April 25th, 2024 (1445شوال16)

پاکستان کا نظریاتی وجود اور عملی تقاضے

 

پروفیسر خورشید احمد

بیسویں صدی کی عالمی تاریخ میں پاکستان کا قیام، ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ایک نیا ملک دُنیا کے جغرافیائی نقشے پرنمودار ہوا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ نیا ملک نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور اس کا وجود مغرب کی قوم پرستانہ فکر کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس ملک نے نظریاتی سیاست کا علَم بلند کیا تھا اور تنگ نظر قوم پرستی (Narrow Nationalism)کی ستم زدہ دُنیا کے سامنے ایک نئی راہ پیش کی تھی۔

تحریک ِ پاکستان کی اصل بنیاد یہ تھی کہ:

چونکہ مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے ایک قوم اور ایک ملّت ہیں۔

اور ___

چونکہ مسلمان اپنی آئیڈیالوجی ، اپنی تہذیب، اپنی معاشرت اور اپنا نظامِ قانون رکھتے ہیں، جسے وہ اجتماعی زندگی میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اس لیے جن علاقوں میں ان کی اکثریت ہے، ان پر مشتمل ایک ریاست قائم کی جائے، تاکہ وہ اپنی جداگانہ قومیت کی بنیاد پراپنی تہذیب اور اپنی آئیڈیالوجی کو قائم کرسکیں۔

یہ وہ انقلابی اعلان تھا، جس نے ایک طرف مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور دوسری طرف دُنیا کے تمام باطل تصورات کو چیلنج کیا۔ مسلمانوں نے بہت بڑی قربانی دے کرسات سال تک اَن تھک جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں ان کی اپنی الگ ریاست اُبھری۔مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ عام مسلمانوں کو اسلام کے علاوہ کسی اور مقصد نے کبھی اپیل ہی نہیں کیا۔ ظالم بادشاہ بہت سے ہوئے، اسلام سے انحراف کرنے والے بھی بیسیوں گزرے، لیکن اُمت نے کبھی انھیں اپنی آنکھوں کا تارا نہ بنایا۔ کبھی ان کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ ان میں سے بہتوں کے طرزِ حکمرانی کی بنا پر اکثر لعنت ہی بھیجی۔ اس اُمت نے بہت مظالم برداشت کیے، بڑی مشقتیں جھیلیں، بے پناہ مصائب کوانگیز کیا، مگر اسلام کے علاوہ کسی اورمقصد کی خاطر دل و جان سے قربانی کے لیے کبھی تیار نہ ہوئی۔

ہمیشہ اس کے ہیرو،امام ابوحنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالک بن انسؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، مجدد الف ثانی ؒاور سیّد احمد شہیدؒ وغیرہم ہی رہے۔ کسی حسن بن صباح اور اکبر کو اس اُمت نے اپناہیرو اور آئیڈیل نہیں بنایا، اور اسلام کے علاوہ کوئی اور نصب العین اس کی وفاداریوں کا مرکز نہ بن سکا۔  یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا اپنے اورپرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں، حتیٰ کہ بیسویں صدی کے ممتاز مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ (۱۹۱۶ء-۲۰۰۰ء) نے اپنی تصنیف Islam in Modern History [دورِجدید میں اسلام : ۱۹۵۷ء] میں لکھا ہے: ’’ماضی میں صرف اسلام ہی ان لوگوں (یعنی مسلمانوں) کا اجتماعی ضابطہ، اصل محرک اور کارفرما قوت رہا ہے۔ اور یہ کہ مسلمانوں کے کسی گروہ نے بھی اپنے میں ایسے قومی اور وطنی جذبات پیدا نہیں کیے،جس کی وفاداری اور تعلق کا مرکز اسلام سے ہٹ کر کوئی اور شے یا مسلم ملّت کے دائرے سے باہر کی کوئی چیز ہو‘‘۔

بلاشبہہ یہ مسلمانوں کی قابلِ فخر قومی اور ملّی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریۂ پاکستان نے مسلمانوں کو اسی بنیاد پر اپیل کیا تھا کہ یہ ان کی روح کی آواز، ان کے ایمان کی پکار، اور ان کی ملّی تمنائوں کا آئینہ دار تھا۔ اور پاکستان کے مستقبل کی تعمیر میں بھی مسلمانوں کا حقیقی تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ دیکھیں کہ یہ اسلامی نظریے کے لیے وقف ہے۔ کوئی اور محرک ایسا نہیں ہوسکتا، جو ملّت اسلامیہ پاکستان کو کسی عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لیے تیارکرسکے۔ یہ صلاحیت اسلام اور صرف اسلام میں ہے۔

اسلامی نظریے کی ضرورت و اہمیت

اسلامی نظریے کی بنیاد پر سیاست اور ریاست کے معاملات چلانے، اور تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کی ضرورت محض اس لیے ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں اس کے بغیر جذبۂ عمل و قربانی پیدا نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں تربیت کی ہے۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں سے دین ودُنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے باطل نظریات کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا ہے، اور ان کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین کو زندگی کے ہرشعبے پر غالب کریں۔

