April 25th, 2024 (1445شوال16)

حُرمت ِسود: عدالتی فیصلے پر ایک نظر

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام 

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے کے تسلسل میں فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ ملکی نظام معیشت میں حُرمت ِسود کو فیصلے کی حد تک یقینی بناتا ہے۔ فیصلے پر اخبارات و جرائد میں اور دیگر ذرائع ابلاغ پر داد و تحسین اور نقد و جرح کا عمل جاری ہے۔

 یہ فیصلہ چونکہ ملکی آئین و قانون کے مطابق ہے، اس لیے قرآن و سنت، اصولِ فقہ، عمرانی علوم اور اسلامی علوم کے ماہرین کی آراء اس میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ملکی معیشت، معاشرتی تعلقات، قانون بین الممالک، شماریات، تجارت، اکاؤنٹنگ، وفاق اور صوبوں کے تعلقات اور ایسے کئی شعبوں کے ماہرین بھی اس فیصلے سے لاتعلق نہیں ہیں، لہٰذا وہ بھی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنی اپنی آراء دے رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس فیصلے کا مختصر سا پس منظر بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین ماضی کے پورے عدالتی عمل سے بخوبی واقف ہو جائیں۔

حُرمتِ سود پر پہلا فیصلہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو دیا تھا، جس میں سود کی تمام شکلوں کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ترمیم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ آئینی اعتبار سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اگر وفاقی یا کسی صوبائی قانون کو متاثر کرتا ہو تو متعلقہ حکومت چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔ ورنہ وہ قانون غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور فیصلہ  نافذ ہوجاتا ہے۔فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں کی جاتی ہے۔ اس پانچ رکنی بینچ کے لیے آئینی تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین مسلم ججوں کے ساتھ دو عالم جج بھی ہوں۔ اپیل ہوجانے پر غیر مؤثر قرار دیا گیا قانون مؤثر رہتا ہے اور نئے فیصلے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے۱۹۹۱ء کے فیصلے کے بعد ایسے ہی ہوا۔ شریعت اپیلٹ بینچ نے اس اپیل پر آٹھ سال بعد ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ءکو فیصلہ دیا۔ بینچ نے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ڈیڑھ سال کے اندر ترمیم کرنے کی مہلت دے کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔

جنرل مشرف حکومت نے شریعت اپیلٹ  بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ بنایا، جس میں نئے جج تھے۔ بینچ میں سماعت کے دوران میں کئی پہلے سے طے شدہ امور پر گفتگو کا آغاز نئے سرے سے ہوا۔ یوں سماعت کا دورانیہ بڑھتا گیا، حالانکہ اپیل میں تفصیل کے بجائے چند متعین نکات پر بحث ہوا کرتی ہے۔ طویل سماعت کے دوران میں سابقہ اصل بینچ کی دی گئی ڈیڑھ سالہ مدتِ مہلت ختم ہوگئی۔ لہٰذا حکومت کو قوانین میں ترمیم کے لیے اس نئے بینچ نے ایک سال کا مزید وقت دیا۔ یہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو بینچ نے کچھ نکات کو نشان زد کرتے ہوئے اس ہدایت کے ساتھ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیج دیا کہ ’’ان نکات کو ازسرنو دیکھا جائے‘‘۔

 ۱۹۹۱ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ۱۹۹۹ء کے اصل بینچ نے برقرار رکھا تھا۔ یہ دونوں فیصلے چند متعین نکات کے گردا گرد تھے، لیکن ۲۰۰۲ء میں نئے شریعت اپیلٹ  بینچ نے مقدمہ  وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیجتے وقت یہ دروازہ کھول دیا کہ ’’مقدمے کے فریقوں نے جو امور شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے رکھے ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں از سر نو سماعت میں وہ نئے امور بھی سامنے لاسکتے ہیں‘‘۔ اس حکم پر وفاقی شرعی عدالت میں مقدمے کی سماعت از سر نو شروع ہوکر ۲۰برسوں تک پھیل گئی، جس کی بڑی وجہ بعض فریقوں کی طرف سے اٹھائے گئے نئے نئے نکات تھے، حتیٰ کہ زیر نظر فیصلہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سنا دیا گیا۔

