اطہر ہاشمی
اقبال نے کہا تھا کہ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
لیکن بات یہیں تک محدود نہیں۔ رسم شبیری کا بھی چرچا رہ گیا۔ ہر سال یاد تازہ کر لی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے نواسے نے کربلا میں اپنے شیر خوار اور شیر جوان بچوں سمیت پورے خاندان کو کٹوا دیا۔ خود بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ہر سال ذاکرین علماء اور ادیب و دانشور کربلا میں پیش آنے والے واقعات کی ایک ایک تفصیل بیان کرتے ہیں۔ کب کس وقت کیا ہوا کس نے کیا کیا اور کیا کہا۔علی ؓ کے صاحبزادے عباس کے بازو کس طرح قلم ہوئے معصوم علی اصغر کی گردن پر تیر کس نے چلایا اور علی اکبر کس بے جگری سے لڑے، لاشیں گھوڑوں کے سموں تلے روندی گئیں جن عفتِ مآب بیبیوں کو کبھی آفتاب نے سر برہنہ نہ دیکھا تھا انہیں بازاروں میں گھمایا گیا۔
یہ سب واقعات اپنی جگہ اور بلاشبہ درد ناک ہیں کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کا واقعہ ہو۔ لیکن کیا کربلا کا سبق صرف اتنا ہی ہے کہ ہر سال ان واقعات کو دہرا کر آنسو بہا لئے جائیں، شامِ غریباں برپا کر لی جائیں اور بس ۔ ۔ ۔ اس کے بعد پھر وہی معملات۔
واقعہ کربلا کی وجہ سے یوم عاشور کی اہمیت اپنی جکگہ لیکن ۱۰ محرم تو حضرت آدم کے زمانے یعنی ابتداء آفرینش سے مقدس، محترم، مکرم اور اہم رہا ہے۔ مستند روایات کے مطابق اس دن آدم و حوا کو زمین پر اتارا گیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اور میدانِ عرفات میں ان دونوں کو ایک دوسرے سے ملوایا گیا۔ اس دن کی بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہود بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور ان سے مشابہت سے بچنے کے لئے فرمایا کہ اگلے سال زندہ رہا تو دو دن روزہ رکھوں گا۔
لیکن واقعہ کربلا کے بعد بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دن کی صرف یہی اہمیت ہے اور ستم یہ کہ اس میں یہ بھی بھول گئے کہ حسینؓ نے سر کٹا کر کیا پیغام دیا تھا۔ آج امت مسلمہ جن مصائب و آلام میں گرفتار ہے اور لا دین سیکیولر طاقتیں مسلمانوں کو کھدیڑ رہی ہیں ان حالات میں تو کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ حسین کا پیغام عام کیا جائے۔ امریکہ اور اس کے صلیبی حواری مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں دوسری طرف اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ آرہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔
قائداعظم پر تہمت ہے کہ وہ پاکستان کو سیکیولر ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن ملک کو مذہبی ریاست بنا کر رکھ دیا گیا۔یہ بات کہنے والا اور کوئی نہیں، ایک حاجی ہے اور نام کا عدیل۔ یزید نے تو سیکیولرازم کا نعرہ بھی نہیں لگایا تھا بس اس کے کچھ افعال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سکیولر نوعیت کے تھے۔ پھر حسینؓ نے جان کیوں قربان کی اور محمد علی جوہر نے یہ کیوں کہا کہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔
احیائے اسلامی کی تحریک چلانے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ یزید کے پیروکار قدم قدم پر کربلا برپا کر رہے ہیں۔ آج جمہوریت کے نام پر آمریت کا احیاء ہو رہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس وقت حکومت کی باگ ڈور حسینیت کے علمبردار یا دعویدار کے ہاتھ میں ہے پھر بھی خیمے جل رہے ہیں۔ آہ و بکا کا شور ہے اور دوسروں سے چادریں چھینیں جا رہی ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ’’اگرچہ ہے تابدار ابھی کیسوئے دجلہ و فرات!دجلہ و فراد اب کہاں تابدار رہے، پانی کی جگہ اب خون بہہ رہا ہے۔