اس پس منظر کی وجہ سے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک معاملے میں دین کا تقاضا کچھ اور ہے اورمروجہ نظام کا اندازِکار کچھ اور، تو وہ اس تناقض (contradiction)کو نظرانداز نہیں کرسکتے___ ایک عیسائی کے لیے غالباً یہ ممکن ہے کہ وہ اس تناقض کو برداشت کرلے۔ ایک ہندو کے لیے شاید آسان ہو کہ وہ اس سے صرفِ نظر کرلے کہ ان کے مذاہب نے اجتماعی زندگی میں دین کو قائم کرنے کی کوئی روایت پیش نہیں کی ہے۔ لیکن اسلام کی روایت ان مذاہب سے بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس تناقض کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں فرمایا ہے:

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴ (المائدہ ۵:۴۴) اور جو خدا کے نازل کردہ قانونِ حیات کے مطابق اپنےفیصلے نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ میں جتنی اجتماعی بے اطمینانی پیدا ہوئی ہے، اور انقلابی تحریکات اُٹھی ہیں، ان سب کا جذبۂ محرکہ اسی تناقض اور تضاد کو دُور کرنا تھا۔

اگر اس نظریے کو نظرانداز کیا گیا، تو اس سے ایک طرف ملّت میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگی، دوسری طرف مروجہ نظام سے مایوسی___ اور یہ دونوں چیزیں ایک قوم کے لیے بہت مہلک ہیں۔ اپنی قومی صحت کی درستی اور اجتماعی زندگی کے سکون کو قائم رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ   ہم جلدا ز جلد اسلامی نظریے کی بنیاد پر اپنی ریاست کو تعمیر کریں تاکہ قوم کی تمام قوتیں، تعمیرنو کے لیے استعمال ہوں اورکوئی اندرونی کش مکش رُونما نہ ہو۔

پھر خود ملک جن مشکلات اور جن معاشی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے، ان کا حل بھی صرف اسلامی نظریے میں مضمر ہے۔ مغرب کی ہوش ربا ٹکنالوجیکل ترقی اور بے پناہ مادی تجربات کی سلسلہ وار روایت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ محض مادی ترقی سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

اسی طرح تیل پیدا کرنے اور اس بے اندازہ دولت کو گاڑیوں، عمارتوں کی تعمیر، بنکوں میں تجوریاں بھرنے یا لہوولعب میں اُڑانے والے بعض مسلم ممالک کے تجربات نے بھی یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ مسلمان دین کے مقتضیات کو چھوڑ کر محض مادی ترقی بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے مصائب کا حل اسلامی نظامِ حیات میں ہے، جو: ایک طرف فرد میں تقویٰ، ایمان اور خدا کا خوف پیداکرتا ہے، اور دوسری طرف معاشرے کو صحت مند بنیادوں پر قائم کرتا ہے۔ تیسری جانب سیاست کو اخلاق کے تابع کرتا ہے۔ چوتھی طرف معیشت کو عادلانہ معاشی انصاف کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور پانچویں جانب قومی پالیسی کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول پر استوارکرتا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد

ہمیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں صرف مادی اسباب و وسائل ہی کارفرما نہیں ہیں۔ یہ دُنیا اخلاقی قوانین کے بھی تابع ہے۔ انسان نے بارہا مادی ترقی کی بلندیوں کو حاصل کیا ہے،لیکن اخلاقی ضوابط سے بغاوت کی وجہ سے وہ اپنی مادی ترقی کو قائم نہ رکھ سکا۔

سلطنت روما اور سلطنت ِ فارس کے پاس کس چیز کی کمی تھی، لیکن وہ تباہی سے بچ نہ سکیں۔ تمام تہذیبیں جو آج تک اُبھری اور تباہ ہوئی ہیں، اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ مادی قوانین کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ اخلاقی قوانین بھی کارفرما ہیں اور ان کونظرانداز کرکے کوئی قوم حقیقی ترقی حاصل نہیں کرسکتی۔ اسلامی نظریہ، ترقی کے مادی اور معاشی قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقی قوانین کی ترقی کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ایک متوازن اور مبنی بر عدل تہذیب کے فروغ کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ دوسرے تمام نظام ہائے زندگی اس تعلق کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اسی لیے ناکام ہیں۔ مادی اور اخلاقی زندگی کے گہرے تعلق کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

  • کسی قوم میں جب بدکاری پھیل کر عام ہوجائے اور وہ اسے کھلم کھلا کرنے لگے تو ایسی قوم طاعون اوردوسری بیماریوں کی مصیبت میں گرفتار ہوگی اور ایسے دُکھ درد سے دوچار ہوگی جس سے اس کے اسلاف ناآشنا تھے۔
  • اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرے گی تووہ قحط سالی اور حکمرانوں کے ظلم و جور کا شکار ہوگی۔
  • اور جب کوئی قوم زکوٰۃ دینا بند کردے گی تو اس پر بارش (خدا کی چھت) بند ہوجائے گی اور اگر ہوگی بھی تو(انسانوں کی وجہ سے نہیں) بلکہ دوسرے حیوانوں کی وجہ سے۔
  • جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوپیمان توڑ دےگی، تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردے گا، جو ان کے قبضے کی بعض چیزیں چھین لے گا۔
  • اور جب ان کے ائمہ اور قائدین کتاب اللہ پر فیصلے کرنا ترک کردیں گے اور اپنی مرضی  کے احکام اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے پیدا فرما دے گا۔[ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات،حدیث: ۴۰۱۷]

اس طرح پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق؄ نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں فرمایا تھا:

  • اے لوگو! جس قوم نے بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چھوڑ دیا، اللہ نے اسے ذلیل کیا اور جس قوم میں بھی بدکاری پھیل جائے، تو اللہ اس میں مصیبت کو بھی پھیلادیتا ہے۔ [سیرت ابن ہشام، ج۴،ص ۳۱۲، دارالکتاب، العربی، بیروت]

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی نظریے کا قیام خود ہماری مادی اور قومی زندگی کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور نہ اپنی تعمیرنو کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرسکتے ہیں۔

آج دُنیا میں جو کش مکش برپاہے، اس سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اب مقابلہ محض چند افراد، کچھ قوموں اور بعض ملکوں میں نہیںبلکہ دراصل مقابلہ ’الٰہی ہدایت‘ سے رہنمائی و طاعت اور ہدایتِ الٰہی سے بغاوت و طاغوت کی پیروی کے درمیان ہے۔ مغرب کے پاس کوئی مثبت آئیڈیالوجی نہیں ہے، اور وہ جمہوریت، سیکولرزم، لبرلزم، آزادیٔ حقوقِ انسانی اور تحفظ فرد کے نعروں سے اپنا کام نکالنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ ہمارے عہد میں مسلط عالمی سامراج، مادہ پرست تہذیب کی پیداوار ہے اور ہم مغرب کی نقالی کرکے فائدے میں نہیں خسارے میں ہیں۔ ہمارے پاس اسلام کی صورت میں ایسا عادلانہ نظریہ ہے، جس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہم خود سیکولر فسطائیت کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی ایک نئی راہ دکھا سکتے ہیں لیکن افسوس  ؎

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

مسلمانوں پر مسلط کردہ موجودہ سیاسی و تہذیبی جنگ اور جدید مالی کش مکش پر نگاہ رکھنے والے افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم اگردُنیا کی سیاست میں کوئی تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں تو وہ نقالی کرکے نہیں کرسکتے بلکہ اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جب ہم اسلام کے عادلانہ نظریے کو بالفعل  قائم کریں اور اسے دوسروں کے لیے مثال بنادیں۔ نقالی کرکے ہم شاگرد بن سکتے ہیں، بہت سے بہت شاگردِ رشید بن سکتے ہیں، لیکن کوئی تخلیقی اور قائدانہ کارنامہ اسی وقت انجام دے سکتے ہیں کہ جب تک ہم خود ایک عالمی آئیڈیالوجی کے علَم بردار نہ بنیں۔

خدا سے عہد شکنی کا نتیجہ

پھر سب سے بڑھ کر دُنیاوی اور ملکی مفاد سے ہٹ کر ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے۔

ہم نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے موقعے پر اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ’’اے مالک، تو ہمیں کامیابی عطا کر اور ہم تیری زمین پر تیری نازل کردہ ہدایت قائم کریں گے‘‘۔ کیا اس نظریے کو ترک یا نظرانداز کرنے کے معنی خدا کے غضب کو دعوت دینے کے نہ ہوں گے؟ ہم اپنے آپ کو خدا کی عنایت اور اِکرام کا اسی وقت مستحق بناسکتے ہیں، جب ہم اس مقصد اور اس وعدے پر قائم رہیں، جو ہم نے زمین و آسمان کے مالک و خالق سے کیا تھا۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو توڑ دیتے ہیں تو لازماً ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے بھی محروم کرلیں گے۔ اور اس سے زیادہ بدبخت کون ہوگا جو اپنے کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محروم کرلے!

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ (انفال ۸:۵۳) یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو دی ہے، اس وقت تک بدلنے والا نہیں جب تک وہ خود اپنے کو نہ بدل لے [یعنی اپنے اعتقاد اور اپنے مقاصد سے منحرف نہ ہوجائے]۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ:

یَا مَعشَرَ  قُرَیْشٍ  ، فَاِنَّکُمْ  اَھْلُ  ھٰذَا  الأَمْرِ، مَا لَمْ  تَعْصُوا اللہَ   فَاِذَا عَصَیْتُمُوْہُ  بَعَثَ  عَلَیْکُمْ  مَن  یَلْحَاکُمْ  ، کَمَا  یُلْحَی  ھٰذَا  القَضِیْبُ  لِقضِیبٍ فِی یَدِہ ثُمَّ  لَحَا قَضیہَ  [مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث:۴۲۳۱] اے اہلِ قریش،تم اس وقت تک لطف و کرم کے مستحق رہو گے، جب تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کروگے اور جب تم گناہ کی زندگی پراُتر آئو گے، تو وہ تم پر ان لوگوں کو بھیجے گا، جو تمھاری کھال ادھیڑ ڈالیںگے جیسے اس شاخ کی چھال چھیل دی جاتی ہے۔ آپؐ کے دست مبارک میں ایک شاخ تھی، جسے آپؐ نے چھیل کربتایا۔

اور قرآنِ پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہِ راست ہم ہی سے خطاب ہے:

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ  اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۲۶ (انفال ۸:۲۶) اور وہ وقت یاد کرو جب تمھاری تعداد بہت تھوڑی تھی اور تم زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے۔ تم اس وقت ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو اُچک نہ لیں۔ پھر اللہ نے تمھیں ٹھکانادیا، اپنی مددگاری سے قوت بخشی، اور اچھی چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کردیا تاکہ تم شکرگزاربنو۔

