پروفیسرخورشیداحمد
اسلامی معاشیات ایک ارتقا پذیر سماجی علم ہے۔ یہ اقتصادیات کے اصولوں، اقدار، اداروں اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے اور نظامِ کار تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے، تاکہ ایک نیا اقتصادی نظریہ فروغ پاسکے۔اس کا مقصد عصری اقتصادی سائنس میں محض ایک شاخ یا ذیلی شعبہ کا اضافہ نہیں بلکہ جوہری بنیادوں پر علم الاقتصاد کی تعمیروتشکیل ہے۔ مغرب میں آدم اسمتھ کے زمانے سے آج تک معاشی علوم کی تعمیر کے لیے نت نئی کوششیں اور تجربے کیے جارہے ہیں۔ یہ کوششیں فلاحی معاشیات (Welfare Economics)، رویوں کی معاشیات (Behavioral Economics)، ارتقائی معاشیات (Evolutionary Economics)، گھریلو معاشیات (Home Economics) ، سیاسی معاشیات (Political Economy)، مارکسی معاشیات (Marxist Economics) اور ماحولیاتی معاشیات (Environmental Economics) وغیرہ جیسے علوم کی صورت میں کی گئی ہیں۔
عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ اس طرح معاشیات کو ’سماجی سائنس‘ ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس (Natural Science) کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف بنیادی طور پر تجرید اور انتخاب پر انحصار کیا بلکہ رفتہ رفتہ خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کرلیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی اُمور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی (unidimensional) تصور کے گرد منڈلا رہی ہے، جس کا محرک مفاد پرستی اور منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم اورسفاکانہ صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تودوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیرمساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے۔
اس عمل نے معاشرے کو وسائل رکھنے اور وسائل پر دسترس نہ رکھنے والوں میں تقسیم کردیا اور یوں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انسان، قومیں اور ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے، جس سے انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی ’غذا کے بارے میں چوٹی کی کانفرنس‘ (۲۳ستمبر ۲۰۲۱ء) کے مطابق ۲۰۲۰ء میں دنیا کے ۷۶۸ملین افراد بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے تھے، جن کی تعداد میں پچھلے سال اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔ دُنیا بھر میں تقریباً ۲۷۴ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، جب کہ دُنیا کے امیرترین ایک فی صد لوگوں کے پاس دُنیا کے تقریباً ۷؍ارب لوگوں سے دوگنی زیادہ دولت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تین امیر ترین افراد کے پاس ۱۶۰ملین افراد کی دولت کے برابر دولت ہے۔ امریکا اس وقت دُنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دُنیا کی ۵ فی صدآبادی کے ساتھ یہ دُنیا کی مجموعی پیداوار کے ۲۰ فی صد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود ۲۰ فی صد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ ۳۷ فی صد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکا میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق ۱۹۵۰ء میں ۲۰ گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر ۴۰۰ گنا ہوگیا ہے۔
عالمی وبائی مرض کورونا نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ تقریباً ۸۹ملین امریکی ملازمتیں کھوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے ۴۴ء۹ ملین سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں اور ۷لاکھ ۲۴ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ارب پتی، خاص طور پر وہ لوگ جو دواسازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لالچ کے اسیر اور عام انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے ہیں۔ عالمی تباہی کے ان دوبرسوں کے دوران ۴۵؍ارب پتیوں کی دولت میں ۲ء۱ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکی فارٹیکس فیئرنس (AFT) اور انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز پروگرام آن اِن ایکویلٹی کے تجزیہ کردہ ’فوربس‘ (Forbes) کے اعداد و شمار کے مطابق، ان کی اجتماعی دولت میں ۷۰ فی صد اضافہ ہوا۔ ۱۸مارچ ۲۰۲۰ء کو کورونا وبا کے آغاز میں ان کی دولت ۳ٹریلین ڈالر تھی، جو ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۱ء تک بڑھ کر ۵ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔
معاشی بحران اور علمِ معاشیات کا بحران
حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشیات کی سائنس دونوں ہی بحران کا شکار ہیں۔ پروفیسر ابھیجیت وی بینرجی (Abhijit V. Banerjee) اور ایستھرڈ فلو (Esther Dufly) نے اپنی کتاب: Good Economics for Hard Times (۲۰۱۹ء) میں عصری معاشیات پر نہایت جامع تنقید کی ہے۔انھوں نے اچھی معاشیات اور فاسد معاشیات (Bad Economics)کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے، اس عدم اعتماد پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جو عام آدمی معاشیات کے بارے میں رکھتا ہے۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح معاشیات اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ایک ایسے معاشرے کی پیدائش کا باعث بنی ہے، جس میں انصاف اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کا فقدان ہے۔ ان مصنّفین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر فاسد معاشیات کا دور دورہ ہے۔ مصنّفین، مغرب میں معاشیات کے ناقص نقطۂ آغاز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشیات کی ناکامی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’معاشی ماہرین کا رجحان فلاح و بہبود کے تصور کو اپنانے کی طرف ہے، جو اکثر بہت محدود ہوتا ہے، آمدنی یا مواد کی کھپت کے کچھ حصے کی حد تک۔ پھر ہم سب کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لیے برادری کے احترام، خاندان اور دوستوں کی راحت، وقار، خوشی اور سہل زندگی سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔صرف آمدنی پر توجہ ایک آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسخ کرنے والی عینک ہے، جس نے اکثر ذہین ماہرینِ اقتصادیات کو گمراہ کیا ہے، پالیسی سازوں کو غلط فیصلوں اور ہم میں سے اکثر پر غلط تصورات کو مسلط کیا ہے‘‘۔
جدید معاشیات کے بارے میں ان کی تنقید بہت باوزن ہے: ’’فاسدمعاشیات نے معیشت کی تمام چابیاں اور وسائل امیروں کے حوالے کر دیئے، پھر عوام کے لیے فلاحی پروگراموں کو کم کرنے پر زور دیا۔ اس تصور کو غالب کر دیا کہ ریاست کمزور اور بدعنوان ہے اور غریب سُست ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی تھی، جس نے عدم مساوات اور عوامی سطح پر جمود اور تلخی کو جنم دیا، جس سے تصادم کی فضا رُونما ہوئی ہے۔
نظریں خیرہ کرنے والی اس معیشت نے ہمیں بتایا کہ تجارت سب کے لیے اچھی ہے اور تیز تر ترقی ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اندھی معیشت نے پوری دُنیا میں عدم مساوات کے خوفناک دھماکے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے سماجی مسائل، اور سر پر کھڑی ماحولیاتی تباہی کو نظرانداز کر دیا‘‘۔ (Good Economics for Hard Times، پینگوئن بُکس، برطانیہ،۲۰۱۹ء)
اچھی معاشیات کی تلاش وقت کی پکار ہے۔ اسلامی معاشیات کو ترقی دینے کی کوشش اس سمت میں ایک مثبت کردار ہے۔اس سلسلے میں جن اہل علم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور پھر باقرالصدر [یکم مارچ ۱۹۳۵ء- ۹؍اپریل ۱۹۸۰ء] کا نام نمایاں ہے۔ مولانا مودودی نے نہ صرف علم معیشت کے تمام دائروں کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو واضح الفاظ میں بیان کیا، اور ان کی علمی اور عملی فوقیت پر مؤثر دلائل دیے، بلکہ پورے معاشی مسئلے کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے جس نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، اسے بڑی گرفت کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح معاشیات کے علم کی تشکیلِ جدید کی تحریک، بیسویں صدی کی ایک مؤثر تحریک بن گئی۔
اسلامی معاشیات کی اساس
معاشی حوالوں سے سیّد مودودی کی تحریریں پانچ بڑے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں:
ہمارے نزدیک 'تصور اور 'تجزیےمیں پیدا کردہ تفریق ہی روایتی معاشیات کی ناکامی کی اصل وجہ ہے۔ اسی لیے سیّد مودودی نے زور دے کر یہ سمجھایا ہے کہ اسلام کے تصورِ حیات، اخلاقی ضابطے اور انفرادی و اجتماعی تنظیم کا، معاشی نظریے، معاشی زندگی اور فیصلہ سازی سے لازمی ربط ہے۔ اگر اس میں سے کوئی ایک اکائی غائب ہے یا نظرانداز ہے، تو اس کو اپنی جگہ فعال اور بحال ہونا چاہیے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشیات کی اسلامی تشکیل کی نمایاں ترین خصوصیت معاشی تجزیے اور پالیسی سازی میں بھی اخلاقی اقدار کی کارفرمائی کا کلیدی کردار ہے۔
مولانامودودی نے معاشیات کے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ایک انسان دوست معیشت، مربوط طرز فکر کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کے لیے اچھی زندگی کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشیات وہ ہوگی، جس میں معاشیات اور اخلاقیات کا ناتا ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ مولانا نے معاشی زندگی اور اس کی انجام دہی کے مختلف پہلوؤں پر اس مربوط طرز فکر کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔
مولانا مودودی برملا کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کا ہرپہلو دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلاشبہہ تخصص کا ایک کردار موجود ہے، لیکن زندگی کو ایسے جدا جدا خانوں میں تقسیم کر دینا غیرحقیقت پسندانہ اور انتہائی نقصان دہ ہے، جن میں ہر شعبۂ علم انسانی زندگی کے کسی پہلو کو ایک الگ دنیا میں زیر مطالعہ لاتا ہو۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران معاشیات کو جس طرح ایک جدا اور اپنے آپ میں مکمل علم کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، اس نے ایسے یک رُخے علم کی تشکیل کی ہے، جس کی ساری توجہ ذاتی مفاد، نفع اندوزی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے پر ہے ۔
اس مفاد پرستانہ ذوقِ شکم و زرکا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی مفاد کا حصول ہی تمام انسانی کوششوں کا مدار ٹھیرا ۔ دروغ گوئی، جعل سازی،اشتہاربازی اور ناانصافی کا بازار گرم ہوا، جو آج کے معاشی حقائق ہیں۔ معاشرے کا مفہوم مجرد معیشت سمجھ لیا گیا اور معیشت کو منڈی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آغاز تو مادی ضروریات کے لیے اخلاقی فلسفے کے پھیلاؤ سے ہوا تھا، لیکن اس نے محدود ہوتے ہوتے مالی فوائد و نقصانات کی حساب بندی کی شکل اختیار کر لی۔ پھر معاشیات کا تعلق مذہب اور اخلاقیات سے توڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے رفتہ رفتہ فلسفے، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ سمیت دیگر شعبہ ہائے علم سے بھی جدا کر دیا گیا ۔اگر انسانی مسائل کا حل واقعی درکار ہے تو زندگی سے متعلق تمام شعبہ ہائے فکر سے معاشیات کے تعلق کو بحال کر کے مضبوط کرنا ہوگا ۔ اس نئے آغاز کے لیے مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ ناگزیر ہے۔
اگرچہ منڈی (مارکیٹ)کی حرکیات، فیصلہ سازی کے لیے مناسب بنیاد ہیں، لیکن خود منڈی کو واضح طور پر طے شدہ اخلاقی، قانونی اور سماجی دائروں میں کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کا اپنا مرکزی کردار ہے، لیکن اداروں کا بھی اپنا خاص مقام ہے، جو بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عمل تخلیق میں مقابلہ آرائی تو لازم ہے، لیکن معیشت و معاشرت کی حرکیات میں باہم تعاون اور درد مندی بھی اہم تر ہے۔ ریاست خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی اور نہ اسے لاتعلق ہونا چاہیے۔ اسے تنظیم اور اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ معاشرتی اہداف کا حصول ممکن ہو۔ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ تمام دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست اور افراد معاشرہ کو بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی ترقی، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے عدل و فلاح کی ضامن ہو۔
موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا، حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلائو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے‘‘۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر (تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر (تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے:’’اسلامی بنکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بنکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بنکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بنکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔
اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم ازکم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:
اوّل:یہ کہ انھوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبۂ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق میں گذشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اُبھرتے ہوئے شعبۂ علم کو مختلف پہلوؤں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبۂ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سیّد مودودی کا کردار نمایاں ہے۔
دوم: یہ کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانامودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت، سماجی تبدیلی کے بغیر نمو نہیں پا سکتی۔ لہٰذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغیر اتی کردار۔
اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بنکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پذیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی، یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطۂ آغاز ہیں۔
پھرمولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں،معاشرے اور ریاست کے حوالے سےپورے منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصۂ تصنیف و تحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے سماجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