March 28th, 2024 (1445رمضان18)

سود پر عدالتی فیصلہ اور حائل رکاوٹیں

زاہد حسین اعوان

اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کا آئین اسلامی نظام کے احیاء کے لیے تمام اداروں کو پابند بناتا ہے، اسی ملک خداداد میں سودی معیشت (اللہ اور رسولؐ سے جنگ) سے چھٹکارے کے لیے ۲۰ سال تک عدالتی جنگ اور سپریم کورٹ کے فیڈرل شریعت کورٹ کےحالیہ فیصلے کے بعد یہ جدوجہد اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔جس میں عدالتی، آئینی، انتظامی اور مفاداتی رکاوٹیں اپنی جگہ قائم ہیں، جنھیں عبور کرنے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر خزانہ کا محتاط تبصرہ اور وزیر اعظم کا یہ بیان بھی حوصلہ افزا ہے کہ ’’سود کے بارے قرآنی احکام سے حکم عدولی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘۔ تاہم، دوسری طرف ہمارے سامنے یہ بھی ایک بڑی واضح حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ اس قسم کے بیانات، تضادات اور خوش کن وعدوںسے بھری پڑی ہے، جو ہرسال ۲۳مارچ اور ۱۴ ؍اگست کو اخباروں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت میں قانونی موشگافیوں اور حیلوں میں اُلجھنے کے بجائے، راست اسلامی فکرورہنمائی کے مطابق، حکومت اور متعلقہ ادارے اس غلطی کو نہیں دُہرائیں گے، جو ۹۰ کے عشرے میں کی گئی اور جس کا خمیازہ ہم مالی اور معاشی مشکلات کی صورت میں ابھی تک بھگت رہے ہیں۔

۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ءکے فیصلے کے کمزور پہلوئوں کے علی الرغم، اور نظر آتی ایک نئی عدالتی جنگ کے باوجود فی الفور چند بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہو گی ۔اوّلین قدم قرضوں کے حجم کو کم کرنا ہوگا، تاکہ واجب الادا قرض /سود میں بتدریج کمی لائی جا سکے اور ایک خاص مدت کے اندر ہم سابقہ قرضوں کے جن معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سےچھٹکارے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔

 ان قرضوں کوکس طرح اسلامی بنیاد پر حاصل کیے گئے قرضوں میں منتقل کیا جائے؟ جیسے بڑے سوال کا جواب دینے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی سر براہی میں غیرسودی بنکوں، وزارتِ خزانہ اور دوسرے معاشی ماہرین پر مشتمل کمیشن ایک لائحہ عمل بنا سکتا ہے، جس پر عمل کر کے ملکی قرضوں پر سود کے خاتمے کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے، ان کے لیے مختلف لائحہ عمل اختیار کرنے ہوں گے۔حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کے لیے قرضہ جات صرف کار آمد منصوبوں کے لیے ہی لیے جائیں۔ ڈیم بنائیں اور ریل کی پٹڑیاں یا موٹرویز تعمیر کریں۔بیرونی سرمایہ کار اداروں سے شراکت کی بنیاد پر اور بعض معاملات میں ورکنگ کیپٹل اور میٹریل فراہمی کے لیے اسلامی بنیادوں پر سرمایے کا حصول بالکل ممکن ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

۲۰۰۶ء میں قطر نے ایشین گیمز منعقد کراتے وقت انفراسٹرکچرکے لیے اسی بنیاد پر سرمایہ حاصل کیا تھا۔ اب بھی حکومت قطر اپنی پیٹرولیم اور گیس کی صنعت کو وسعت دینے کے لیے غیرسودی بنیاد پر بین الاقوامی اداروں سے سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ کئی دوسرے ممالک میں بھی صکوک کے ذریعے یہ سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے۔ خود پاکستان کی حکومت اور کارپوریٹس نے صکوک جاری کر رکھے ہیں۔البتہ سابقہ قرضوںکے لیے دوجہتوں پر کام کیا سکتا ہے: اوّل یہ کہ ری شیڈولنگ کے تحت ان قرضہ جات کو اسلامک پروڈکٹس میں منتقل کرنا اور پھر جہاں بالکل ناممکن ہو، وہاں شریعۃ سےرہنمائی اور مہلت طلب کرنا۔