شکرگزاری کا راستہ، اللہ کے دین کو اختیار کرنے اوراسلامی نظریے کو قائم کرنے میں ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو سخت ناشکرے ہوں گے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیں گے۔ اس لیے ہمارے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ ہم اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب و معاشرت اور اسلامی معاشی نظامِ عدل کو خلوص اور ایمان داری کے ساتھ اختیار کریں اوراس کے دیے ہوئے پروگرام پرعمل کریں۔

دو غلط نقطہ ہائے نظر

اسلامی نظریے کی تنفیذ کے سلسلے میں دو نقطہ ہائے نظر کے جائزے کی ضرورت ہے:

ایک نظریہ تو یہ ہے کہ ’’اصل چیز پروگرام ہے، نام نہیں، اس لیے اسلام کا نام لیے بغیر ہی اس کے اصلاحی پروگرام پر عمل کرناچاہیے‘‘۔

دوسرا نقطۂ نظر متجددین کاہے جو اسلام کا نام تو برقراررکھتے ہیں، لیکن ’تعبیرات‘ کے ایک نہ ختم ہونےوالے سلسلے سے ان اسلامی اصطلاحات کے معنی بدل دیتے ہیں، اوراسلام کے نام کی پرانی بوتلوں میں جدید مغربی فکروتمدن کا زہر بھر دیتے ہیں۔

ہم ان دونوں نقطۂ ہائے نظر کو غلط سمجھتے ہیں اور نظریۂ پاکستان کے منافی قرار دیتے ہیں۔

اسلام کا نام لینے سےگریز

  • اوّل الذکر کے سلسلے میں پہلاسوال تو یہ ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ’اسلام کا نام نہ لیا جائے؟‘ درحقیقت اس کا اصل محرک واقعاتی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔ یہ ایک قسم کے چھپے ہوئے احساسِ کمتری کی پیداوارہے اور ہرگز ہمت افزائی کے لائق نہیں ہے۔ جو لوگ اسلام پر فخر محسوس کرنے کے بجائے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وہی بالعموم اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسلام کے نام کو جان بوجھ کر استعمال نہ کریں اور پھر جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں وہ اس کے پروگرام پر کیا عمل کریں گے؟
  • دوسری چیز یہ ہے کہ نام کی خود اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ وہ ایک زائد از ضرورت شے نہیں ہے۔ دراصل نام کے ذریعےکسی چیز کی حقیقت، اس کے اصل آئیڈیل اور منزل کو متعین کیا جاتا ہے۔ پھر نام کے ذریعے اس اصل مقصود کی مسلسل تذکیر بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح اصل مقصد کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ایک مسلمان بچے کو سب سے پہلے مسلمانوں کاسا نام اسی لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو جان لے، اور اس میں بھی اچھے سے اچھا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اس نام سے جو شخصیات اور جوتصورات وابستہ ہیں، وہ ان کو اپنا آئیڈیل اور مقصود بنالے۔
    نام اصل شے سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ اس کی حقیقت کا اظہار ہے اور یہی تصور قرآن کریم سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ تخلیق انسان کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ آدمؑ کو  اشیا کے نام بتائے گئے (عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا) یعنی ان کی حقیقت سے آدمؑ کو مطلع کیا گیا۔ نام کا اصل شے سے ہٹ کر کوئی وجود نہیں اور اصل شے کا نام کے بغیر کوئی اثر نہیں!
  • تیسرے یہ کہ اسلام میں نام کی بڑی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اسلام اپنے پورے پروگرام کو کفر کے پروگرام سے ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے جداگانہ تشخص اور مزاج کا اظہار منجملہ اور چیزوں کے، جداگانہ نام سے بھی ہوتا ہے۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کواس سے منع فرمایا ہے کہ وہ کفّار کے ساتھ ظاہری مشابہت بھی پیدا کریں: مَنْ تَشَبَّہَ  بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ اس حکم میں نام کا مسئلہ بھی آتا ہے اور اس کی روشنی میں ہمیں اپناعلیحدہ تشخص ضرور ظاہرکرنا چاہیے، تاکہ ہمارے طریقے اور اہلِ کفر کے طریقے کا فرق نمایاں ہوسکے۔
  • پھر مسلمانوں کو ترغیب دینے ان میں عمل اور قربانی کے جذبات بیدار کرنے، ان میں تحریک و حرکت رُونما کرنے اور جدوجہدکا ولولہ اور شوق پیدا کرنے کے لیے اسلام کا نام بے حد ضروری ہے۔ ’جہاد‘کے لیے جو جذبہ مسلمانوں میں پیداہوگا وہ کبھی محض جنگ کے لیے نہیں ہوگا بلکہ جہاد کی تمام علمی، قلمی، دعوتی شکلوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا کلچر بھی ہوگا۔زکوٰۃ اور انفاق کے لیے جو جذبہ و شوق رُونما ہوگا، وہ صرف محصول اکٹھا کرنے کے لیے نہیں ہوسکتا۔
  • ’عبادت‘ کے لیے جو ولولہ ہوگا وہ ورزش کے لیے نہیں ہوسکتا۔ ’شہادتِ حق‘ کے لیے جو قربانی وہ دیں گے، وہ پروپیگنڈے کے لیے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے عملی نقطۂ نظر سے بھی نام کی بڑی اہمیت ہے۔
  • نیز ہم اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اپنے کام میں برکت پیدا کرنے اور اللہ کی مدد و استعانت طلب کرنے کے لیے بھی لازم ہے کہ ہم اسلام کا اور اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام لیں۔ اس کے بغیر ہم اُس برکت کے مستحق نہیں ہوسکتے، جس کے بغیر ہماری ساری مساعی بیکار ہیں۔
  • اور پھر جب قرآن کریم ہمیں اصل کام کے ساتھ ساتھ نام کے اظہار کا بھی صاف صاف حکم دیتا ہے تو ہم اس سے رُوگردانی کرنے والے کون ہیں؟ اسلام کی مصلحتوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ تو ہم نہیں جانتے۔ جب وہ خود ہمیں ’مسلم‘ کا نام دیتے ہیں اور اس کے اظہار کا بھی حکم دیتے ہیں تو ہم اس نام کی ’شدھی‘ کرنے والے کون ہیں؟ قرآن کا ارشاد ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ مَیں مسلمان ہوں۔

