December 21st, 2024 (1446جمادى الثانية19)

معاشی بحران کب تک جاری رہے گا؟

محمد اصغر

 روزنامہ جنگ میں شائع چشم کشا کالم

2019ء میں پاکستان 39 ماہ کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنا تھا لیکن اب تک پاکستان کو 6 ارب ڈالر میں سےصرف 3 ارب ڈالر جاری کیے گئےہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ حکومتِ پاکستان کاآئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر قرضے کی آخری قسط 2 فروری 2022ء کو اس شرط پر جاری کی تھی کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت قانون سازی کے ذریعے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختاری دے گی ۔ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی یقین دہانی پر ہی 15 جنوری 2022ء کو مِنی بجٹ پیش کیا جس میں متعدد اشیا پر 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا دیے گئے۔مِنی بجٹ میں لگائے گئے اضافی ٹیکسوں اور ہوشربامہنگائی پر عوام اور اپوزیشن جماعتوں کا شدید ردِعمل سامنے آیا توعوامی وسیاسی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جون 2022ء تک منجمد کردیا جس پرآئی ایم ایف نے متوقع طور پر مارچ 2022ء میں جاری ہونے والی نئی قسط روک لی جو آج تک جاری نہیں کی گئی۔
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے عوامی ردِعمل کے خوف سے پی ٹی آئی حکومت کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو منجمد کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا لیکن وہ بھی عمران حکومت کی طرح اس کے لیے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے میں ناکام رہے ۔شہباز حکومت نے روپے کی مسلسل گراوٹ، اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالرزکی کمی، ادائیگیوں کا توازن بگڑنے کے باعث معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کا رُخ کیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کر کے ایک ماہ کے اندر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 92 فیصد تک اضافہ کردیا گیا۔شہبازحکومتِ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھتے ہوئے تجدیدِ عہد کیا کہ پیٹرولیم لیوی کو 5 روپے سے بڑھا کر بتدریج 50 روپے فی لیٹرکر دیا جائے گا۔بجٹ 23-2022کے ریونیو جمع کرنے کے ہدف میں 467ارب روپے کا اضافہ ،بجٹ 23-2022میں ماہانہ ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ، مرکز کو نقد سرپلس میں فراہم کرنے کے لیے صوبوں کے ساتھ 750 ارب روپے کےتحریری معاہدے کرنے،بجلی کے ماہانہ بِلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی رقم کی وصولی کا تسلسل برقرار رکھنےاور بجلی کی بنیادی قیمت میں بتدریج 7.91 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا جائے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ،آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ سعودی عرب یہ یقین دہانی کروائے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ ملنے کے بعد سعودی عرب سے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی فنڈنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلوم برگ کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مالیاتی پریشانیوں اور غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث پاکستان کا روپیہ اور بانڈز ڈوب رہے ہیں جس کے باعث آئی ایم ایف سے ملنے والی 1.177ارب ڈالر کی قسط پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ناکافی ہوگی۔ خیال رہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی اور اسٹیٹ بینک کے بیرونی اثاثہ جات کو بڑھانے کے لیے آئندہ 12 ماہ میں 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنی کمزور گورننس ،کمزورمالی نظم ونسق ،غیر ضروری اخراجات اور کرپشن پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں رہے۔ ہر حکومت کو مالیاتی ومعاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہر حکومت معاشی خسارے سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر سخت شرائط پر قرضے لے تولیتی ہیں لیکن قرضے کے بہترین استعمال اور قرض خواہوںکی شرائط کو پورا نہیں کرتی۔ عالمی اداروں سے ملنے والےقرضے عوام کی بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے اصل زراور اس پر سُود کی ادائیگی،نااہل حکمرانوں کی کرپشن، خراب طرزِ حکمرانی، بد ترین مالیاتی نظم و نسق اور کاہل نوکرشاہی کی نذر ہو جاتے ہیں اور بالآخر ہرحکومت قرضوں کا بوجھ ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں عوام کو منتقل کر دیتی ہیں۔
پاکستان کے معاشی بحران کی واحد وجہ حکمرانوں کا سُودی معیشت پر انحصار ہے۔سابق حکمرانوں نواز شریف ، بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف ، آصف زرداری ، عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس وفاقی شرعی عدالت کے واضح فیصلے کے بعدقانونی اختیار تھا کہ وہ عوام کو قرضوں اور سُود کے گھن چکر سے آزاد کروانے کے لیے مالیاتی اور معاشی نظام کی تنظیم نو کرتے اورپاکستان میں غیر سُودی نظام معیشت کومتعارف کرواتے۔ تمام حکومتوں اور اُن کے ماتحت مالیاتی اداروں نے مالیاتی خسارے کی اصل وجہ ’’سود‘‘ کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ پورےسُودی نظامِ معیشت کی حفاظت کی اور معاشی بحران سےنکلنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور موثروانقلابی فیصلوں سے گریز کرکے مزید قرضے لیے اور مہنگائی کا عذاب عوام پر مسلط کردیا۔
موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ وفاقی حکومت نیک نیتی کے ساتھ آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سُودی قرضوں سے نجات کا منصوبہ،لائحہ عمل اور روڈ میپ تیار کرے اور غیرسُودی نظام معیشت کے لئے دُور رس منصوبہ بندی کرنے کے لیے اندرون اوربیرونِ ملک مقیم دردمند پاکستانی ماہرینِ معاشیات سے رہنمائی حاصل کرے۔آمدن میں اضافہ کرنے کے لئے مُلکی وسائل کوقابلِ عمل بنا کر عوامی ضروریات پورا کرے۔ غیر ضروری حکومتی اخراجات سے اجتناب کرے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے۔ امیروں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرے اور اُن کو حاصل اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا حجم کم کرے۔ کاروباری طبقے کو بلا امتیاز سہولتیں دے۔ زراعت کو ترقی کا محور بنا کر کسان کو خوشحال بنائےاور صنعت کاری کو فروغ دے کرعالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات بیچ کرزرِ مبادلہ کمائے۔کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے اور بلا امتیاز احتساب کا نظام قائم کرنے کے لیے نیب کو سُپریم کورٹ کے ماتحت کرے۔کمرشل بنکوں کےسُودی قرضوں کے بجائے کیپیٹل وینچر فنڈ (capital venture fund) قائم کرے جس کے تحت پبلک اور نجی سرمایہ کار یا کمپنیاں کاروبار شروع کرنے کے لئے نئے کاروباری افراد کو فنڈز فراہم کریں اور اس کا منافع سرمایہ کار اور کاروبار کرنے والے افراد میں برابر تقسیم ہو اور اس میں کسی قسم کا سُود شامل نہ ہو۔ حکمرانوں نے جب تک اللہ کے ساتھ معاشی جنگ بند نہ کی تب تک معاشی بحران بھی جاری رہے گااور سیاسی بحران بھی۔

                                                                                بشکریہ روزنامہ جنگ