December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

یوم عاشور اور مذہبی رواداری

یوم عاشور کی حیثیت اسلامی تاریخ میں آغاز ہی سے مسلمہ ہے۔ جب رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے تو مسلمان عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ عاشور ہی کے دن حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے بچاکر سمندر میں راستہ بناتے ہوئے فلسطین لیکر آئے تھے۔ لیکن اس سب کے ساتھ عاشور نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کا یوم شہادت بھی ہے۔ وہ حسین کہ جس کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘۔ وہ حسین کہ جو جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں دشت کربلا میں شہید کردیئے گئے۔ اور اب تو یوم عاشور کی پہچان ہی واقعہ کربلا بن گئی ہے۔ محرم کے آغاز ہی سے ملت اسلامیہ شہادت امام حسین پر اپنے اپنے انداز میں رنج و غم کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن بقول مولانا مودودی ” افسوس کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا‘‘۔

وطن عزیز میں یوم عاشور اور اس سے پہلے کے 9 دن اہل وطن کو شہادت حسین کے اصل مقصد سے روشناس کرانے سے زیادہ انہیں مصیب اور اذیت سے دوچار رکھنے کی کوششوں میں صرف ہوتے ہیں۔ کاروبار بند، سڑکیں و شاہرائیں بند، ٹرانسپورٹ بند، موبائل فون بند، ڈبل سواری بند حتیٰ کے موٹر سائیکل سواری بھی بند۔ چند سالوں پہلے تک تو صورتحال بہت بہتر تھی مگر اب تو لگتا ہے جیسے بھونچال سا آیا ہوا ہے اور اکثریت کو اذیت میں مبتلا کرنا شاید اب روایت بنتی جارہی ہے۔ مذہبی آزادی کی اس سے زیادہ بے نظیر مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے کہ جہاں چند لوگوں کے خود ساختہ مذہبی عقائد کی انجام دہی کے لیے اکثریت کے حقوق کو پامال کیا جائے۔

ذرا تصور کیجیے۔ آپ دفتر سے چھٹی کے بعد گھر کی طرف عازم سفر ہوتے ہیں لیکن ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اس سے آگے کا راستہ ماتمی جلوس کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے۔ نتیجتاً آپ کو واپس جانا ہے یا کہیں رک کر کئی گھنٹوں تک راستہ کھلنے کا انتظار۔ اس دوران لوگ جس کوفت و اذیت سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ مشکل ہے۔ سڑکوں کو کنٹینرز رکھ کر بلاک کرنا اور دکانوں اور کاروبار کو کئی دنوں کے لیے بند کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ پورے شہر کو عزہ داری، ذوالجناح اور تعزیے کے جلوسوں کے لیے بند کردینا اور اکثریت کو اذیت میں مبتلا کرنا کیا مذہبی رواداری کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مذہبی آزادیاں بھی پامال نہ ہوں اور عام لوگ مصیبت میں بھی مبتلا نہ ہوں؟

کیا اب وقت نہیں آگیا کہ شہر بھر میں جگہ جگہ سڑکوں اور شاہراؤں کو بند کرنے کے بجائے کسی ایک کم گنجان آباد اور کھلی جگہ کو مختص کردیا جائے جہاں عام شہریوں کو اذیت میں ڈالے بغیر سکیورٹی و دیگر سہولیات کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جاسکے؟

حسینیت تو نام ہے حق و باطل کی کشکش میں اپنی جان قربان کردینے کا، ظلم کے نظام کے خلاف اعلان بغاوت کا، حق کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ لُٹا دینے کا لیکن کیا کیجئے کہ بہت کم لوگ ہی شہادت امام حسین کے اصل مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ شاید انکی نظروں میں حسینت بجز عزاءداری اور ماتمی جلوسوں کے اور کچھ نہیں۔ ساتھ ہی نہ انکی زبانیں قابو میں رہتی ہیں اور نہ فریق مخالف کی شدت پسندی کہ جس کی روک تھام کے لیے پھر موبائل فون سے لیکر موٹرسائیکل سواری تک سب جرم قرار پاتے ہیں۔

آج جبکہ عالم اسلام پر مصیبتوں کے بادل چھائے ہیں۔ افغانستان و عراق طاغوت وقت کے زیر نگیں ہے۔ فلسطین پر صیہونی قبضہ اور اہل فلسطین پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ لبنان و شام پر بدامنی کے بادل چھائے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کی سازشیں عروج پر ہیں لیکن ان سے نمٹنے کی کوئی تدبیر نظر آتی ہے نہ کوئی ایسا رہمنا کہ جو امت کے منتشر اجزاء کو مجتمع و متحد کرسکے۔۔۔

قافلہء حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات