December 21st, 2024 (1446جمادى الثانية19)

مروجہ سودی نظام کے مضمرات

زرافشاں فرحین

سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سود کے خلاف اعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کےبڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے۔

انسانیت کی فلاح دین حنیف دین اسلام کے دامن میں پناہ لینے میں ہے۔ جب وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوں گے کہ اس کے نظام اقتصادیات کی برکات سے بھی بہرہ مند اور مستفید ہوں گے اس لئے کہ اسلام کا نظام معیشت اسلام سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اسی شجرہ طیبہ کی ایک سرسبز و ثمر بار شاخ ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵) ابراھیم۔24/25۔۔۔۔۔۔۔۔ترجمہ :کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال کیسی بیان فرمائی ہے وہ ایسے ہے کہ جیسے ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط یعنی زمین کو پکڑے ہوئے ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔

اور یہ اسلام کے تعلیم کردہ راسخ عقائد، قرآن حکیم اور جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اورتعلیم فرمودہ حکیمانہ عبادات اور عظیم ترین اور کامل ترین نظام اخلاق کی سرزمین میں اگلنے والا شجر طیبہ ہے۔ اور خون میں پیوست شاخ ہے۔ جو ہر طرف سے اور ہر طرح سے محفوظ ہے۔ موسموں کے تغیرات اور افراد کی تلون مزاجی اس پر نظر انداز نہیں ہوتی ۔

اس اعتبار سے اسلامی نظام معیشت کی بنیادی اور اولین خصوصیت تو یہی ہے کہ یہ نظام ربانی ہے جبکہ اس کے مقابلے باقی تمام نظام ہائے معیشت (اگر ان کو نظام کہاجاسکے ) تو انسانی بلکہ محض شیطانی ہیں۔ اس لئے کہ بندہ جب رحمن کا نہیں ہوتا تو شیطان کا ہوتا ہے تیسرا اختیار (Third Option) یہاں پر سرے سے موجود نہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ(۶)،فاطر – 6۔۔۔۔۔۔ترجمہ : وہ اپنے گروہ کے( لوگوں) کو پکارتا ہے تاکہ وہ دوزخ میں جانے والے بن جائیں۔

 اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ۔۔۔۔۔المجادلة – 19

ترجمہ: شیطان نے انکو قابو میں کرلیا ہے اور اور انہیں اللہ کی یاد بھلا دی ہے یہ لوگ شیطان کا لشکر ہیں اور آگاہ رہو شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے‘‘۔

اسلام اللہ تعالی کا مقرر کردہ اور پسندیدہ فرمودہ نظام حیات ہے تمام انبیاء علیہم السلام اس کی دعوت دیتے رہے۔

اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟ جس کی بناء پر وہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے، جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔ دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔

ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔ لیکن رحم دلی، انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔ دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے، وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی، انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اسلام حلال طریقے سے کمانے اور حلال جگہ پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

پس یہ طے شدہ امر ہے کہ اب سودی نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان محض اعلان نہ ہو عملاً نفاذ بھی ہو اسی میں ہماری دنیاوآخرت کی فلاح ہے۔