یہاں صاف ارشاد ربانی ہے کہ ’’اللہ کی طرف بلائے‘‘ اور کہے کہ ’’میں مسلمان ہوں‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے پروگرام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اصل پروگرام کو چھوڑ کر صرف’نام‘ پر انحصار کرنا غلط اور اسلام کے منشا کے خلاف ہے، اسی طرح نام کے بغیر پروگرام کو پیش کرنا بھی اس کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ’نام‘ اور ’پروگرام‘ دونوں کو ساتھ ساتھ ہونا چاہیے اور یہی راہِ صواب ہے۔

اجتہاد کے نام پر مغربی اقدار کا فروغ

جہاں ایک گروہ نام پر معترض ہے وہاں ایک دوسرا گروہ ہے، جو نام کو باقی رکھ کر معنی بدل دینا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ ’’جدید مغربی تہذیب نے جو بھی اقدار (values) دی ہیں اور تہذیب وتمدن کا جو بھی ڈھنگ بنایا ہے، اسے اسلام سے درست ثابت کردے‘‘۔ اسلام کی اصطلاحات کو اور اس کے الفاظ کو تو باقی رکھے، لیکن ’معنوی تحریف‘ (falsification) کے ذریعے  اللہ کے دین کو مغرب کا چربہ بنادے۔ اگر مغرب میں سود جائز ہے تو یہ اسلام میں بھی سود کے لیے جواز نکال لیتے ہیں۔ اگر مغرب میں موسیقی اور مجسمہ سازی، کلچر کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں، تو ہمارے متجددین بھی انھیں اسلامی ثقافت کی عین ’روح‘ ثابت کرتے ہیں۔ اگر مغرب ’حجاب‘ اور ’تعدداَزدواج‘ کو غلط سمجھتا ہے تو یہ ’دانش ور‘ باادب عرض کرتے ہیں کہ ’بھلا ان چیزوں کا اسلام سے کیا تعلق؟ یہ سب مُلّا کی ایجادات ہیں‘۔ اگر مغرب، اسلام پرتشدد کی پھبتی کستا ہے تو یہ جہاد کو یک سر منسوخ کردیتے ہیں۔ اگر مغرب نماز ، روزہ اور قربانی کو لغو سمجھتا ہے تو یہ بزعمِ خود اسلامی نقطۂ نظرسے بھی ان کی ’لغویت‘ بیان فرماتے ہیں۔ اور یہ سارا کارنامہ ’اجتہاد‘ کے نام پر اسلام کی ’تعبیر نو اور تشکیل نو‘ کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگر پہلا فساد ’نام نہ استعمال کرنا‘ تھا، تو یہ فساد ’فتنۂ تعبیر ‘ کے ذریعے ہے۔

ان حضرات نے اس بات کو تو محسوس کرلیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام کے بغیر عمل پر نہیں اُکسایا جاسکتا اور جب تک کسی چیز پر اسلام کا لیبل نہ ہو مسلمان اسے کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ اس کوبھول گئے ہیں کہ اسلام محض ایک خالی خولی نظریہ نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہیں، اسے مسخ کریں اور جو شکل چاہیں اسے دے دیں۔ اسلامی نظریے کو خود خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے میدان میں قائم کیا تھا اور اسلامی تہذیب ومعاشرت کے آثار گذشتہ چودہ سو برسوں سے اس سرزمین پر قائم ہیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کی حیثیت کوئی ایک کتابی شے کی سی نہیں، ایک عملی حقیقت کے طور پر ہے۔ تواتر کے ساتھ اس پرعمل ہورہا ہے اور جن معاملات میں عمل نہیں ہورہا، وہاں بھی اسلامی اقدار موجود اور محفوظ ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات، علمی اورعملی دونوں طریقوں سے پہنچی ہیں۔ اسلام کوئی معما نہیں ہے۔ اسلام تو ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور اسے مسخ کرناآسان کام نہیں ہے۔

یورپ میں عیسائی پادریوں نے یہ کام ضرور کیا تھا کہ جب چاہا، مسیحیت کی من مانی تعبیر کردی ،اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ وہاں خدا کی اصل ہدایت محفوظ تھی، نہ وہ زبان محفوظ تھی کہ جس میں خدا کی ہدایت نازل ہوئی تھی۔ اور نہ کوئی زندہ روایت موجود تھی، جو اس ہدایت کی عملی شکل پیش کرتی ہو۔ لیکن جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے تو ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔

یہاں خدا کی کتاب اور اس کےرسولؐ کی سنت پوری طرح محفوظ ہیں۔ ان میں ’سرِمُو‘ بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قرآن اور سنت کی زبان ایک زندہ زبان ہے، جس کے الفاظ و معانی متعین ہیں اور من مانی تاویلات کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اسلامی لٹریچر کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے، جس میں ہرہردور کا فکری وعملی سرمایہ محفوظ ہے۔ ایک معاشرہ اس نظریے پر قائم ہے اور پورے تسلسل کے ساتھ گذشتہ چودہ سو سالوں سے وہ اس پر عامل ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں’تعبیر کے فتنے‘ کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اپنے تمام جہل، کج روی، کم علمی اورکوتاہ عملی کے باوجود آج بھی مسلمانوں کا بچہ بچہ بتاسکتا ہے کہ نماز اور روزہ فرض ہیں۔ قربانی ضروری ہے، زکوٰۃ لازم ہے، بے حیائی منع اور حجاب و ستر پوشی لازم ہے ،سود حرام ہے، مجسمہ سازی ناجائز ہے، موسیقی ناپسندیدہ ہے۔ اسلام کوئی ’کتابِ گم شدہ‘ نہیں کہ آپ اپنی پٹاری سے جو چاہیں نکال لیں اور اسلام کے نام پر پیش کردیں۔ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے اورہر تحریف کا پردہ پہلے قدم پر ہی چاک ہوجائے گا، اور ان شاء اللہ ہماری سوسائٹی میں ’فتنۂ تعبیر‘ کے کھوٹے سکّے نہ چل سکیں گے۔

پھراپنی تمام کمزوریوں کے باوجود فتنۂ تعبیرو تحریف کو ملّت اسلامیہ کے ضمیر نے کبھی قبول نہیں کیا ۔ آج سے پہلے ’معتزلہ‘ نے یہی کام کیا تھا، لیکن ملت اسلامیہ نے اس گروہ کو اس طرح فراموش کردیا کہ دنیا اس کے نام تک کو بھول گئی۔سرسید احمد خاں مرحوم کی قومی خدمات اپنی جگہ ، لیکن انھوں نے بے جا طور پر دینی اُمور اور افکار میں تحریف یا من مانی تعبیر کی کوشش کی تھی مگر ملّت میں ایک دن کے لیے بھی ان کے مذہبی نظریات جگہ نہ بناسکے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ مسلم سوسائٹی میں بہت سی خرابیاں اور کمزوریاں رہی ہیں، اور آج بھی موجود ہیں، لیکن آج تک اس نے اپنے آئیڈیل کونہیں بدلا اور نہ کسی کو بدلنے دیاہے۔  یہی وجہ ہےکہ فتنۂ تجدد نے بارہاسر اُٹھایا لیکن ہمیشہ ناکام رہا۔ کبھی یہ ’اعتزال‘ کی شکل میں رونما ہوا، کبھی ’باطنیت‘ کے رُوپ میں،کبھی دین اکبر کی صورت میں نمودار ہوا تو کبھی نیچریت کے پیکر میں۔ کبھی پہلوی ازم بنا، کبھی کمال ازم اور انکارِ سنت و انکارِ ختم نبوت کے رُوپ میں۔ لیکن ہمیشہ ایمان، دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت سے ایسے فتنوں کا سر کچل دیا گیا۔ آج بھی ملت کاضمیر ایسی کسی حرکت کو قبول نہیں کرسکتا۔

پروفیسر ولفریڈکینٹ ول اسمتھ نے اس رجحان پر ’فکرمندی‘ کااظہار کرتے ہوئے لکھا:

یہ ایک ہمہ گیر حقیقت ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں اسلام میں لبرلزم کا رجحان بڑی نمایاں حد تک کم ہوگیا ہے بلکہ بعض علاقوں کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بالکل ہی غائب ہوگیا ہے۔

استحکام کے بجائے انتشار کا خدشہ

جو کچھ ہم نے اُوپر عرض کیا اس کےعلاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس نوعیت کی تعبیرات اور تشریحات کبھی مسلمانوں میں جذبۂ عمل اور ذوقِ قربانی پیدا نہیں کرسکتیں۔ اگر آدمی اخلاص کے ساتھ اسلام کاہوجائے تو بڑے سے بڑاکارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ اور اگر اخلاص کے ساتھ بالکل مغرب کا ہوجائے تو بھی کم از کم مغربیت کے اتباع میں تو ممکن ہے کچھ جوش دکھا سکتا ہے، لیکن آدھے تیتر اور آدھے بٹیروالی پالیسی کبھی بھی عملاً کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے نتیجے میں زندگی سے فرار تورُونما ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیبی روایت سے انحراف بھی واقع ہوسکتا ہے، لیکن زندگی کی تعمیروتشکیل کا جذبہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اوراگر ہم خدانخواستہ کسی ایسے فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھر یہ احمقانہ رویہ پوری قوم کوجذبۂ عمل سے محروم کر دے گا۔

اسی طرح ہمارے ہاں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے یا پروان چڑھائے جانے والے متجددین کی ان کوششوں سے قوم میں فکری ژولیدگی پیدا ہورہی ہے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کی اب تک کی روایات کو منہدم کررہے ہیں،جس سے ایک طرف تو ’جدید‘ اور ’قدیم‘ کی کش مکش پیدا ہورہی ہے اور دوسری طرف قوم میں ذہنی انتشار فروغ پارہا ہے اور جس قوم میں ذہنی انتشار ہو، وہ کبھی اچھادفترِ عمل پیش نہیں کرسکتی۔