بنک معاشی نظام کا ایک جزو ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نا ممکن ہے۔ پاکستان میں بنکوں کو اسلامی بنکاری میں ڈھالنے یا ان سے سود کا خاتمہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔کمرشل بنک آیندہ کے لیے فکسڈ شرح منافع کے بجائے اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز کو نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع دیں۔اسی لیے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے۔ رہا معاملہ ان کے سابقہ دیئے گئے قرضوں کا تو یہ کام سال بھر میں ممکن ہے۔ ان تمام بنکوں کی اسلامک برانچیں موجود ہیں تو باقی بنک کیوں اسلامک بنیاد پر کام نہیں کر سکتے؟

ملک میں اقتصادی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کے لیے بلاشبہہ وقت درکار ہے۔ سٹیٹ بنک اور دوسرے متعلقہ اداروں نے عدالت کے بار بار اس سوال کے جواب میں وقت دینے سے پہلو تہی برتی۔ تاہم، سابق سیکرٹری خزانہ جناب ڈاکٹر وقارمسعود نے علمی بنیادوں پر اس سلسلے میں عدالت کی معاونت کی۔

حالیہ انتہائی پیچیدہ معاشی مشکلات میں حکومت کو بجٹ بنانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہے، اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات کرنے کی جلدی بھی ہے، تاکہ دوسرے ذرائع سے قرضے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو۔

یہ فیصلہ اربابِ اختیار کے لیے ایک عظیم چیلنج ہے۔بلاشبہہ فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ دار حکومت ہی ہے، لیکن اس کے لیے اسلامی اسکالرز،معیشت دان، علما، سٹیٹ بنک ،ایس ای سی پی بنک، اوردوسرے اداروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ صرف عدالتی فیصلوں سے معیشت سے سود کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف ایک اصولی بات کہہ سکتے ہیں۔ جب تک اس راہ میں تمام حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے بنک اور دوسرے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس راہ میں حائل چند رکاوٹوں کا ذکر معاملات پر گہری سوچ و فکر کی طرف یہاں دعوت دی جارہی ہے:

حائل مشکلات

  • عوامی سطح پر عدم واقفیت (عقیدے اور تکنیکی پہلو)
  • بیوروکریسی اورفیصلہ ساز ادارے
  • کمرشل قوانین کی عدم موجودگی
  • اسلامی بنکوں کی عدم دلچسپی
  • ہمارے رویے
  • نئے بنکوں کے قیام میں عدم دلچسپی۔

 

  • عوامی سطح پر آگاہی: مصنوعات یا تصور کو پیش کرنے کے لیے عوام میں آگاہی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے بجٹ کا ایک معقول حصہ مختص ہوتا ہے ۔آگاہی کے بھی دو پہلو ہیں:ایک کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے، جب کہ دوسرا اس کا تکنیکی یا کمرشل پہلو ہے۔

بلحاظ عقیدہ سود کی حرمت کے بارے قرآن وسنت کے احکام واضح ہیں ۔مساجد میں کبھی کبھار خطبوں میں اس کا ذکرضرور کر دیا جاتا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کرسود کی حرمت اور موجودہ دورمیں اس کے ہماری روزمرہ زند گی میں عمل دخل اور تباہ کاریوں سے واقف بھی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے نہ عوامی سطح پر آگاہی کا کوئی پروگرام موجود ہے اور نہ کسی کو اس کی فکر لاحق۔اس وقت عوام، غیرسودی بنکوں سے جو معاملات کر رہے ہیں، اس میں بیش تر افراد صرف اپنے عقیدے کی بنیاد پر سود کو حرام سمجھتے ہوئے اسلامی بنکاروں سے معاملات کر رہے ہیں۔ ملک میں اسلامی بنک اور سودی بنکوں کی اسلامی برانچیں صرف ڈیپازٹس لینے اور محدود پیمانے پر فنانسنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں، جو ناکافی ہی نہیں بلکہ غیر معیاری بھی ہیں۔