فیصلے کا اطمینان بخش پہلو

اس فیصلے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ عدالت نے اپنے ۱۹۹۱ء کے اور پھر شریعت اپیلٹ  بینچ کے ۱۹۹۹ء کے فیصلے سے انحراف نہ کرتے ہوئے سود کی تمام شکلوں کو خلافِ اسلام قرار دینا، برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ’’سود کو انٹرسٹ (Interest) کہا جائے یا نفع، یا کسی قانون میں اسے کچھ اور کہا گیا ہو، اس کی تمام صورتیں حرمت سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ قانون اور بنکاری صنعت میں اس کی کوئی بھی اصطلاح مستعمل ہو، سب حرام ہیں‘‘۔ اس تفصیل میں سود کا ایک اور انگریزی نام ’یوژری‘ (Usuary) بھی شامل ہے۔ قارئین کے لیے یہ وضاحت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سودی لین دین کے فریقین کے مابین لین دین کی عمومی شکلوں پر شرح سود حکومتی یا ریاستی بنک کی مقررہ حدود کے اندر ہو تو اسے ’سود‘، ’منافع‘ یا ’انٹرسٹ‘ کہتے ہیں، لیکن حکومت یا مرکزی بنک کی مقررہ شرح سود سے زیادہ سود پر لین دین پر اتفاق ہو تو اس اضافہ شدہ شرح کو ’یوژری‘ کہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے یوژری سمیت ان تمام سودی اقسام کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر ان کے لین دین سے روک دیا ہے۔یہ اس فیصلے کا سب سے مستحسن حصہ ہے۔

فیصلے کا دلچسپ حصہ

شریعت اپیلٹ  بینچ کی طرف سے مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو از سر نو غور کے لیے بھیجا گیا تو نیا فیصلہ آنے میں بیس سال لگے۔ اس طویل مدت کو شرعی عدالت یوں باعثِ اطمینان قرار دیتی ہے کہ اس مدت میں متوازی عمل کے ذریعے اسلامی بنکاری اور بلاسود بنکاری کو اتنا فروغ ملا کہ اس کے نظری مباحث، عملی حقیقت کے رُوپ میں ڈھل گئے۔ اسی عرصے میں علمی مطالبات، عملی شکل اختیار کر گئے۔ عدالت کے خیال میں ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۹ء کے دو فیصلوں کے نتیجے میں ٹھوس علمی بنیادوں پر وہ بہترین لٹریچر تیار ہوا، جس کی ستائش نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک میں بھی کی گئی۔ نتیجہ یہ کہ بعض سوالات کی نوعیت بدل کر رہ گئی۔ مثلاً یہ سوال کہ ’کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری عملاً ممکنات میں سے ہے یا نہیں؟‘ یوں غیرمتعلق ہوچکا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے جواب کے مطابق اسلامی بنکاری عملی طور پر معرض وجود میں آکر علما کی نگرانی میں بحسن وخوبی کام کر رہی ہے۔ عدالت کے خیال میں اس ۲۰ سالہ عرصے میں متعدد حل طلب امور، غیر متعلق ہو چکے ہیں ( پیرا -۹)۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسٹیٹ بنک نے اپنے جواب میں اوّل تو ان متعدد اہل علم کی آراء کے بنیادی مآخذ نہیں بتائے، جن پر بنک کے جواب کا انحصار تھا، بلکہ اس نے دوسرے درجے کے مآخذ کا سہارا لے کر جواب دیا( پیرا -۱۲)۔ بنک نے جو نظری نقطۂ نظر اختیار کیا، اپنے عملی اقدامات کا ذکر کرتے وقت وہ اس سے الگ نقطۂ نظر اپناتا نظر آیا۔ اسٹیٹ بنک، اسلامی بنکاری کے ان مختلف طریقوں کا ذکر کرتا ہے جو ملک میں رائج ہیں۔ لیکن نظری گفتگو کرتے وقت بنک نے جن ثانوی حوالہ جات کا سہارا لیا ، وہ یا تو کسی اسکالر کے مقالے سے لیے گئے تھے یا وہ کسی کتاب میں محض بطور حوالہ ملتے ہیں۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ بنک نے جن فاضل اہل علم کے سہارے اپنے جواب کی بنیاد رکھی، ان میں سے مفتی عبدہٗ اور رشید رضا دونوں مصلحین ہیں، فقیہ نہیں۔ ان دونوں معزز مصلح رہنماؤں نے فقہ اور شریعت کے باریک اور پیچیدہ امور میں اوّل تو کبھی حتمی رائے نہیں دی اور اگر دی تو اس رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ انھیں عہدحاضر کے پیچیدہ فنی امور میں پیش نظر رکھا جائے۔ رہے باقی فاضل اہل علم کے حوالہ جات تو وہ علمی اعتبار سے یونی ورسٹیوں کے طالب علموں کی پڑھائی میں تو کام آتے رہے ہیں، پیچیدہ اور عملی امور میں ان کا لیا جانا محل نظر ہے۔

