ڈاکٹر وسیم علی برکاتی
ہم مسلمان اللہ پر اس طرح ایمان رکھتے ہیں کہ ہمیں ہماری روح اور جسم سے بڑھ کر اللہ کی ذات اور اس کے احکامات سے محبت ہوتی ہے۔ اور جب اللہ اور اس کے رسولؐ کا واضح حکم آجائے تو پھر کیفیت کچھ یہ ہوتی ہے کہ جان دی دی ہوئے اسی کی تھی، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ پھر جس سر زمین کو اللہ تبارک و تعالیٰ مقدس کہہ دے تو پھر ہم اس سر زمین کو کفار کے ناپاک ہاتھوں میں کس طرح دے سکتے ہیں اور کس طرح برداشت کرسکتے ہیں کہ اللہ کی بتائی ہوئی مقدس سرزمین پر شیطانی اجارہ داری ہوجائے۔ اللہ پاک نے سیدنا موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ: ’’اپنی قوم کو لے کر اس مقدس سر زمین مین داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے‘‘ (المائدہ 21)۔ جی ہاں یہ وہی سر زمین ہے جہاں سیدنا ابراہیم ؑ نے ہجرت کی۔ یہی پر کنعان میں سیدنا یعقوب ؑ اور سیدنا یوسف ؑ نے سکونت اختیار کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ اسی سر زمین میں رہے۔ سیدنا عیسیٰ ؑ کی پیدائش اسی سرزمین میں بیت اللحم کے مقام پر ہوئی۔ صحابۂ کرام فرماتے ہیں کہ جب سورۃ والتین نازل ہوئی تو ہم نے تین (انجیر) سے مراد شام، زیتون سے مراد فلسطین اور طور سینین سے مراد کوہِ طور لیا۔ اور ایسا مقدس مقام کہ اللہ نے اپنے پیارے محبو ب نبی ؐ کو نبوت کی معراج عطا کرنے کا عزم کیا تو سفر کی ابتداء اسی مقدس مقام بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ سے کرائی۔ اللہ اپنے قرآن میں فرماتا ہے کہ: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندے (محمدؐ) کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 1)۔ جیسے جیسے مختلف قوموں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا اس کے نام بھی بدلتے رہے۔ یبوس، ایلیا، کابتولینا، یروشلم اور بیت المقدس اسی سرزمین کے مختلف نام ہیں۔ سیدنا داؤد ؑ نے اس مقدس سرزمین پر اللہ کی عبادت کے لیے ایک معبد بنانے کا ارادہ کیا۔ جس کی تکمیل سیدنا سلیمان ؑ نے کی۔ یہ عبادت گاہ بنانے کے بعد سیدنا سلیمان ؑ نے بنی اسرائیل کا وہ صندوق جو تابوتِ سکینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک مخصوص جگہ بنا کر دفنا دیا۔ اس جگہ کو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس صندوق میں سیدنا موسیٰ ؑ کا عصاء، ان کی جوتیاں، سیدنا ہارونؑ کا عمامہ، سیدنا سلیمان ؑ کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیاں اور من و سلویٰ موجود تھا۔ یہ صندوق بنی اسرائیل میں بڑا متبرک سمجھا جاتا تھا۔ اور قحط اور جنگ کی مصیبت میں اس کے واسطے سے مصیبتیں ٹل جاتی تھی۔ بعد میں کفار کی قوم طمالقہ نے تابوت سکینہ چھین لیا تھا۔ بادشاہ بخت نصر نے تابوتِ سکینہ کو تباہ و برباد کردیا اس طرح تابوت سکینہ غائب ہوگیا اور آج تک اس کا سراغ نہ مل سکا۔ عرب فاتحین میں سیدنا عمرؓ کے دور میں فلسطین فتح کیا گیا۔ 1097ء میں یہودیوں نے بیت المقدس پر قنضہ کرلیا۔ یہودیوں کے بقول ہیکل سلیمانی کا تعمیر کردہ کچھ حصہ تباہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ اور یہودی یہاں آکر اپنی عبادت کرتے ہیں۔ وہ اسے گریٹ وال یا دیوار گریہ کا نام دیتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1189ء میں بیت المقدس کو فتح کیا۔ اور ایک مرتبہ پھر قبلۂ اول مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ سات سو اکسٹھ سال مسلمانون کے قبضے میں رہنے کے بعد پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے بڑی تعداد میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرایا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کا آغاز 1939ء میں ہوا اور ہٹلر نے تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا۔ آج اس قتل عام کو ہولو کاسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں سے یہودیوں کو جمع کرکے فلسطین میں لاکر آبا د کرایا گیا اور ایک سازش کے تحت فرانس، امریکا اور برطانیہ نے مل کر اسرائیل کی بنیا د رکھی۔ 1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا۔ چودہ مئی 1948 کو یہودیوں نے قیام اسرائیل کا اعلان کردیا۔ اس کے نتیجے میں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی اور یہودیوں نے فلسطین کے اٹہتر فی صد حصے پر قبضہ کر لیا۔ صہیون اس پہاڑی کا نام ہے جس پر بیت المقدس قائم ہے۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ بیت المقدس میں آج بھی ہیکل سلیمانی کے آثار ایک دیوار کی صورت میں موجود ہیں۔ جسے وہ دوبارہ تعمیر کرکے گریٹ وال (دیوار گریہ) بنائیں گے۔ تاکہ وہ اپنی عبادت کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے یہودی گریٹر اسرائیل کا قیام چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک تنظیم بنائی جس کا نام صہیون رکھا اور اس تحریک کو صہیونیت کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہودی دو گروپس میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ جو کہتا ہے اسرائیل کا قیام ضروری ہے۔ یہ وہ یہودی ہیں جو فرانس سے فلسطین ہجرت کرکے آئے ہیں۔ ان کو زیونیسٹ (zionist) کہا جاتا ہے۔ جب کہ دوسرا گروپ وہ ہے جو کہتا ہے کہ صرف اپنے مذہب کی حفاظت ضروری ہے۔ وطن کا قیام مسیؑ ح آکر خود کریں گے۔ ان یہودیوں کو آرتھو ڈوکس کہا جاتا ہے۔ فلسطین کی کل آبادی چھبیس لاکھ بائیس ہزار پانچ سو چوالیس کے قریب ہے۔ جس کا پچھتر فی صد سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ باقی پچیس فی صد کرسچن اور یہودی اور دیگر آبادی شامل ہے۔ اس طرح فلسطین پر حکومت کا حق قانونی، اخلاقی، تاریخی اور مذہبی اعتبار سے مسلمانوں ہی کا بنتا ہے۔ حال ہی میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فتنہ انگیز اعلامیہ جاری کیا اور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے اپنے دفاتر یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ جس سے بیت المقدس مکمل طور سے یہودیوں کے قبضے میں آجائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو ایک سو اٹھائیس میں سے ایک سو بیس ممالک نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا فلسطین پر مسلمانوں کے فظری اور جائز حق کو تسلیم کرتی ہے۔ پور ی دنیا میں ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں اور مسلمانوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ سن دو ھجری تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جو بیت المقدس سے جتنا قریب ہوگا وہ جگہ دنیا کی ہر جگہ سے افضل ہوگی۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز سو درجے ہے تو مسجد اقصیٰ میں پڑھی جانے والی نماز پچیس درجے ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے شب معراج میں مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ عیسائی سمجھتے ہیں کہ فلسطین پر حملہ صرف مسلمانو ں کا نقصان ہے لیکن علامہ اقبالؒ کرسچن قوم کو آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اور یقیناًیہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔ ۔۔۔ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ ۔۔۔ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی۔