ماضی سے اندھی بہری بغاوت کا رجحان خود اپنے اندر بڑے مفسدات رکھتا ہے۔ہماری ترقی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اپنے تاریخی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اگر ہم نے وہ سب کچھ دریابرد کرنے کی کوشش کی، جو آج تک مسلمانوں نے حاصل کیا ہے تو ہماری قوتیں ایک اندرونی کش مکش کی نذر ہوجائیں گی اورمجموعی طور پر قوم کوکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ’ تجدد‘ کا فتنہ ملک کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے اور اس کی ہرکوشش نظریۂ پاکستان کی بنیادوں پر ایک ضربِ کاری ہے۔

تعمیرِ ملّت کی اساس

ہماری نگاہ میں مذکورہ بالا دونوں راستے گمراہی کے راستے ہیں۔ سیدھی راہ یہ ہے کہ اسلامی آئیڈیالوجی پر اس کے اصل رنگ میںعمل ہو اور آزادی کے ہرپہلو پر اس کی حکمرانی قائم ہو۔

اس کےلیے ایسا پروگرام بنانا ہوگا، جو ایک طرف فرد کی اصلاح کرے اور اس میں حقیقی ایمان پیدا کرے۔ اللہ کے خوف سے اس کے دل کو معمورکرے اورعمل صالح کی راہ پر اسے گامزن کردے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تشکیل نو کا کام انجام دے۔جب تک ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کام نہ ہوگا، نظریۂ پاکستان کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نہیں کیا جاسکے گا۔یہ کام کسی ایک فرد، ادارے، جماعت یا صرف حکومت کے کرنے کا نہیں ہے۔ یہ سب کا کام ہے اور پوری اُمت کی ذمہ داری ہے:

کُلُکُمْ رَاعٍ  وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ  عَنْ رَعِیَّتِہٖ [صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المرأۃ، راعیۃ فی بیت زوجھا، حدیث:۴۹۰۸] تم میں سے سب کے سب نگران ہیں اور تم میں سے ہرایک سے اپنی اپنی رعیت کے بارےمیں سوال کیا جائے گا۔

یہ ذمہ داری ہرفرد کی ہے ، ہر ادارے اور جماعت کی ہے اور سب سے بڑھ کر حکومت کی ہے کہ وہ زندگی کے ہرشعبے میں اس نظریے کو قائم کرے۔ ہر ایک کو سب سے پہلے، اسے اپنے اُوپر قائم کرنا چاہیے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اسے دوسروں پر اورپورے نظامِ زندگی پر نافذ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے:

اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔

اصلاح اور تعمیرِ نو کی ذمہ داری، پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہرفرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس نظریے کا پرچار کرے اور جس دائرے میں بھی اسے اختیار حاصل ہے، اس میں اسے قائم کرے۔ ہرادارے اور جماعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی علَم بردار بنے اور اپنے دائرۂ اختیار میں اسے نافذکرے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی داعی بنے اور ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، قانونی اور بین الاقوامی پالیسی کو اس کی روشنی میں مرتب کرے، تاکہ یہ نظریہ زندگی کے ہرشعبے میں جلوہ گر ہو اور اس طرح پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہوسکے۔

ملک کو درپیش مسائل

پاکستان کے نظریاتی پہلو پر زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روز مرہ زندگی اور ریاست میں پیدا ہونے والے سماجی و معاشی چیلنجوں کا جواب نہ دیا جائے۔ آج وطن عزیز درج ذیل حوالوں سے دہکتے انگاروں کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ:

       ۱-    پاکستان عمومی طور پر شدید نوعیت کی معاشی مشکلات، تضادات اور تصادمات کی زد میں ہے۔ جس کا بنیادی سبب معاشی بدانتظامی، سودی معیشت پر اصرار اور ناپائدار معاشی پالیسیاں ہیں۔

       ۲-    قومی بجٹ اور ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کے ساتھ سالانہ عہدوپیمان (بجٹ) کے بجائے، عملاً سال کے دوران چار، پانچ بجٹ لانے کی شرانگیزی ہے۔ پہلے ہریکم تاریخ کو تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا اور اب ہرماہ کی یکم اور ۱۵تاریخ کو بھی قیمتوں میں رد و بدل کرکے سارے معاشی منظرنامے کو بدترین صورتِ حال سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر فرد، کارپوریشن اور ادارہ معاشی منصوبہ تیار کرنے کی صلاحیت اور اختیار کھوبیٹھا ہے۔ ایسی معاشی بدانتظامی کا یہ اثر ہے کہ افراطِ زر، مہنگائی اور حد سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کا پہاڑ کھڑا ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے اس ریاستی اداراتی بے راہ روی کے منہ زور گھوڑے کو لگام دینے کے لیے نہ سیاسی پارٹیاں تیار ہیں اور نہ دُور دُور تک اعلیٰ تعلیمی ادارے، دانش وَر اور تجزیہ کار بند باندھنے کے لیے آمادہ کار ہیں۔