دنیا میں بہت سی جنگیں ہوئیں ہیں، خود مسلمانوں کی تاریخ بے شمار معرکوں اور باہمی لڑائیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان جنگوں میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور ہزاروں مارے گئے۔ ملک تباہ ہو گئے اور بربادیاں ہوئیں۔ مال غنیمت اور کشور کشائی کے علاوہ بھی حق و باطل میں تصادم ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ بے شمار شہداء سے جگمگا رہی ہے۔ لیکن ایسا کوئی معرکہ کسی قوم کی تاریک میں نہیں ملے گا جس میں عورتوں اور بچوں سمیت ۷۲ نفوس اپنے وقت کی سپر پاور کے مقابلے میں آگئے ہوں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ انجام موت ہے، قدم پیچھے نہ ہٹاتے ہوں۔ کیا اس قربانی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آنے والی نسلیں ہر سال سینہ کوبی کر لیں، جلوس نکالیں راستے میں پانی کی سبیلیں لگائیں کہ اہل بیت کربلا میں پیاسے رہے۔
نواسہ رسول صرف اتنی سی بات کے لئے نہ تو مدینے سے نکل کر عراق کے تپتے ہوئے صحراؤں میں جاتا اور نہ ہی ایک ایک کر کے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو شہید ہوتے دیکھتا۔ ایک ہجرت نانا نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی تھی۔ اس کا مقصد اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے محفوظ و معمون مسکن تلاش کرنا نہیں تھا۔
پھر ایک ہجرت نواسے نے مدینہ منورہ سے کوفہ کی طرف کی جس کے لئے مدینہ منورہ سے زیادہ محفوظ مقام اور کوئی نہ تھا۔ اجنبی جگہ، اجنبی لوگ، پھر یہ ہجرت کیوں اور کس کے لئے؟ دشمن کے لشکر کے سامنے بے سر و سامانی اور پیاس کے عالم میں جم جانا اور شہادت کا متلاشی ہونا کیا صرف اپنے اقتدار کے لئے تھا؟
اس میں کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ ساری جدوجہد، یہ ہجرت، یہ شہادت صرف ظلم و جبر کے ںظام کے خلاف تھی جس کے لئے سر تو دے دیا جابر کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا کہ:
تخت پر جابر جابر ہو قابض تو اطاعت کفر ہے
جو شہادت سے ڈرے اس کی امامت کفر ہے
نانا نے یہی سبق دیا تھا کہ تخت و تاج تو کیا اگر دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیا جائے تب بھی باطل کی اطاعت نہ کی جائے اور طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر لہو لہان ہونے کے باوجود حق کا پرچم بلند کیا جائے۔ اس دن اگر ظلم و جبر کی اطاعت کر لی جاتی تو ہمیشہ کے لئے ایک ایسی مثال قائم ہو جاتی کہ مسلمانوں میں سے کبھی کوئی حق کی خاطر جابر حکمرانوں سے ٹکرانے کی ہمت نہ کرتا اور کربلا کا یہی سبق ہے جو بار بار دہرایا گیا۔ کربلا صرف ایک بار برپا ہو کر نہیں رہ گئی جب جب کوئی جابر حکمران آیا اور عوام کی گردنوں میں طوق غلامی ڈالنا چاہا، حسینی روح بیدار ہوئی، رسم شبیری دہرائی گئی، قافلہ حجاز آگے ہی بڑھتا گیا۔ ابو حنیفہ نے کوڑے کھائے قید کاٹ، عبد اللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں شہید ہوئے، تین دن تک لاش لٹکتی رہے، سید احمد شہید بھی چند ساتھیوں کے ہمراہ جبر کی طاقتوں سے نبر آزما ہوئے اور اجنبی جگہ میں نامانوس حالات میں جام شہادت نوش کیا۔ براعظم پاک و ہند نے ۱۸۵۷ میں ایسے کئی معرکے دیکھے کہ کئی شہیدوں کا لہو اس زمین میں جذب ہوا اور لالہ و گل کی صورت میں نمایاں ہوا۔