بلاسود اقتصادی نظام: پانچ سالہ مدت کیوں؟

۳۱۸صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے آخری حصے میں چند حقائق بیان کرتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کے وکیل سے ہمارا سوال تھا کہ روایتی سودی نظام کو مکمل بلاسود اقتصادی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بنک کو کتنا وقت درکار ہے؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ’’گورنر اسٹیٹ بنک، وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد اس سوال کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن متعدد تاریخیں گزرنے کے باوجود اٹارنی جنرل نے نہ صرف اس سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ یہ اصرار کیا کہ اس ضمن میں عدالت کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تب عدالت نے ماہرین معاشیات اور دیگر ماہرین سے یہی استفسار کیا۔ ان ماہرین کی رائے میں تین سے دس سالہ مدت ایسی تھی، جس میں ملک میں مکمل بلاسود اقتصادی نظام قائم ہو سکتا ہے۔

ایک درمیانی رائے سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود صاحب کی تھی، جسے عدالت نے اختیار کر لیا کہ یہ کام پانچ سالہ مدت میں ممکن ہے۔ تاہم، عدالت نے اٹارنی جنرل کی یہ درخواست تسلیم نہیں کی کہ کوئی حتمی تاریخ نہ دی جائے بلکہ قرار دیا کہ حتمی تاریخ مقرر کرنا نفاذِ شریعت کے لیے دستوری تقاضا ہے (پیرا-۱۳۶ )۔

چنانچہ، ان متعدد ماہرین معاشیات اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی آراء پر انحصار کرتے ہوئے عدالت نے اگر پانچ سال کی مدت مقرر کر دی ہے تو بظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن خدشہ موجود ہے کہ اس مدت میں حکومتوں نے اگر فیصلے پر عمل درآمد کی طرف رخ ہی نہ کیا اور اختتام مدت کے آخری ایام میں معذرت خواہانہ اپیل کر دی گئی تو گویا لوڈو کے کھیل کی طرح  ننانوے سے نیچے ایک پر آنا پڑے گا۔لہٰذا، اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار عدالتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔

با اختیار عمل درآمد کمیشن کیوں نہیں؟

جولائی ۲۰۱۷ءمیں ’پانامہ پیپر‘ سے متعلق سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تو اسی فیصلے کے مطابق عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج مقرر ہوئے،جنھوں نے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی مکمل نگرانی کر کے معزول وزیراعظم نواز شریف کو جیل بھیج کر دم لیا۔

 ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب نے متعلقین تعلیم اور ماہرین تعلیم کو سنے بغیر تعلیم سے متعلق ایک فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ اصولِ قانون اور عدالتی روایات سے انحراف کی ایک بدنما مثال تھا۔ لہٰذا، اس پر عمل درآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔ شاطر این جی اوز اور اقلیتی رہنماؤں نے موقعے کا انتظار کیا، تاوقتیکہ ان کے ہم خیال چیف جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ کی باگ ڈور سنبھال لی تو وہ ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ جا پہنچے اور پانچ سال پرانے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے،پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر شعیب سڈل پر مشتمل یک رکنی کمیشن مقرر کرایا، جنھوں نے وہ نامعقول سفارشات پیش کیں کہ جن سے مسلمانوں کے سینے تو چھلنی ہوئے ہی تھے، خود غیرمسلم بھی مسلمانوں کی تائید و حمایت کے لیے آن کھڑے ہوئے۔(اس بحث کے لیے دیکھیے راقم کے دو مضامین عالمی ترجمان القرآن ،مئی، جون ۲۰۲۱ء)

یہاں پر مذکورہ حوالے کو دُہرانے کا مقصد یہ ہے کہ عدالتیں اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لیے ماضی میں کمیشن مقرر کرتی رہی ہیں۔ لہٰذا، اس موقعے پر وفاقی شرعی عدالت سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے اس انتہائی اہم فیصلے پر عمل درآمد کرانے اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کے لیے ایسا ہی ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے گی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔یہ کام اب بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، وفاقی شرعی عدالت سے اب یہ درخواست اور توقع ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے مناسب افراد پر مشتمل ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے۔

دوسری اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ کہ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’حکومتی ایوانوں سے عدالت کو کبھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ عدالت نے ملکی معیشت کو شرعی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کو متعدد مواقع دیئے کہ وہ بتائیں کہ یہ کام کتنے عرصے میں ممکن ہے؟ اس کا جواب تو دینا رہا ایک طرف، اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ عدالت اس کام کے لیے کوئی حتمی تاریخ بھی نہ دے‘‘۔حکومتی سطح پر اس رویے کی بنیاد پر انتظامیہ کی جانب سے کسی اچھی اُمید کا باندھنا بظاہر ممکن نہیں نظر آتا، اسی لیے تنفیذ کے لیے عدالتی نگرانی ضروری ہے۔

 اب ذرا حرمت سود پر عدالتی فیصلوں پر مختلف حکومتوں کے رویوں کا جائزہ ایک بار پھر لیجیے:

۱۹۹۱ء میں عدالت نے حرمت سود پر ایک بھرپور فیصلہ دیا تو حکومت اپیل میں چلی گئی۔ ۱۹۹۹ء میں شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تو ایک دوسری طرح کی حکومت نے بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔ اس نئی فوجی حکومت نے فیصلہ سنانے والا بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ قائم کر دیا۔ فوجی حکومت کے اس پسندیدہ نئے بینچ کو انحراف پر مبنی فیصلہ دینے کی جسارت تو نہیں ہوسکی، لیکن اس نے ۲۰۰۲ء میں مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو اَز سرنو غور کے لیے بھیج دیا۔ پھر اگلے ۲۰برسوں میں چار سیاسی جماعتوں کے ۹ وزرائے اعظم آئے، لیکن معلوم ہوا کہ کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں اور سابقہ عدالتی نظائر کے پیش نظر وفاقی شرعی عدالت سے یہ توقع رکھنا فطری تقاضا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے، جس کی سفارشات پر حکومتیں عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں۔ یہ کمیشن، عدالت کی صوابدید پر اپنی سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ رپورٹ وفاقی شرعی عدالت کو پیش کرکے مزید رہنمائی لینے کا پابند ہونا چاہیے۔

اپیل پر کمیشن کا مستقبل

کہا جا سکتا ہے کہ ’’موجودہ زیر نظر فیصلے کا کوئی متاثرہ فریق شریعت اپیلٹ  بینچ میں اپیل کر گزرا تو عمل درآمد کمیشن کا کام موقوف ہو جائے گا۔

