ڈاکٹر حمیرا طارق
ئے اسلامی سال کی آمد اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعے سے ہوتی ہے۔ یکم محرم الحرام کو ہی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی اور 10 محرم الحرام کو نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ عظیم رونما ہوا۔
شہادت امام حسین کے حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پانے والے حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھرانے کے چشم و چراغ کو وہ کون سی خرابی ،اس شدت سے محسوس ہو رہی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:
” میری گردن کٹ تو سکتی ہے مگر مجھ سے جبراً بیعت نہیں کروائی جا سکتی۔“
اس جملے سے اسلامی نظام حکومت اس کا تحفظ اس کی فرضیت اور اہمیت بخوبی عیاں ہو رہی ہے۔۔۔ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد اور چاروں خلفائے راشدین کی خلافت کے بعد جب حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید بن معاویہ کی جانشینی کا وقت آیا اور جبراً لوگوں سے بیعت کروائی جانے لگی تو اس پر سیدنا امام حسین کا ظلم کے خلاف جہاد کرنا اس بات کا اعلان تھا کہ ....
•اسلام بادشاہت نہیں خلافت کا نام ہے۔
•زمین اللہ کی ہے،
•ملک اللہ کا ہے،
•حکم اللہ کا ہے،
اور
•خلیفہ وقت اللہ کا نائب ہے ، اور •اس کے لیے جواب دہ ہے۔
اس اہم ترین اصول کی تبدیلی کو سیدنا امام ح±سین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہ دوررس بھانپ چکی تھی کہ اس وقت خلافت کو ختم کرکے ایک انسان کی بادشاہت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔
مختصرا ہم کہہ سکتے ہیں کہ
1خاندانی بادشاہت کا آغاز کیا گیا۔
2 شورائی نظام اور آزادانہ انتخابِ خلیفہ پر پابندی لگا دی گئی۔
3 اسلامی دستور کے اصولوں سے انحراف کیا گیا۔
4 بیت المال بادشاہ کی خاندان کی ملکیت بن گیا۔
5 قانون مساوات اور عدل کی جگہ ظلم اور آمریت کا اغاز ہو گیا۔
ماہ محرم کا آغاز ہمیں یہی پیغام یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اسلامی نظام حکومت کے قیام کی جدو جہد بالکل اسی طرح کرنی ہے، جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی۔ ہمیں ظلم کے نظام کے خلاف اسی طرح متحد ہو کر ڈٹ کر کھڑے ہو جانا ہے۔جیسے حضور نبی اکرم کا خاندان جابر حاکمِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔
ہمیں اس موقع پر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہادت کے اس فلسفے کو بہترین انداز سے سمجھنا چاہیئے اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اسلام اور حکومت کا تعلق کیا ہے اور حالیہ ملکی حالات میں اپنا کردار ادا کرنا کتنا ضروری ہے۔
اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ ہر مسلمان کو کلمہ حق ادا کرنا ہے، وہ مسلمان خواہ ساٹھ ہجری کے ہوں یا 1446 ہجری کے۔
پاکستان میں ظلم اور استحصال کے نظام نے مہنگائی میں جس حد تک اضافہ کر دیا ہے اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے اس نظام کی اصلاح لازم ہے۔ اس وقت اپنا کردار ادا کرنا بھی خیر، بھلائی اور نفع کا کام ہے۔۔۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدوجہد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ غیر جانبداری لاتعلقی، ظلم سہتے رہنا، عدم دلچسپی ،صرف تبصرے کرنے پہ اکتفا کرنا ، اور تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کی عام عادات کو تبدیل ہونا چاہیئے۔
ہمیں چاہیئے کہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنا کردار ادا کریں۔ اور اپنے ارد گرد بھی اس کا شعور پیدا کرنے والے ہوں۔
بشکریہ نوائے وقت