محسن باقری
پاکستان اس وقت جن مشکل حالات اور مسائل میں گھرا ہوا ہے اگر دیکھا جائے تو اس سے متاثر صرف ایک طبقہ ہے اور وہ ہے عوام کا، کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ مسائل کے حوالے سے اب غریب کی نہیں بلکہ عوام کی بات کی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ملک میں بظاہر صرف دو ہی طبقات رہ گئے ہیں، ایک ایلیٹ کلاس اور دوسرے عوام جو اب کسی نہ کسی غربت کی سطح پر آگئے ہیں، خدشات اور اندازوں کے مطابق 10 کروڑ کے لگ بھگ تعداد میں تو وہ لوگ ہیں جو خط غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان سمیت بقیہ ایلیٹ کلاس کی سطح کے لوگوں کو کل آبادی سے منہا کر لیں تو وہ تعداد ہے جو کبھی مڈل اور اپر مڈل کلاس کی تعریف میں آتی تھی۔ غریب عوام کا حال جا کر دیکھیں تو یہ چہروں سے بادی النظر میں ایسے نظر آئیں گے کہ کسی کو شائبہ بھی نہیں گزرے گا کہ یہ اپنے گھروں میں کس طرح دشوار ترین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بنیادی سہولتیں دیکھ لیں تو ہر چیز کا فقدان نظر آئے گا، پینے کے لیے صاف پانی ان کو مہیا نہیں، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سمیت ان سب چیزوں کے بھاری بھاری بل ہوں یا سرکاری دفاتر میں کسی کام کے لیے دھکے کھانا یا صحت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسپتالوں میں طویل قطاروں اور راہداریوں میں پڑے ہوئے مریض اور ان کے لواحقین، مہنگائی علٰیحدہ جان لیوا ہے۔ اسی طرح اگر اس طبقے کی بات کر لی جائے جو کبھی مڈل اور کبھی اپر مڈل کلاس کی تعریف کے زمرے میں آتا تھا، ان کی اکثریت چھوٹے بڑے شہروں میں مقیم ہے، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے طبقے کے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار مشکلات، ٹرانسپورٹ کی ناکافی سفری سہولتیں، بسوں، ویگنوں، چنگ چی میں اذیت ناک سفر، رہائش، تعلیم و بیروزگاری جیسے سنگین دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔
رہ گئی ایلیٹ کلاس تو اس کے مسائل اور ہیں، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے عوام تہذیب یافتہ نہیں جنہیں انتظارگاہ میں انتظار کرنے، قطار بنانے، گفتگو کرنے، شکریہ ادا کرنے کا سلیقہ نہیں، انہیں شکایت ہے کہ عوام ہائی جینک بھی نہیں ہوتے، یہ کھانستے ہوئے ٹشو کا استعمال نہیں کرتے۔ ایلیٹ کلاس کے موضوعات بھی مختلف ہوتے ہیں مثلاً اسٹیٹس سمبل کے حوالے سیکس کلب کی رکنیت، گاڑیوں کے ماڈل، کپڑوں، چشموں، گھڑی، موبائل برانڈ سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو مغربی اور دیگر ممالک میں اپنے قیام، رہائش، ہوٹل، سیاحت اور دنیا کے مختلف تفریحی مقامات، ریسٹورنٹس، ائر لائین اور ائرپورٹس وغیرہ کے تجربات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ ان میں بعض کے شوق اور خواہشیں مشترکہ ہوتی ہیں۔ پوش علاقوں میں پرائیویٹ محفلوں میں ان میں بعض کے جوہر علٰیحدہ ہی شناخت رکھتے ہیں۔ یہ رنگا رنگ دنیا ہے جہاں شراب اور شباب کا امتزاج ہوتا ہے، یہ جدی پشتی جاگیر دار، امراء، حکمران طبقے، مختلف اداروں اور محکموں کے راشی اور عیاش عہدیدار اور ان کی اولاد پر مشتمل طبقہ ہے، یہ ایک دوسرے کے جائز اور ناجائز کاموں میں معاون اور مدد گار ہوتے ہیں۔
ان طبقات سے ہٹ کر ایک طبقہ اور بھی ہے یعنی جدی پشتی جاگیردار، دولت مند اور کرپٹ عناصر پر مشتمل سیاست دانوں کا طبقہ، اسی طرح روایتی سیاستدان قبیلہ جو کہ اب باپ بیٹا کی پشت سے نکل کر پوتے اور نواسے تک جا پہنچا ہے مزید ان کے ساتھ بظاہر سیاسی جماعتیں لیکن حقیقتاً لسانی اور علاقائی اکائیوں پر مشتمل عناصر، قریب الاقتدار سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی راہداریوں میں لانے کے لیے اپنا کندھا پیش کرتی ہیں اور عوام کے استحصال میں شریک رہتی ہیں۔
