October 13th, 2024 (1446ربيع الثاني9)

حافظ نعیم کا انتباہ حکومت اور بنگلا دیش

ایک روز قبل امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اب بھی وقت ہے عوام کے جائز مطالبات مان لیں حالات قابو سے باہر ہونے سے قبل راہ راست پر آجائیں، اور جسارت نے بھی ان ہی سطور میں توجہ دلائی تھی کہ بنگلا دیش کے حالات سے سبق لیں، اور پیر کے روز بنگلا دیش میں وہ سب ہوگیا جس کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی افواج ہمہ وقت تیار رہتی ہیں، بنگلا دیش کی فوج نے حسینہ واجد کو ملک سے نکال کر بھارت جانے دیا، اب وہاں عبوری حکومت بنے گی سیاسی عمل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب کیسے شروع ہوگا اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، پاکستان کی صورتحال اور بنگلا دیش میں مماثلت بھی ہے اور بعض معاملات میں تو تمام چیزیں یکساں ہیں اس لیے حافظ نعیم کے انتباہ اور بنگلا دیش میں حکومت کے خاتمے میں بڑا گہرا تعلق ہے، مثال کے طور پر بنگلا دیشی حکومت نے عوام کے حقوق غصب کررکھے تھے ظالمانہ قوانین بنارکھے تھے، کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کو طاقت سے دبایا جارہا تھا جائز مطالبات ماننے کے بجائے پابندیاں لگائی جارہی تھیں،پاکستان میں بھی حکمران یہی کام کررہے ہیں اقتدار سے ہر صورت چمٹے رہنے کی خواہش نے تباہی مچادی ہے۔ یہاں بھی ناجائز طریقے سے حکومت چھینی گئی، قوانین کا مذاق بنایا گیا ایک پارٹی کے خوف سے سب کو جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا اگر حافظ نعیم مسلسل حکومت کو متوجہ اور متنبہ کررہے ہیں کہ حالات خراب ہونے سے قبل مطالبات مان لیں تو کیا برا کررہے ہیں، پھر خدانخواستہ بنگلا دیش جیسی صورتحال پر دھرنے پر الزام دھرنے کی کوشش کریں گے،یہ نفسیات تیسری دنیا کی جمہوریتوں میں عام ہے کہ خود خواہ کتنی ہی غیر قانونی حرکت کرلیں وہ جمہوریت کہلائے گی اور دوسرا قانون کی پابندی کا مطالبہ کرے تو جمہوریت دشمنی قرار دیا جائے گا، پاکستانی حکومت اور اس کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ صرف ایک پارٹی کے خوف میں مبتلا ہے اور آئین، عدلیہ ،ملکی نظام صحافت پارلیمان ہر ادارے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ،اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جب مہرے عوام کا سامنا نہیں کرسکتے تو یہی اسٹیبلشمنٹ حکومت بدل دیتی ہے ، اس کام کیلیے مارشل لا ، تحریک عدم اعتماد ، اتحادیوں میں پھوٹ لوٹوں نوٹوں کی سیاست ، کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور یہی امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر عوام خود نکل کر حکمرانوں کا گھیرائو کرنے لگیں ان کا گھروں سے نکلنا مشکل کردیں اور حالات قابو سے باہر ہوجائیں تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وزیر اعظم حالات کو قابو سے باہر ہونے سے پہلے عوام کے مطالبات پورے کریں ، حکمران شاید عوام کی تکلیفوں کا بالکل بھی ادراک نہیں۔ اسی لیے حافط نعیم نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات عوام کا جائز حق ہیں انہیں تسلیم کیا جائے، اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو لاہور،پشاور اورکوئٹہ کے گورنر ہائوس پر بھی دھرنے دیے جائیں گے۔ شاہراہیں بند کردی جائیں گی،جماعت اسلامی کی تحریک اپنے سروں سے ظالم حکمرانوں کو ہٹانے کی تحریک ہے۔ابھی تو نہایت آسان مطالبات ہیں جن پر عمل کرکے حکومت اپنی جگہ قائم رہ سکتی ہے مطالبے بھی کیا ہیں بجلی کی قیمت کم کی جائے اور اس کی لاگت کے مطابق بل بھیجے جائیں۔ اس سے قبل کہ ہم عوام سے بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی اپیل کریں حکمران ہوش کے ناخن لیں۔جماعت اسلامی کا ایک کارکن بھی وزیر اعظم سے مناظرہ اور مباحثہ بھی کرسکتا ہے لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے مطالبات پر عمل جمہوری نظام کو توانا کرے گا اور کسی طالع آزما کو مداخلت کا موقع نہیں ملے گا لیکن ہٹ دھرمی سے کوئی بھی نقصان ہوسکتا ہے فیصلہ حکمرانوں کا ہے کہ وہ سب کچھ کھونا چاہتے ہیں یا اپنی مراعات اور غیر قانونی عیاشیاں چھوڑ کر عوام کو بھی کچھ دینا چاہتے ہیں، اس دھرنے میں جماعت اسلامی ہرصورت میں کامیاب ہے ، حکومت ایک مطالبہ بھی نہ مانے طاقت استعمال کرکے سب کو گرفتار کرنے حسینہ واجد کی طرح پابندی کا شوق پورا کھلے ہر عمل سے جماعت اسلامی کی کامیابی ثابت ہوتی ہے ،حکمرانوں کی مراعات ختم ہوجائیں تو جماعت اسلامی کامیاب اور نہ ختم ہوں تو سب کو بے نقاب کرکے بھی جماعت اسلامی کامیاب اور اگر سارے ، بہت سے یا کچھ مطالبات مان لیے گئے تو بھی جماعت اسلامی کامیاب البتہ اس میں حکومت کی کچھ عزت رہ جائے گی وہ بھی عوم کا سامنا کرسکیں گے اور اپنے حلقوں کے عوام سے آنکھیں ملاسکیں گے ، حافظ نعیم نے تو کہا ہے کہ اگر فارم 45کے مطابق فیصلے کیے جائیں تو وزیر اعظم شہباز شریف اوران کا پورا خاندان سمیت ان کی اتحادی پارٹی بھی گھر چلی جائے گی۔ وزیر اعظم عوام کے غضب سے بچنے کے لیے مطالبات منظور کرلیں ورنہ تحریک حکومت گرائو تحریک میں بدل جائے گی۔ مذاکراتی ٹیم میٹنگ میں کہتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تجاویز قابل عمل ہے لیکن میڈیاکے سامنے مکر جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے پنڈی میں 10دن گزارلیے ہے اور اب 100دن بھی گزاریں گے۔ ڈی چوک بھی دور نہیں۔ اس ساری صورتحال میں حکومت خسارے میں نظر آرہی ہے مطالبات ماننے ہی میں اس کی عزت ہے۔

                                                                                                                                           بشکریہ جسارت