علامہ عبدالخالق آفریدی
گزشتہ تین ماہ سے بجلی فراہم کرنے والے اداروں نے حکمرانوں کی ملی بھگت اور آشیر باد سے فی یونٹ چارجز میں نہ صرف من پسند اضافہ کیا بلکہ اس میں کئی ایک خفیہ ٹیکس بھی شامل کر دیے اس طرح بجلی کے ان ظالمانہ بلوں کی ادائیگی نہ صرف عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی بلکہ مڈل کلاس طبقہ اور صنعت کار بھی پریشان ہو گئے ان بلوں کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا جیسا کہ گوجرانولہ پرنس روڈ ایسا واقعہ پیش آیا لوگوں نے خودکشیاں کیں ماؤں نے اپنے گھروں کے باہر بچے برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کر دیے آدھی سے زیادہ آبادی ڈیپریشن کا شکار ہو کر مختلف جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہو گئی، صنعتوں کی بندش سے غریب ورکر کے گھرکا چولھا بجھ گیا اور اس کا خاندان فاقوں کا شکار ہو گیا مڈل کلاس سفید پوش طبقہ اس بڑھتی بے تحاشا اور بے لگام مہنگائی کی چکی میں اس طرح پس گیا کہ نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں بلکہ جان بلب ہے۔ حکمرانوں کی ان سیاہ کاریوں پر اکثر و بیش تر سیاسی جماعتوں نے صرف علامتی انداز میں احتجاج کیا اور اپنی جدوجہد کو سوشل میڈیا ٹرائل تک محدود کردیا اس پر مستزاد یہ کہ اصل مسائل سے ہٹ کر اپنی سیاسی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے الزامات، کردارکشی، بُعد، اخلاقی اور گھٹیا انداز کو اپنایا اس ساری صورتحال میں صرف جماعت اسلامی عوام کی آواز بن گئی اور اس گمبھیر سیاسی صورتحال میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے زبردست کردار ادا کیا جو تاریخ میں یادگار رہے گا۔ انہوں نے کمال سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساری صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لیے ملک کے بڑے شہروں کا دورہ کیا اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد تاجروں سے لے کر مزدوروں تک سے ملاقاتیں کیں ان کی آرا سے آگاہی حاصل کی اور اس کی روشنی میں مطالبات تیار کیے جن کا تعلق عوام کے ساتھ تھا کوئی ایک مطالبہ ایسا نہیں ہے جو جماعت اسلامی یا حافظ نعیم الرحمن کے ذاتی مفاد میں ہو۔
چار اوّلین مطالبات عوام کو درپیش موجودہ ہنگامی صورتحال سے ہے کہ بجلی کے بلوں میں نصف کمی کی جائے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے منسوخ کیے جائیں۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی رقوم سے ان کی ادائیگیاں روک دی جائیں۔ سرکاری اداروں کے افسران کو فری بجلی اور پٹرول کی فراہمی فوراً روک دی جائے ان مطالبات کو منظور کروانے کے لیے 26 جولائی کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا گیا حافظ نعیم الرحمن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں افراد عازم اسلام آباد ہوئے۔ اس وقت یہ دھرنا لاکھوں افراد پر مشتمل ہے اور ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی حالیہ مخلصانہ طرز سیاست نے جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی جرأت مندانہ اور دلیرانہ سیاست کی یاد تازہ کردی ہے۔ بقول علامہ اقبال۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔ بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی۔ ایک ہفتہ گزرنے کو ہے مگر حافظ نعیم الرحمن مستقل مزاجی سے شدید گرمی اور برسات میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد بھی ان کے ساتھ ہیں انہوں نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ مطالبات کی منظوری کے بغیر وہ واپس نہیں جائیں گے۔
مذاکرات کے لیے ان کے تجربہ کار اور سیاست کے نشیب و فراز سے اچھی طرح آشنا ٹیم کے رہنما لیاقت بلوچ اور دیگر رہنما موجود ہیں۔ ملک کے 25 کروڑ عوام مہنگائی کے عفریت سے نجات کے لیے حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں لیکن ایسی صورت حال میں اقتدار کی کرسی سے چمٹے حکمرانوں کی بے حسی اور عوام سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ایک وزیر ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کھلے عام کھا کہ بجلی چارجز میں کمی کی بات نہ کریں بلکہ بجلی چوری کو روکنے کی تدابیر کریں سوال یہ ہے کہ بجلی چوری روکنا عوام کی ذمے داری ہے یا حکمرانوں کی سیکورٹی ادارے پولیس رینجرز کس کے کنٹرول میں ہے اور وزیر خزانہ پریس کانفرنس میں فرمایا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے منسوخ نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ 68 فی صد شیئرز ان اداروں میں موجودہ حکمرانوں کے ہیں جو عوام کے خون پسینے کی سالانہ اربوں ڈالرز آمدنی کیپسٹی چارجز کے نام پر لوٹ رہے ہیں اندازہ ہے کہ یا حکمران مطالبات منظور کریں گے یا اقتدار چھوڑ دیں گے جبکہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا فیصلہ ہے۔ خون دل دیکر نکھاریں گے رخ برگ گلاب۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور امید اب پاکستان میں سیاست برائے تجارت کے بجائے سیاست برائے خدمت کو عروج حاصل ہوگا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
بشکریہ جسارت