جہاں تک اس کے کمرشل پہلو کا تعلق ہے تو مختلف مصنوعات تیار اور پیکنگ کرنے والے بھی دن رات اشتہارات کی مد میں اربوں روپے الیکٹرانک میڈیا کو دے کر اسے قیمت میں شامل کرکے عوام سے ہی وصول کرلیتے ہیں، حالانکہ اس کے بغیر بھی عوام ضروریات کی خریداری کر ہی لیتے ہیں۔ غیر سودی بنکوں کی برانچیں کبھی کبھار اپنے ڈیپازٹس بڑھانے کی خاطر منافع کی شرح کے اشتہارات وغیرہ دے دیتے ہیں۔ تاہم، غیرسودی بنکاری کے دوسرے فنانسنگ پروڈکٹس جو حقیقی اسلامی بنکاری کی روح ہیں، عوام کو اس کے بارے آگاہی نہیں ہے،بلکہ غیرسودی بنکوں کا اپنا عملہ بھی شاز ہی اس بارے مکمل آگاہی رکھتا ہوگا (الاماشاءاللہ)۔

اگر عوام کو یہ آگاہی ہو کہ ان کی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شرعی قواعد کے مطابق فنانسنگ ممکن ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی یہ ضروریات غیر سودی بنکوں سے حاصل کریں گے۔غیرسودی بنکاری میں صرف مرابحہ، مضاربہ اوراجارہ ہی نہیں مشارکہ، بیع سلم وغیرہ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع فنانسنگ بھی موجود ہیں، جن کو بروئے کار لا کر عصرحاضر کی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے غیرسودی بنکاری کو وسعت دی جا سکتی ہے۔

  • بیوروکریسی اور فیصلہ ساز ادارے: یہ ادارے مخصوص مفادات کے لیے راتوں رات بل تیار کرکے چند گھنٹوں میں پارلیمنٹ کو بلڈوز کرتے ہوئے پاس کرا لیتے ہیں۔ مگر جہاں معاملہ اسلامی اقدار کی پاس داری اور بے حیائی کی روک تھام کا ہو تو کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں۔سود کے امتناع کے بارے دسیوں کمیٹیاں اس کی زندہ مثال ہیں۔
  • غیرسودی سرمایہ کاری کے بارے کمرشل قوانین کی عدم موجودگی: غیرسودی فناسنگ کے لیے جو بھی سرمایہ مہیا کرتے ہیں وہ پبلک سیونگ اور اداروں ہی کی امانت ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بنکوں کو رقم کی واپسی میں تاخیر کی جاتی ہے ۔ایسے حالات میں معاملات عدالتوں میں جاتے ہیںاور فنانسنگ سے فائدہ اٹھانے والے مناسب کمرشل قوانین کی عدم موجوگی میں حیلے بہانے تراشتے ہیں ۔ان مشکلات سے بچتے ہوئے غیرسودی بنک عموماً ایسے پیچیدہ پراجیکٹس میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ یوں وہ حکومت اور بڑی کارپوریشنوں کے ساتھ صکوک کی مد میں سرمایہ کاری ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔برطانیہ نے صکوک بانڈ جاری کرنے سے پہلے اپنے ہاں اس بارے مالیاتی قوانین میں تبدیلی کے لیے کافی وقت لیا اور بنیادی تبدیلیاں کیں۔
  • جدید پروڈکٹس کی تیاری میں غیرسودی بنکوں کی عدم دلچسپی: اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے اور تجارت کو جائز قرار دیتا ہے ۔تجارت کے لیے اصول و ضوابط کے بارے مفصل فقہی احکام موجود ہیں۔ فقہا نے اس پر بہت کام کیا ہے۔شرعی اصول وضوابط کا پاس رکھتے ہوئےاور دور جدید کی معاشی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے پراڈکٹس (پیش کشیں) بنائے جا سکتے ہیں، جو کاروباری طبقے کی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کہ بڑے عالمی بنکوں نے غیرسودی بنکوں سے فنڈزکے حصول کی خاطر مرابحہ ،لیزنگ وغیر مشہور پراڈکٹس تیار کیے ۔بڑی بڑی لیگل فرم ان ہی میں کچھ ردو بدل کرکے غیرسودی بنکوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان بنکوں نے اپنی پیش کشوں کی تشکیل اور تشہیر کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ملائشیا،بحرین اور پاکستان کے مرکزی بنکوں نے اس ضمن میں بلاشبہہ کافی کام کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے مائیکروفنانس بنک قائم کرنے تک کی قانون سازی اور طریقۂ کار واضح کیا ہے۔