یہ اعتراض بے وزن ہے۔ آئینی طور پر حکومت اور انتظامیہ، ملک سے سود ختم کرنے کی پابند ہے۔ یہ کام بے دلی سے کیا جائے تو اس میں وقت زیادہ تو لگ سکتا ہے، لیکن ریاست و حکومت کے کندھے سے بوجھ نہیں ہٹ سکتا۔ مذکورہ اپیل کی صورت میں عمل درآمد کمیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بشرطیکہ عدالت اس کمیشن کے مقاصد کو فیصلے سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ اسے آئینی ذمہ داری کی چھتری تلے لے آئے۔ یوں اپیل کی صورت میں کمیشن کے کام کا صرف وہ معمولی سا حصہ متاثر ہوگا جو فیصلے سے متعلق ہوگا۔ عدالت نے اس بااختیار عمل درآمد کمیشن کو اگر باریک بینی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ آئینی وظائف بھی سونپ دیئے، تو اپیل پر فیصلہ آنے تک یہ کمیشن بڑا مفید علمی اور عملی کام نمٹا چکا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپیل کی سماعتوں کے دوران میں دیگر کے ساتھ کمیشن کی آراء بھی بڑی سودمند اور وقعت کی حامل ہوں گی، جو شریعت اپیلٹ  بینچ کو فیصلہ کرنے میں خوب سہولت فراہم کریں گی۔امید ہے کہ معزز عدالت ان معروضات پر غور کرے گی۔

فیصلے کا بہت اہـم ، مگر مبہم حصہ

فیصلے کے آخری حصے میں عدالت نے اپنی گذشتہ بحث کے نتائج نکال کر احکام جاری کیے ہیں۔ حکومت کو مہلت عمل دیتے ہوئے پیراگراف ۱۳۳ میں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل ۲۰۳-ڈی کا سہارا لیا جس میں عدالت کو وہ تاریخ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے، جس تک وہ حکومت کو یہ مہلت دیتی ہے کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ اس کے بعد قانون کے بجائے عدالتی حکم مؤثر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی دستور حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف شریعت اپیلٹ  بینچ میں اپیل کرے۔ اپنے اس فیصلے میں عدالت نے پندرہ قوانین یا بعض حصوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے یہ قوانین یا ان کے حصے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ اگلے ہی جملے میں عدالت نے حکومتوں کو ان قوانین کو ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء تک تعلیمات اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ حکومت یہ قانون سازی مؤثر بہ ماضی (Retrospectively) بھی کر سکتی ہے۔

جہاں تک قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی عدالت کی مدتِ مہلت کا تعلق ہے، تو یہ مدت حکومت کو حاصل دستوری مدت اپیل (چھ ماہ) سے قدرے زائد، یعنی آٹھ ماہ تک پھیلادی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف حکومت چھ ماہ کے اندر اپیل کرتی ہے تو فیصلہ غیرمؤثر ہو جائے گا۔ اب فرض کریں کہ حکومت چھ ماہ کے آخری ہفتے میں جاکر کہیں اپیل کرتی ہے تو اپیل کے ساتھ ہی فیصلہ امتناع کی نذر ہو جائے گا اور ماضی میں ایسے ہوتارہا ہے۔ لیکن اس بار زیرنظر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ۳۳ دن بعد پندرہ اہم اور معیشت کے لیے رگ جان جیسے قوانین غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ گویا ان پندرہ قوانین کی درجنوں شقیں فیصلے کے صرف ۳۳ دن بعد غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ حکومت کو ملی ہوئی چھ ماہ کی دستوری مدت اپیل کہاں گئی؟

گویا حکومت کے خیال میں اگر فیصلہ لائق اپیل ہے تو اسے ہر قیمت پر صرف ۳۳دن کے اندر اپیل کرنا ہوگی جو بجائے خود چھ ماہ کی دستوری رعایت کے برعکس ہے۔عدالت نے ان دوتاریخوں میں تطابق پیدا کرنے کی خاطر بالوضاحت کہا ہے کہ ’’حکومت مؤثر بہ ماضی قانون سازی کر سکتی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر حکومت نے آخری دنوں، یعنی دسمبر ۲۰۲۲ء میں غیر مؤثر قوانین کی جگہ   نئی قانون سازی کی تو وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے مؤثر ہو سکتی ہے۔ واپس آئیے! حکومت واقعتاً چھ ماہ تک نہ اپیل کرتی ہے اور نہ یکم جون ۲۰۲۲ء تک ان قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرتی ہے تو ۳۳ دن بعد یکم جون ۲۰۲۲ء سے ملک بھر میں جو ممکنہ مالیاتی افراتفری مچ سکتی ہے اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں اور نہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بارے میں کچھ واضح کیا ہے۔

