرہ کا حصہ ہیں۔
امداد کی بندش کا مسئلہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ٹوئٹر‘ پر اپنی کئی ٹویٹس میں فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کرکے اسے بلیک میل کرنے کی مجرمانہ کوشش کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے امداد کی قدر نہیں کی۔ اب فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے مذاکرات سے بھی انکاری ہے ۔ اس لیے فلسطینیوں کو مزید امداد دینے کے لیے اسرائیل سے مذاکرات بنیادی شرط ہوگی۔
ٹرمپ نے لکھا کہ فلسطینیوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر امداد دی جاتی ہے مگر ان (فلسطینیوں)کی طرف سے ہمیں آج تک کوئی احترام نہیں دیا گیا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں بھی مسلسل ٹال مٹول کررہے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا نے اہم ترین حصے ’القدس‘ کو مذاکرات کے ایجنڈے سے الگ کردیا۔ اب بھی فلسطینی مذاکرات پرآمادہ نہیں۔ اگر فلسطینی مذاکرات پرآمادہ نہیں تو ہم اتنی خطیر رقم انہیں کیوں دیں۔
امریکی صدر کی دھمکی کے ساتھ اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے دھمکی دی کہ اگر فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے مذاکرات کا عمل بحال نہ کیا تو فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی’اونروا‘ کو امریکا کی طرف سے دی جانے والی امداد بند کردی جائے گی۔
’اونروا‘ کے ترجمان نے بتایا کہ امریکا ’ایجنسی‘ کوسب سے زیادہ امداد دینے والے 10 ممالک میں شامل ہے ۔ امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کو36 کروڑ 42 لاکھ، 65 ہزار 585 ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے 14 کروڑ 31 لاکھ 37 ہزار 340 ڈالر۔جرمنی کی طرف سے 7 کروڑ ،61 لاکھ 77 ہزار 343 ڈالر، برطانیہ کی طرف سے 6 کروڑ 18 لاکھ 27 ہزار964 ڈالر، سعودی عرب 5 کروڑ 12 لاکھ 75 ہزار جاپان 4 کروڑ 36 لاکھ 21 ہزار 169 ڈالر، سوئٹرزلینڈ 2 کروڑ 69 لاکھ 38 ہزار 805 ڈالر، ناروے 2 کروڑ 63 لاکھ 13 ہزار 359 ڈالر، ہالینڈ 2 کروڑ 8 لاکھ 77 ہزار 507 ڈلر امداد فراہم کرتا ہے جو کہ کل سالانہ امداد 87 کروڑ 41 لاکھ 77 ہزار 965 ڈالر بنتی ہے ۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا نے فلسطینی پناہ گزینوں کی 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد منجمد کردی ہے ۔ امریکا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اقدام فلسطینی صدر محمود عباس کے امریکا کی قیادت میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کی بحالی فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی پر منحصر ہے۔ جب تک فلسطینی اتھارٹی امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت شروع نہیں کرتی اس وقت تک فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امریکی امداد بند رہے گی۔
پناہ گزین قضیے کا تصفیہ
تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ فلسطینیوں کے خلاف یکے بعد دیگرے امریکا کے انتقامی اقدامات دراصل فلسطینی پناہ گزینوں کے قضیے کوختم کرنے کی کوشش ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ولید المدلل نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امداد دراصل مصیبت زدہ فلسطینیوں کے لیے امریکا کی امداد ہے۔
تجزیہ نگار عدنان ابو عامر بے ولید المدلل کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ امریکی انتظامیہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے کے حل کے بجائے اسے ختم کرنا چاہتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی قضیہ فلسطین کا دوسرا اہم ترین حل طلب مسئلہ ہے۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے بھی امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، بیت المقدس، سرزمین اور سرحدوں کے معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
فیصلے کے منفی اثرات
امریکی حکومت کے انتقامی اقدامات بالخصوص فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا اپنے حالیہ منصوبوں کو تسلیم کرانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی کمر پرانتہائی طاقت ور کوڑے برسا رہا ہے ۔ فلسطینی تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ اونروا کی امداد منجمد کرنا فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنا اور دھونس اور دھمکی کے ذریعے اپنے ظالمانہ فیصلے قبول کرنے پرآمادہ کرنا ہے۔
ولید المدلل کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے امداد کی بندش کے فلسطینی پناہ گزینوں کے حالات پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے قضیے کو ختم کرنے میں بعض عرب ممالک کی حمایت ہوسکتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو گھٹیا سیاسی بلیک میلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ مذکرات فلسطینی قوم کے حقوق پر ایک اور ڈاکہ ڈالنے کا موجب بن سکتے ہیں۔