October 26th, 2024 (1446ربيع الثاني22)

جماعت اسلامی کے عوامی دھرنا کی کامیابی


جماعت اسلامی کے دو ہفتے طویل ’’عوامی دھرنا‘‘ کے بعد آخر کار حکمرانوں نے گھٹنے ٹیک دیئے اور سستی بجلی، آئی پی پیز کے معاہدوں کی جانچ پڑتال، تنخواہوں پرٹیکسوں میں کمی اور جاگیرداروں پر ٹیکس کے نفاذ سمیت جماعت کے تمام عوامی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا، فریقین کے مابین اس ضمن میں باقاعدہ تحریری معاہدہ طے پایا ہے جس پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے حکومت کی طرف سے اور جماعت اسلامی کے وفد کے ارکان نے دستخط کئے قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے لیے لیاقت باغ دھرنے میں پہنچے جہاں انہوں نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے بھی ملاقات کی، لیاقت بلوچ کی سربراہی میں مذاکرات کا چوتھا دور ہوا جس کے نتیجے میں حکومت نے جماعت اسلامی کے تمام مطالبات کو تسلیم کر لیا، مذاکرات کی کامیابی کا اعلان لیاقت بلوچ نے کیا۔ دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔ حکومت نے اس کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی ہے جو ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی، مذاکراتی کمیٹیوں نے حکومت کی طرف سے قائم کی جانے والی ٹاسک فورس کے قواعد کار پر بھی اتفاق کیا۔ ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کی بھی ذمہ دار ہو گی، ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کے منصوبے کے ساتھ ایک ماہ میں وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ اور سفارشات پیش کرے گی۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں پر انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا، اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ حکومت تاجر دوست اسکیم پر تاجروں کے خدشات دور کرے گی، تاجروں پر ٹیکس کا نظام آسان اور سہل بنایا جائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کو ہر ممکن طریقے سے کم کیا جائے گا۔ اس کے لیے آمدنی بڑھا کر مالیاتی گنجائش پیدا کی جائے گی اور تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کی شرح گزشتہ مالی سال کے مطابق کی جائے گی اس کے لیے حکومت اور جماعت اسلامی کی مشترکہ کمیٹی عمل درآمد کرائے گی۔ جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو تسلیم کیا گیا کہ بجلی کے بل ہر صورت میں کم کیے جائیں گے۔ یقینی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے آئندہ ڈیڑھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کر دی جائے گی، اسی طرح برآمد کنندگان اور تاجروں کے مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی نوٹیفائی کی جائے گی جو حکومت اور برآمدکنندگان کے نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔ ایک ماہ میں یہ کمیٹی اپنا کام مکمل کرے گی۔ مذاکراتی ٹیموں نے اس چیز پر اتفاق کیا کہ مطالبات کے جو نکات طے پا گئے حکومت خود کو پابند سمجھتی ہے کہ ان اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرے گی۔ حکومت اور جماعت اسلامی کی کمیٹی اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ملاقات کر کے عمل درآمد کا جائزہ لے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی، ہم سب کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے، جماعت اسلامی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں اور عطا تارڑ سارا دن جماعت اسلامی کے ساتھ رابطے میں رہے۔ ہم نے وعدہ کیا کسی نہ کسی شکل میں بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی جو آپ کو نظر آئیں گی۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ آپ کا مطالبہ اور ہمارا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ 200 یونٹ تک کے صارفین کو ریلیف دیا۔ جو اعلانات لیاقت بلوچ نے کئے ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔

معاہدہ کے اعلان کے بعد امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے عوامی دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بھر پور دھرنا دینے اور زبردست حکمت عملی سے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے پر مبارک باد دی انہوں نے راولپنڈی دھرنا موخر کرنے گیارہ اگست اتوار کو لاہور، بارہ اگست پیر کو پشاور اور سولہ اگست کو ملتان میں دھرنوں کی بجائے جلسہ ہائے عام منعقد کرنے اور چودہ اگست سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کے اعلانات کئے… جماعت اسلامی کا دھرنا فی الوقت موخر کر دیا گیا ہے تاہم گزشتہ پندرہ دن کے دوران جماعت اسلامی نے ملکی سیاست میں مثبت اور قابل تقلید روایت کا اضافہ کیا ہے، سیاست میں تشدد، انتشار اور افراتفری کو راہ دینا نہایت آسان ہے ماضی قریب کے سیاسی جماعتوں کے احتجاج اس کی واضح مثال ہیں تاہم جیسا کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ’عوامی دھرنے‘ کے دوران اپنی تقاریر میں ایک سے زائد بار حکمرانوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جماعت اسلامی نے عوام کے مسائل کے حل کی خاطر اپنے احتجاج کے دوران سوچ سمجھ کر تشدد اور تصادم سے بچنے کی حکمت عملی پر عمل کیا اور بزور اسلام آباد جانے کے بجائے راولپنڈی میں پڑائو کو ترجیح دی اور مسلسل پندرہ دن تک پر امن احتجاج اور ’عوامی دھرنا‘ جاری رکھ کر حکومت کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کیا اور ملکی سیاست کو ایک نئی طرز سے متعارف کرایا۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام یہ ’عوامی دھرنا‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل تھا، احتجاج میں بھی نظم و ضبط کا دامن کسی مرحلے پر چھوٹنے نہیں پایا۔ تمام شرکاء اپنے امیر اور ناظمین کی ہدایات پر نہایت تحمل و بردباری سے عمل پیرا رہے ۔ شدید دھوپ گرمی اور حبس اور کبھی طوفان بادو باراں کا سماں ان پندرہ دنوں میں دیکھنے میں آیا آسمان سے چھاجوں پانی برستا رہا مگر مجال ہے کوئی کارکن اپنے امیر یا ناظم کی اجازت یا ہدایت کے بغیر ادھر سے ادھر بھاگتا دکھائی دیا ہو… پورے دھرنے کے دوران کہیں بھگدڑ دکھائی دی نہ طوفان بدتمیزی۔ نہ کوئی ہنگامہ، نہ توڑ پھوڑ، گالم گلوچ، لغویات اور نہ بے بنیاد الزام تراشی۔ عوامی دھرنے میں البتہ صحت مند سرگرمیوں اور ساتھی شرکاء کی اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا بندوبست ضرور تھا، اپنے رب سے لو لگانے، خالق و مالک کو راضی کرنے، اس کے احکام و فرائض بجا لانے کا مکمل انتظام موجود تھا۔ ہر چند گھنٹے بعد اذان اور پھر با جماعت نماز میں سربسجود ہو کر غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی کی طلب اور ذکر اذکار کے ذریعے رب کی قربت کے لیے ہر کوئی بے قرار … ایسے مناظر دیگر سیاسی جماعتوں کے احتجاجی پروگراموں میں چشم فلک نے کب دیکھے ہوں گے…؟

جماعت اسلامی نے ملکی سیاست کو ایک روشن طرز احتجاج سے روشناس کرایا ہے اور پر امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومتی وزراء سے تحریری معاہدے پر اعتماد کیا ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہو گا… ماضی کے ناپسندیدہ طرز عمل کو ترک کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا… وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا… کی روایت کو اب مزید طول نہیں دینا چاہئے ، حکومت نے جو وعدے جماعت اسلامی کے کارکنوں اور قائدین سے کئے ہیں انہیں ہر صورت وفا کیا جانا چاہئے ورنہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی فہم و فراست کو خالی و خولی باتوں سے بہلانا اور صرف وعدوں پہ ٹرخانہ آسان نہ ہو گا جیسا کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے خود بھی واضح کیا ہے کہ ہم نے حکومت سے ٹائم لائن کے ذریعے دستخط لیے ہیں، ہم دھرنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ اپنے مطالبات پر پہرہ دیں گے اور معاہدہ پر عمل درآمد کروائیں گے۔ اگر حکومت عمل نہیں کرتی تو ملک گیر احتجاج کریں گے اور عوام سے کہیں گے کہ بجلی کے بل جمع نہ کروائیں… توقع کرنا چاہئے کہ حکومت جماعت اسلامی سے اپنے معاہدہ کو کاغذ کا ایک پرزہ سمجھنے کی بجائے اسے وہ وعدہ سمجھ کر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی جس کی جواب دہی اسے مالک یوم الدین کے سامنے بھی کرنا پڑے گی… ورنہ حکمرانوں کے غیر سنجیدہ رویے اور اقتدار کی طاقت کے ذریعے حقوق طلب کرنے والوں کو کچل دینے کی کوشش کا انجام بنگلہ دیش کی ظالم، جابر اور قاتل حسینہ کے ملک سے فرار کی صورت میں سب کے سامنے ہے…!!!