ہم نے اس نکتے پر نہایت منجھے ہوئے قانون دانوں اور فیصلے سے براہ راست متعلق چند ماہرین معیشت اور ماہرین مالیات سے طویل تبادلہ خیال کیا، لیکن سب نے فیصلے کے اس حصے کی کوئی شافی وضاحت دینے سے معذوری ظاہر کی۔ یہ دو تاریخیں، یعنی یکم جون ۲۰۲۲ء اور ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء  ملک کے ۱۵ قوانین یا ان کے حصوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان پندرہ قوانین میں سے ہر قانون یا اس کے حصے پر الگ الگ گفتگو کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا ہے، لیکن شاید اسی لیے یہ اضافہ بھی کر دیا کہ ’’حکومت عدالت سے مزید رہنمائی حاصل کرے گی‘‘۔اس مبہم صورت حال میں مذکورہ بالا ۱۵ممکنہ طور پر کالعدم قوانین یا ان کے حصوں پر الگ الگ رائے زنی کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے، تا وقتیکہ یکم جون ۲۰۲۲ء گزر جائے اور فیصلے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں یا وفاقی شرعی عدالت از خود یا حکومت کی درخواست پر ان دو تاریخوں میں کوئی تطابق پیدا کردے۔

ایک وضاحت

وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ مفصل نقد و جرح کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرحال، اس مختصر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ فیصلے کو بنظر استحسان دیکھتے ہوئے اس کے اہم، توجہ طلب اور تشریح طلب نکات پر پہلے نظر ڈالی جائے۔ یہاں پر قارئین کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا سود مند اور مفید ہوگا:

۱- عدالتیں ہمیشہ آئین، قانون، واقعات اور شواہد پر انحصار کرتے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ اس عمل میں طویل مدت لگے تو عدالت اس کی کسی حد تک ذمہ دار تو ہوسکتی ہے، مگر بڑی حد تک نہیں۔ حرمت سود کے خواہش مند حلقوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۱ء میں اور ۲۰۲۲ء میں ایک ہی فیصلہ دیا۔ حالانکہ ۳۱ سال کے وقفے میں عدالت کے جج تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو علیٰ حالہ برقرار رکھا۔ گمان غالب ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے اپنے وضع کردہ شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بدلنے کے بجائے ان کی توقعات کے برعکس اسے وفاقی شرعی عدالت کو واپس تو بھیج دیا، لیکن فیصلہ بدلنے کی ہمت اس بینچ میں بھی نہیں تھی۔ لہٰذا اللہ سے دعا کی جانی چاہیے کہ اس مستحسن فیصلے سے آیندہ خیر ہی نکلے۔

۲- عدالتی عمل میں حکومتوں کا رویہ دیکھا جائے تو ان سب میں سیاسی عدم یکسانیت اور بُعد المشرقین ہوتے ہوئے بھی آپ کو یکسانیت اور ہم آہنگی نظر آئے گی۔ ۱۹۹۱ء میں عدالتی فیصلے پر مسلم لیگ کی نواز شریف حکومت نے اپیل کی۔ ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے شریعت اپیلٹ  بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور اسی نے اپنی پسند کا نیا شریعت اپیلٹ بینچ بنادیا۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۲۲ء تک متعدد سیاسی حکومتوں کے متعدد اٹارنی جنرل آئے۔ عدالت سب سے مسلسل کہتی رہی کہ حکومت اسلامی نظام اقتصاد کی کوئی حتمی تاریخ دے۔ سب نے نہ صرف حتمی تاریخ نہ دے کر، مل جل کر دو عشرے ضائع کیے بلکہ سبھی اٹارنی جنرل مصر رہے کہ عدالت بھی کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر عہد کے کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا یا تو کوئی تصور ہی نہیں یا یہ تصور نہایت دھندلا سا ہے۔