  • مالیاتی حرکت پذیری (liqudity Management) کا شعبہ: موجودہ بنکنگ کے کام کاج میں یہ شعبہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنکوں کے پاس فوری ضروریات کے لیے ہر وقت کافی سرمائے کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ غیرسودی بنکاری کو شروع ہوئے۴۰ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس شعبے کے لیے کوئی مناسب پیش کش نہیں بن سکی۔ غیرسودی بنکوں کے پاس موجود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ عموماً ایسے ہی روایتی پروڈکٹس میں لگایا جاتا ہے جو کمرشل بنکوں سے مستعار لیے گئے ہیں، جن میں کچھ رَدو بدل کیا گیا ہے ۔شریعہ کے ماہرین نے ان کی محدود پیمانے پر استعمال کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہوئی ہے کہ یہ وقتی حل ہے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • عملے کی تربیت : الحمد للہ، پاکستان میں غیر سودی بنکاری جب سے شروع ہو ئی ہے اس مختصر عرصے میں مجموعی بنکنگ انڈسٹری میں اس کا حجم تیزی سے بڑھا ہے، اورمجموعی برانچوں کی تعداد ۳ہزار۸ سو سے اُوپر ہے ۔یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بغیر کسی مناسب مارکیٹنگ کے بھی عوام میں اس کی کافی پذیرائی ہورہی ہے۔ لیکن غیرسودی بنکاری کےحقیقی فوائد سے تاحال عامۃ الناس کما حقہٗ مستفید نہیں ہو سکے۔ چونکہ بنک مالکان کا مطمح نظر صرف منافع کمانا ہی ہے اور بلاشبہہ اس سے تو کسی کو اختلاف بھی نہیں ہو سکتا کہ سرمایہ کار کو اس کی سرمایہ کاری کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے، لیکن ان کی کچھ سوشل ذمہ داریاں بھی ہیں جن میں ایسے اداروں کی سرپرستی بھی شامل ہونا چاہیے جو اس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں مددگار ہوں۔ہمارے ہاں عموماً یہ کلچر ناپید ہے۔

پاکستان میں جب پہلا کمرشل غیرسودی بنک قائم ہوا تو لا محالہ سٹاف موجود کمرشل بنکوں ہی سے لینا پڑا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی چلتی رہی ہے اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں مختلف تربیتی کورسز بھی کرائے جارہے ہیں، مگر ناکافی ہیں ۔ اس بات کی حدرجہ ضرورت ہے کہ ایسے بنکار تیار کیے جائیں، جو صرف بنکنگ ہی نہیں ’اسلامی بنکاری‘ کی اصطلاحات کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حلال و حرام کی تمیز جانتے ہوں۔اسلامی بنکاری کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر بنک میں آنے والے افراد کی صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے والے بنیں تو عوام کو اسلامی بنکاری کی طرف راغب کرنے میں ممد ومعاون بن کر اس کی ترقی میں حصہ دار اور اجر کے مستحق ہو جائیں گے۔

