May 2nd, 2024 (1445شوال23)

ایام اللہ اور ان کا پیغام

تحریر: سیّد عبید اللہ

اسلامی سال کے پہلے مہینہ محرم الحرام کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و جدل اور قتل غارت گری عربوں کے دور جاہلیت میں بھی حرام تھی اور اسلام نے بھی ان چار محترم مہینوں کو حقیقی معنوں میں امن و آشتی کے ایام میں بدل دیا ایک مسلمان ہونے کے ناتے ان ایام میں غیر مسلموں تک سے مسلمانوں کو خود سے جنگ کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت ہے اور صرف اسی صورت میں جنگ کی اجازت ہے جب غیر مسلم فریق اور باطل طاقتیں واقعی جنگ  پر آمادہ ہوں چنانچہ مسلمان آپس ہی میں بر سر پیکار ہوں اور  ان ایام کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی  گردنیں مار رہے ہوں اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے؟ ایسے مسلمانوں کو اپنے انجام بد سے ڈرنا چاہئے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں نے محرم الحرام کے تقدس کی پامالی کے لئے کئی دوسرے "شعائر" وضع کرلیے ہیں جن کا سرے سے "دین اسلام" سے کوئی تعلق نہیں۔ یکم تا دس محرم الحرام ہمارے معاشروں میں جو کچھ کیا جاتا ہے وہ ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم من حیثیت المسلم اپنے عقائد و اعمال کو قرآن اور صاحب قرآن کے اسوہ سے ہم آہنگ کریں اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور کج فہمیوں کا جائزہ لیں ایسی مثبت تبدیلی کی صورت میں ہی ہم پر مسلط وہ سختیاں، خارجی مسائل کی صورت میں آنے والے مذاہب، باطل قوتوں کے معاشی و  قومی دباؤ، بیرونی قرضوں کی لعنت اور داخلی سطح پر مسلکی، نسلی، علاقائی تعصّبات اور ان کے نتیجے کےطور پر آپس کی جانی دشمنیاں، بغض و عداوت، قتل و غارت گری سمیت تمام اجتماعی و انفرادی برائیوں سے نجات مل سکتی ہے اور ہمارے ملّی جذبے بحال ہوسکتے ہیں۔

ہماری سوچ و فکر اگر منفی ہی رہی اور ہم نے یکسو اور قرآن کی اصطلاح میں "حنیف" بن کر قرآن اور صاحب قرآن کے اُسوہ کو نہ اپنایا اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی، حرام ذرائع آمدنی ہی میں فلاح ڈھونڈتے رہے، غیر مسلم قوموں خاص طور پر یہود و نصاریٰ سے محبت و انسیت، ان کے طور پر طریقے اپنانے اور ان کے اشارۂ ابرو کو ہی اپنی "معراج" سمجھتے رہے ان کے کہنے پر خود ہی اپنے ہاتھ پاؤں خوشی سے باندھتے رہے، اپنے طور پر طریقے، اسلامی تعلیمات اسلامی معاشرت، اسلامی سیاست اور عزت و ناموس کے اسلامی پیمانوں سے ہماری روگردانی کا یہی حال رہا اور اغیار کے بتائے ہوئے طور طریقے پر ہمارے کاروبار معیشیت و معاشرت گامزن رہی تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ کسی فرد یا کسی قوت کی حالت کو اس تک نہیں بدلتا جب تک کہ اپنی حالت کو بدلنا نہ چاہےایسےایام میں اللہ ہمیں یہ درس فراہم کرتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کی زندگی کی روش اختیار کرتے ہیں یا اس پر ہی گامزن رہنے کی حالت میں تبدیلی لائیں اور اپنی زندگی اسلام کی تعلیمات پر استوار کریں کہ حقیقی کامرانی اور فلاح اسی سے وابستہ ہے، بصورت دیگر ہم انفرادی طور پر نہ صرف باطل کے ذہنی اور جسمانی غلام بنے رہیں گے بلکہ اجتماعی طور پر ہی حقیر و بے وزن رہیں گے جیسا کہ دنیا کے بیشتر خطوں میں مسلمانوں کی حالت زار ہمارے سامنے ہے۔

عالمی سطح پر آج عالم اسلام کو کئی چیلنج درپیش ہیں سب سے نمایاں چیلنج خود ساختہ واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکا کی طرف سے ہے جس نے اسلام کو "دہشت گردی" کے ہم معنی قرار دینے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں اس باطل طاقت کی ہمنوائی یہود وہنوز، نصاریٰ و صابی (سیکولرز) اگر کرتے ہیں تو بات قابل فہم ہے لیکن سب سے بڑا المیہ یہ کہ مسلمان میں سے ہر خطہ زمین میں ایسے افراد کا ایک چھوٹا گروہ علماء سوء سمیت موجود ہے جو اسلام کی  تعلیمات کو ان باطل طاقتوں کی صوابدید پر توڑنا مروڑنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے اور مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے مسلمان طفیلی اور دست نگر ریاستیں بھی ایسے ہی اسلام کی تائید کرتی ہیں جو ان کے نہ سپر پاور اور یہود و ہنود کو پسند ہو یعنی ایسا اسلام جس سے حمیت دینی مفقود ہو۔

اسلام کی تعلیمات پر شعوری حالت میں عملدرآمد کے خواہش مند مسلمانوں کو نہ صرف اسلام کی حقیقی تعلیمات حاصل کرنے پر توجہ کرنی چاہئے بلکہ خود اپنوں اور بیرونی عناصر کی ان تعلیمات کو "آلودہ" کرنے کی کوششوں اور بعض تعلیمات کو من پسند معنی پہنانےکی مساعی نامشکور سے آگاہ چاہئیے بصورت دیگر ان کے بھی اس سیلاب بلا میں بہہ جانے کا امکان ہے۔