       ۳-    اس معاشی اور طبقاتی فساد نے سماجی فاصلے گہرے کر دیے ہیں۔ شہریوں میں جسمانی بیماریاں تو ایک طرف رہیں، ذہنی بیماریوں کا نہ ختم ہونے والا جنگل بڑھتا جارہا ہے۔ ہرسال خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات، طلاق اور خلع کی تعداد میں ناقابلِ تصور اضافے کا رجحان، بات بات پر لوگوں کا توڑ پھوڑ پر آمادہ ہو جانا (جس کی ایک مثال تو وکیلوں کی جانب سے معزز ججوں پر حملے، پولیس اور ڈاکٹروں پر تشدد وغیرہ کی صورت میں بھی سامنے آتی رہتی ہے) اور اس نوعیت کے مریضانہ رویے، جنگل کے معاشرے کی یاد دلاتے ہیں۔

       ۴-    پولیس کے نظام کی بدانتظامی اور عدالتی عمل کے غیرمؤثر ہونے کی کیفیت نے لوگوں کو عدم تحفظ، خوف اور مایوسی سے دوچار کیا ہے۔

       ۵-    زراعت کے پیشے میں سہولیات کی فراہمی کے نظام کی بدنظمی، اور زراعت کے بارے میں ریاستی مشینری کی کم فہمی اور کسانوں کے معاملات کو سمجھنے اور ان کے بالکل جائز مسائل حل کرنے سے لاتعلقی نے زراعت و خوراک جیسی بنیادی صنعت کو شدید دھچکا پہنچایاہے۔

       ۶-    صنعت و حرفت اور درآمد و برآمد تجارت کے معاملات میں غیر متوازن رویوں نے لوگوں کو سرمایہ کاری سے ہٹاکر، بیرونِ ملک جائدادوں کی خریداری کی طرف دھکیل دیا ہے، یا پھر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ دکھائی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بے روزگاری کو فروغ ملا۔ اس صورتِ حال میں جرائم میں اضافہ فطری بات ہے۔

       ۷-    دوسری طرف کثیر قومی کمپنیوں کے لیے سرخ قالین بچھا کر استقبال کرنے کا اور انھیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دینے کا رویہ ظاہر کرتاہے کہ اہلِ حل وعقد (نوکرشاہی اور سیاسی قیادت) کے گٹھ جوڑ کو ملک اور ملک کے شہریوں کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں اور ادویات ساز کمپنیوں کی مثالیں اس معاملے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

       ۸-    اور سب سے زیادہ لرزا دینے والا معاملہ تعلیم کی فروخت سے منسوب کاروبار ہے۔ بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی، لیکن تعلیمی تاجر دونوں ہاتھوں سے، پسے ہوئے غریب شہریوں کو لُوٹ رہے ہیں۔ درس گاہیں علم کی شمع روشن کرنے کے بجائے فیشن پریڈ کے مراکز میں تبدیل ہورہی ہیں۔ روز افزوں اخلاقی بے راہ روی الگ مسئلہ ہے، اور دی جانے والی تعلیم کے معیار کو جانچنے کا سوال اس سے بھی زیادہ الم ناک کیفیت سامنے لاتا ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے نام پر قومی تعلیمی پالیسی میں غیرمنطقی اور متصادم تبدیلیوں کا ڈراما مضحکہ خیز منظر دکھاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی شعبہ زبوں حالی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ سرکاری شعبۂ تعلیم کی اس بدانتظامی نے نجی شعبے کو من مانی کرنے کا کھلا لائسنس عطا کر دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موضوع کو کوئی زیربحث لاتا ہی نہیں۔ نہ پارلیمنٹ، نہ میڈیا، نہ سیاست دان اور نہ اخبارات۔

       ۹-    مختلف آئینی اداروں کا ایک دوسرے کے معاملات اور منصبی ذمہ داریوں میں بے جا مداخلت کرنا بلکہ زور زبردستی کرنا، ایسا بدنُما طرزِ عمل ہے، جس نے ریاستی انتظامی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

       ۱۰-  معاشرے کی تعمیر حددرجہ بنیادی فریضہ ہے۔ عصرحاضر نے معاشرتی تعمیر کا کم و بیش خاصا حصہ ذرائع ابلاغ کے سپرد کردیا ہے، جو دل، دماغ، مشاہدے اور تعلقات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کے بیش تر ذرائع ابلاغ، اس حوالے سے مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ مایوسی، تصادم، مبالغہ، گاہے تاریخی عوامل کی جھوٹی منظرکشی اور اخلاقی قدروں کی پامالی کی بہت سی مثالیں ہمار ےذرائع ابلاغ پیش کر رہے ہیں۔

       ۱۱-  سب سے نازک معاملہ یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر پر قومی یکسوئی کو متاثر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں، جن سے پوری جدوجہد کو شدیدصدمہ پہنچتا ہے۔ پھر    محکمہ خار جہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے قرار واقعی توجہ نہ دینا، مسئلۂ کشمیر کی ماہیت پر شدید منفی اثرڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔

نظریاتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، اُوپر مذکورہ جن گیارہ نکات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، انھیں درست کرنا کسی بین الاقوامی ادارے کی نہیں خود ہمارے اہل حل وعقد کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے بااثر لوگ یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کرنے سے حددرجہ غافل دکھائی دیتے ہیں۔ اگر انھوں نے یوں ہی فرار کی راہ اختیار کیے رکھی تو ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچے گا اور آیندہ نسلیں اُنھیں معاف نہیں کریں گی۔