  • نئے بنکوں کےقیام میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی: اس وقت پاکستان میں پانچ غیرسودی بنک کام کر رہے ہیں۔اور ان میں چار بنک ایسے ہیں جو کلی یا جزوی طور پر بیرونی سرمائے سے قائم ہوئے ہیں۔ صرف ایم سی بی، ایسا اسلامک بنک ہے، جو پاکستانی سرمایہ کار (منشاء گروپ) نے قائم کیا ہے ۔حالانکہ پاکستان کے بہت سارے سرمایہ کار دلچسپی لیں تو اور بھی نئے بنک قائم ہوسکتے ہیں، مگر مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر اس طرف توجہ دی جائےتواسلامی بنکاری میں اضافہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

یہی حال اسلامک انشورنس (تکافل) کا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامک انشورنس کے قوانین بنے، لیکن ابھی تک صرف دو تکافل کمپنیاں ہی وجود میں آسکیں اور ان میں بھی سبقت بیرونی سرمایہ کاروں نے لی ہے، جو قطر کے کچھ مالیاتی اداروں کے تعاون سے  ( پاک قطر تکافل گروپ ) قطر میں مقیم چند پاکستانیوں اور ایک قطری تاجر کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے قائم ہوا۔البتہ روایتی انشورنس کمپنیوں نے دھڑا دھڑ بنکوں کی طرح تکافل ونڈو آپریشن شروع کر دیئے ہیں کہ منافع سمیٹ سکیں۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے سبقت لی اور اسلامی بنک قائم کردیا، جس میں اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کی بھی شرکت داری ہےاور یہ ایک مثالی اسلامک بنک بن چکا ہے، اگرچہ موجودہ حکومت نے اسے برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

 لائحہ عمل

پاکستان کے تمام ادارے آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملک میں اسلام شعائر کےاجراء میں مدد کریں۔ سود ایک لعنت ہے اور قرآن میں اسے اللہ اور رسول ؐکے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔کئی غیرمسلم ممالک میں بھی غیرسودی بنک قائم ہو رہے ہیں ۔لیکن اس مملکت خداداد میں سود کے خاتمے کے لیے کئی عشروں سے عدالتوں میں جنگ لڑی گئی ہے۔

ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے اب تک کے اقدامات ناکافی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ عدالت میں بھی اپنا مقدمہ مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت اگر عمل درآمد نہ کرنا چاہے تو ہزار قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول جاری رکھے گی۔

عوام میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک فوری کام جس کی ضرورت ہے وہ ہمارے قومی نصاب اقتصادی نظام کے بارے مضامین شامل کروانے کی مہم ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کے لیے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کی کلاسوں میں اسباق شامل کیے جائیں۔ یہی نوجوان کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔اگر ان کے ذہن اسلامی اقتصادی نظام کے بارے واضح ہوں گے تو آج جو مخالفت بیوروکریسی اور دوسرے طبقات کی طرف سے کی جا رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

اس کے ساتھ اقتصادی ماہرین کا ایک پینل بنا کرحکومت اور اس کے زیر سایہ مالیاتی اداروں اور بنکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی جائیں، انھیں سود ی معیشت کی تباہ کاریوں سے خبردار کرے اور ساتھ ہی ان کی مشاورت سے کمرشل لا میں اسلامی بنکوں کی ضروریات کے مطابق تبدیلی کے لیے قانون سازی تجویز کرے،تاکہ وہ اسلامک فناسنگ کے دوسرے پراڈکٹس میں بھی سرمایہ کاری کرسکیں، جو کمرشل قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے فی الحال نہیں کر رہے۔

  جب ہم ایک بار یہ قطعی فیصلہ کر لیں گے تو سودی معیشت سے چھٹکارے کا سفر شروع ہوجائے گا اور اس کے اثرات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ہم اس وقت جو بھی قرضہ خواہ پاکستانی بنکوں اور عوام سے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، وہ زیادہ تر نقد ہی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال بھی حکومت /ادارے اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں، جب کہ اسلامی طریقے سے حاصل کی گئی فناسنگ/قرضے صرف کسی پراجیکٹ ہی کی خاطر لیے جائیں گے۔اس طرح غیرترقیاتی مقاصد کے لیے قرضے کے حصول کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یہی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