ہمارے کئی سیاستدان بیرون ملک قیام کرتے، اثاثے اور بینک بیلنس رکھتے ہیں، ماضی میں بھی اور اب بھی اداروں اور سرکاری محکموں سے فارغ ہونے والے کئی اعلیٰ عہدیدار بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں اور کیوں نہ ہوں، یہ دوران ملازمت اپنے اپنے اختیارات اور حدود میں سیاستدانوں کی خلاف آئین اور قانون، رہنمائی اور پشتی بانی کرتے اور ذاتی مفادات حاصل کرتے رہے تھے۔ سیاستدانوں کے تعاون اور اپنے ہنر سے انہوں نے بھی کچھ نہ کچھ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا ہے، اگر عوام ان سیاست دانوں کو قبول اور ان کے پیچھے چلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں تو آخر اس طبقے کا کیا قصور ہے؟، یہ کیوں اپنے اثاثے، بینک بیلنس اور رٹائرمنٹ کے بعد قیام بیرون ملک میں نہیں رکھ سکتے؟
فارم 45 کی حقیقت اور فارم 47 کے تخلیق کار اور کرتا دھرتا کی کہانی کے باوجود اس ملک کی فیصلہ کن طاقت اب بھی عوام ہیں، لیکن یہ قوت مختلف جگہ بٹی ہوئی ہے، کوئی بھی سیاسی پارٹی سوشل میڈیا، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی معاونت سے کتنا ہی متاثر کن بیانیہ اختیار کرے، عوامی سمندر مجموعی طور سے کسی ایک پارٹی کے حق میں قطعی نہیں۔ موجودہ صورتحال میں زیادہ سے زیادہ اکثریتی جماعت ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، الیکشن میں ہار جیت کم یا زیادہ ووٹوں کے فرق سے علٰیحدہ ہے اور عوام کے سمندر سے تبدیلی بالکل علٰیحدہ اور مختلف۔ اس کی مثال دیکھنی ہو تو 70-71ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، 77ء میں پاکستان قومی اتحاد، 80ء اور 90ء کی دہائی میں شہری سندھ میں ایم کیو ایم کو دیکھا جائے۔ اس وقت ملک کی بظاہر اکثریتی جماعتیں اور نادیدہ قوتیں جس کشمکش اور صورتحال سے دوچار ہیں اس میں پارٹی ورکرز کے لیے تو کوئی نہ کوئی دلچسپی اور سبب ہے لیکن مسائل سے گھرے عوام کو تو انتظار ہے اس مسیحا کا جو ان کے طبقہ سے ہو، ان کے مسائل سمجھتا اور موجودہ سیاسی رسہ کشی سے ہٹ کر عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے اور ان کے حقوق کی ہی بات کرتا ہو۔
موجودہ دشوار ترین معاشی حالات اور مسائل میں صرف وہی سیاسی جماعت اپنی پشت پر عوامی سمندر کی تائید کا حقیقی بیانیہ دے سکتی ہے جس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو اور وہ عوام کے حقوق کے لیے جدو جہد بھی کر رہی ہو اور ان کے لیے اٹھ کھڑی ہو، اس وقت عوام منتظر ہیں کسی ایسے مسیحا کے جو انہیں ظالمانہ ٹیکس کے نظام، بجلی گیس اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بھاری بلوں اور مہنگائی کے عفریت سے نجات دلا سکے۔ اگر ایک مرتبہ عوام کا سمندر اپنے حقیقی مسیحا کی پشت پر کھڑا ہوگیا تو پاکستان کے عوام غربت اور مایوسی کی دلدل سے نکل کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوکر مسائل کے حل کی طرف سفر شروع کر سکیں گے۔ اس وقت ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور دوسری طرف پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن اپنے اپنے ترپ کے پتوں کا ماہرانہ اور شاطرانہ استعمال نادیدہ قوتوں کی تائید اور منشا کو مدنظر رکھتے ہوئے لیکن اپنے اقتدار کے طول اور حصول کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ ان سب سے علٰیحدہ ماضی قریب میں مہم ’’حق دو کرچی کو‘‘ کامیابی سے ہمکنار کرنے والے حافظ نعیم الرحمن کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت اسلامی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ، مراعات یافتہ طبقہ کی ناجائز مراعات، پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں، بھاری بلوں اور کمر توڑ مہنگائی کے خلاف اپنے ایجنڈے اور سلوگنز ’’قیمتیں کم کرو، آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں‘‘، ’’حق دو عوام کو، حق دو پاکستان کو، بدلو اس نظام کو‘‘ کے تحت 26 جولائی کو اسلام آباد میں غریب عوام کی آواز بن کر دھرنا دینے آرہی ہے۔ دیکھیں عوام اپنے حقوق اور مسائل کے حل کے تناظر میں ان سب میں کس کے لیے سمندر بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بشکریہ جسارت