ارشداحمد بیگ
ناقۃ اللہ کو جانتے ہو؟ وہ اونٹنی جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بطور معجزہ اپنی قدرتِ کاملہ سے زمین سے ظاہر کردیا تھا۔ اللہ کی اونٹنی! ظالموں نے جس کی کوچیں کاٹ ڈالیں تو اللہ کے عذا ب نے انہیں پکڑ لیا۔ استعاروں کو سمجھتے ہو اور تاریخ کو جانتے ہو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان کو اللہ نے کیسے اپنی قدرتِ کاملہ سے دنیا کے افق پر ظاہر کردیا۔ اس کی کوچیں جو کاٹے گا قدرت کا نظام خود ہی اس کی گرفت کے لیے حرکت میں آجائے گا کہ اس ملک کا ظہور ایک معجزے کی مانند ہے۔ ایک ناقابلِ یقین تصور جس نے حقیقت کا روپ دھارا، ایک ایسی ان ہونی تھی جو ہو کر رہی!! تم کہتے ہو کہ لاکھوں لوگ مل کر اسے توڑنے میں لگے ہوئے ہیں، اسے لوٹنے میں مصروفِ عمل ہیں اور تم ٹھیک ہی کہتے ہو مگر ذرا سوچو پھر بھی اس کا کچھ نہیں بگڑتا، آخر کیوں؟ کوئی تو ہے جو اس کا محافظ ہے، سایۂ خدائے ذوالجلال! تم طنز کرتے ہو کہ یہ ملک تو ایک سوئی بھی نہیں بناسکتا۔ چلو تمہارا کہنا مان لیتے ہیں مگر یہ تو بتاؤ کہ جو ممالک سوئی سے لے کر جہاز بنا رہے ہیں کیا انہوں نے ایٹم بم بھی بنایا ہے۔ جو ملک سوئی نہیں بنا سکتا آخر اس نے ایٹم بم کیسے بنا لیا؟ یہ عقل سے زیادہ دل کا سوال ہے۔ عقل کی کسوٹی پر پرکھوگے تو دنگ رہ جاؤ گے اور دل کی دستک سنو گے تو جھوم اٹھو گے۔ کوئی تو ہے جو اپنی مبنی برحکمت عظیم اسکیم کے تحت اسے چلارہا ہے۔ تم نے کبھی سوچا کہ انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی کے وسط تک اللہ نے اس خطّے میں کتنی عظیم الشان شخصیات ایک ساتھ ہی پیدا کردیں تاکہ مملکتِ خداداد کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ تم محمد علی جناح کو جانتے ہو؟ ایک عظیم قائد! کبھی تم نے غور کیا کہ بڑی بڑی شخصیات اس دھان پان سے انسان کی قیادت میں کیسے جمع ہوگئی تھیں۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، نواب بہادر یار جنگ، خلیق الزماں اور مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے نابغۂ روزگار، محمد علی جناح کو اپنا قائد مانتے تھے تو تمہیں قدرت کی اسکیم میں کوئی شک کیوں ہوتا ہے۔ اس کی تشکیل میں روحانی کیفیات کا ظہور ہوا، اس کی بنیادوں میں جذب وجنون ہے، اس کی جدوجہد میں عشق و سرشاری ہے، جس نے خواب دیکھا وہ سرتا پا عشقِ نبی میں ڈوبا ہوا تھا، علامہ محمد اقبال جب قرآن پڑھتے تو آنکھوں سے آنسو رواں رہتے، جب نبی کریمؐ کا نام آتا تو تکریم کا نمونہ بن جاتے، اور جس نے اپنی بے مثال قیادت سے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا وہ ایک سچا پکا مسلمان تھا، کتنی ہی روایات ہیں کہ محمد علی جناح کے خواب میں نبی کریمؐ آئے۔ کیا یہ غیر معمولی بات نہیں ہے؟ کیا قدرت کی اسکیم میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے؟ کیا تم کو معلوم ہے کہ روئے زمین پر مدینۃ النبی کے بعد یہ واحد ملک ہے جو کسی نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے؟ کیا یہ کوئی غیر اہم بات ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی؟ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ کیا تم اس ملک کی تاریخ سے واقف ہو کہ اس کی مٹی میں اسلام کی محبت رچی بسی ہے اور اس کی فضاؤں میں کلمہ توحید کے فلک شگاف نعروں کی گونج ہے، کیا کوئی اس ملک کی اساس کو تبدیل کرسکتا ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ملک ہے جس کے لیے بائیس لاکھ لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہوں، سفرِ ہجرت کی خونچکاں داستان جان لو تو شاید اس نعمت کا ادراک کرسکو، لٹے پٹے مہاجرین کے لیے فرش راہ بچھانے والے انصار بھائیوں کی میزبانی تم کو معلوم ہوجائے تو اس ملک کی قدر کرسکو۔ یہ سب غیر معمولی تھا، وہاں سے آنے والے ان مہاجرین کے لیے یہاں کے مقامی لوگوں کی ایثار کیش داستانیں آخر کیا بتلاتی ہیں، آج بھی وسطی اور جنوبی پنجاب میں مہاجرین کے پورے کے پورے گاؤں موجود ہیں، ذرا سوچو کہ دونوں طرف کی زبانیں جدا، ثقافت الگ، نہ برادری ایک نہ قبیلہ مشترک، کوئی نسلی تعلق بھی نہ تھا اور وطن تو ابھی بنا نہیں تھا، بس ایک نظریہ تھا جس نے انہیں جسدِ واحد بنادیا تھا، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا
نعرہ تھا جس نے انہیں ایک قوم بنادیا تھا اور پھر اسی کلمے کی بنیاد پر تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، تم سمجھتے ہو کہ یہ سب بیکار اور رائیگاں جائے گا۔ ایک طرف خطرناک ذہانت تھی اور دوسری جانب عیاری اور مکاری، انگریز استعمار کے جبڑوں سے اور ہندو سامراج کے پنجوں سے آزادی کو کھینچ لینا کوئی آسان کام تو نہ تھا، غور کرو کہ کیسے قدرت کی اسکیم اس عظیم منصوبے پر کام کررہی تھی، تمہیں معلوم ہے ماؤنٹ بیٹن یہاں آنے سے پہلے کہاں تھا اور اسے یہاں کون لایا تھا، اس ملک کو ایسے ہی تو مملکتِ خداداد نہیں کہا جاتا۔ قائد نے کتنا سچ کہا تھا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندو یہاں مسلمان ہوا تھا۔ کیا اس یقین کو شکست دی جاسکتی ہے؟ کیا قائد کے اس وژن کو کوئی جھٹلا سکتا ہے؟ تم درست کہتے ہو کہ یہاں بد امنی ہے، دہشت گردی ہے، خوف اور بے یقینی ہے مگر سوچو کہ تین دہائیوں سے زخموں سے چُور اور دہشت گردی کا شکار یہ قوم کتنی عظیم اور باہمت ہے جو ارفع کریم جیسے ٹیلنٹ سامنے لاتی ہے، جو ہمالیہ کے ہزاروں فٹ بلند برف پوش پہاڑوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتی ہے، جو انٹارٹیکا میں پاکستانی پرچم لہراتی ہے، جو ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنے پرچم کو سربلند کردیتی ہے، جو کرکٹ کے میدان میں اپنے دیرینہ حریفوں کو شکست دے کر ورلڈ چمپئن بن جاتی ہے، جس نے ہاکی کے کھیل میں ان مٹ نقوش چھوڑے، جس کے بیٹے اسکواش میں ناقابل تسخیر مانے گئے، اسنوکر میں جو فاتح عالم رہی، جس ملک کے میڈیکل ڈاکٹر پوری دنیا میں ماہر مانے جاتے ہیں، جس کے مایہ ناز انجینئروں اور سائنس دانوں نے دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، جہاں کے علما اور فقہاء کے علم و فہم کی عرب وعجم گواہی دیتے ہیں، وہ قوم جس نے کیپٹن شیر خان اور میجر عزیز بھٹی جیسے عظیم سپوت پیدا کیے، جہاں راشد منہاس اور ایم ایم عالم جیسے جانثاروں نے محیرالعقول کارنامے انجام دیے، کیا یہ عظیم قوم نہیں ہے؟ کیا اس قوم کو کوئی شکست دے سکتا ہے؟
چلو تاریخ کے بعد اس کے جغرافیے پر ہی غور کرلو تو معلوم ہوجائے گا کہ اس ملک کی اہمیت کیا اور کتنی ہے، شمال میں پانچ ہزار میل اوپر کی جانب اور دائیں اور بائیں جانب کے ممالک کے اس مثلث میں پاکستان اور اس کے سمندر کا اسٹرٹیجک محل وقوع حیران کن ہے، دنیا اس کی اس پوزیشن کو نظر انداز نہیں کرسکتی، اس کے طول و عرض میں گھوم پھر کر دیکھو تو معلوم ہوجائے گا کتنا بہترین خطۂ زمین قدرت نے ہمیں نوازا ہے، اس میں ایک طرف عظیم گلیشیر ہیں تو دوسری جانب پھیلے ہوئے صحرا ہیں، یہ دریاؤں اور نہروں کی سرزمین ہے، یہ پہاڑوں اور وادیوں کا ملک ہے، یہاں نمک کی کانیں ہیں، کوئلے کے عظیم ذخائر ہیں، لوہے کے پہاڑ ہیں، زمرد کی کانیں ہیں، ریکوڈک کے خزانے ہیں، یہ بے شمار قدرتی معدنیات رکھنے والا ملک ہے، دنیا کی بیس بڑی درآمدات، برآمدات میں دنیا کے بیس بڑے ممالک میں اس ملک کا شمار ہوتا ہے، یہ دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت ہے، یہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے، اس کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، اس کے کمانڈوز دنیا کے بہترین جنگجو مانے جاتے ہیں، یہ دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دینے والی قوم ہے، دنیا میں سب سے زیادہ حفاظ کی تعداد اسی ملک میں بستی ہے اور جب حج اور عمرے کے لیے حرمین شریفین میں حاضری دینے والوں کے ملکوں کا نام آتا ہے تو اس ملک کے باشندوں کا شمار صفِ اوّل کے ممالک میں ہوتا ہے۔
تمہیں دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ یہ ملک آج گیا کہ کل گیا، ہندو دانشور بھی ایسا ہی سوچتے تھے کہ یہ تقسیم کی لکیر بس چند سال کی بات ہے اور پھر اکھنڈ بھارت کی جے ہوگی لیکن اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ سوئے تو نہیں تھے اور پھر اللہ ربّ العالمین نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس ننھے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کردیا۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اس کی قدر کرو۔ یہ قدرت کی عظیم مبنی بر حکمت اسکیم کے تحت وجود میں آیا ہے اس لیے اسکیم میں رخنہ ڈالوگے تو تباہ ہوجاؤگے۔ یہ ناقۃ اللہ کی مانند ہے، اسے نقصان پہنچاؤگے تو کبھی آسودہ نہیں رہ سکو گے۔ اس کی سترّویں سالگرہ خود ہی اس کی عظمت کا اظہار ہے۔ پاکستان پائندہ باد۔