کربلا آج بھی برپا ہے افغانستان ہو، عراق ہو یا کشمیر آج بھی یہ داستان دہرائی جارہی ہے وقت کی سب سے بڑی شیطانی قوت مسلمانوں کے لہو سے خراج وصول کر رہی ہے لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے کافر اور مشرک قوتیں مسلمانوں کی ہمیشہ سے دشمن ہی رہی ہیں۔ لیکن جب پہلی کربلا برپا ہوئی تو اس وقت مسلمانوں ہی کی حکومت تھی، یزید مسلم گھرانے کا فرد اور کلمہ گو ہی تو تھا، لیکن اس کی حکومت کو ناجائز اور غیر نمائندہ قرار دے کر اس کے خلاف حسیین ؓ نے جدوجہد کی اور شہادت کو گلے لگایا یعنی اگر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والا کوئی شخص ناجائز طور پر قوت کے بل پر اقتدار پر قابض ہو جائے تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا بدرجہ اولیٰ ضروری ہے کہ جب حکمران ہی راہ راست پر نہ ہو تو قوم کو بھٹکنے سے بچانے اور کافروں سے مقابلے کے لئے کون تیار کرے گا۔ ایسے حکمران تو اللہ کی راہ میں خود نکلنے اور قوم کو نکالنے کے بجائے قرآن کریم کے الفاظ میں زمین سے چمٹ جاتے ہیں۔ اپنی قوم کو ڈراتے ہیں کہ کہیں اور کربلا برپا ہے تو ہونے دو اپنی خیر مناؤ ورنہ تمھیں بھی گوانتا نامو بے پہنچا دیا جائے گا تمہارے ملک کو تورا بوتا بنا دیا جائے گا۔ گویا جن مسلمانوں کے گھروں پر بارود و آہن برسایا گیا کارپٹ بممنگ کی گئی تورا بورا بنا دیا گیا ان سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔ ایسے حکمرانوں کی کبھی اپنی قوم پر کوئی آزمائش آئی تو اس وقت بھی یہ لوگ کہیں گے کہ تم اور تمہارا خدا لڑو جا کر ہم تو چلے کسی مہربان کی پناہ میں۔سابق آمر نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا، اس وقت سب سے پہلے میں کا نعرہ ہوگا۔
کربلا کا درس یہی تو ہے کہ جو حکمران اللہ کے احکامات کے بجائے اپنا حکم نافذ کرے، اسلامی نظام کے بجائے اپنا نظام لائے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے نازل اور مکمل ہونے والے مذہب اسلام میں پیونکاری کر کے اسے روشن خیال اور لبرل اسلام قرار دے اس کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور اعلان کر دو کہ’’ مصالحت نہ سکھا جبر نارواسے مجھے‘‘ یہی رسم شبیری ہے اور مقام شکر ہے کہ ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو آج بھی جبر و ظلم کے مقابلے میں سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہیں۔ جو شہادت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں کہ قوم پر مسلط ہو جانے والے جابرون سے قوم کو نجات مل جائے جب تک قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں اسلام زندہ رہے گا۔ آج پھر کئی مقامات پر حالات وہی ہیں جو معرکہ کربلا کے وقت تھے اور قافلہء حجاز میں حسینؓ کی راہ پر چلنے والے بھی موجود ہیں جو سر دینے کو تیار ہیں لیکن کسی یزید وقت کی اطاعت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے کہ حسینؓ سے نسبت کا دعویٰ رکھنے والے بھی آج حسینی فکر جذبہ اور عمل کی مخالفت کرنے والوں کی صف میں نطر آرہا ہے۔ محض اس لئے کہ ’’دمشق اقتدار‘‘ پر قبضہ پر قرار رہے خواہ شہر شہر کربلا بپا ہو رہی ہو، گلی گلی ماتم ہو رہا ہو، مسجد محفوظ نہ امام باڑے۔ بازاروں میں کوئی سلامت نہ جی ایچ کیو محفوظ۔ حسینؓ تو پوچم جہاد لے کے نکلے تھے قلت تعداد کے باوجود طاغوتی طاقت سے ٹکرانے کا عزم لے کر۔ حسین کو ہر مسلمان کہتا ہے کہ ’’ہمارے ہیں حسین‘‘ لیکن ان کی پیروی کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
تو کیا ہر سال ماتم کرنے اور سوگ منانے تقاریر کرنے اور مضامین لکھنے سے رسم شبیری ادا ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یزیدانِ وقت تو آج بھی چین سے مسند نشستیں ہیں اور اور انہیں للکارنے والا کوئی نہیں بقول اقبال:
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
حسینؓ کے نانا کی امت کا حال یہ ہے کہ کسی کا سر سلامت نہیں اور جو موت سے بچ رہے ہیں انیں آٹا، دال، چاول، گھی، تیل، بجلی، گیس کچھ بھی تو دستیاب نہیں۔ سال کا آغاز یوں ہوا کہ کئی گھروں میں کربلا برپا ہو گئی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تحریر سے ایک اقتباس آپ بھی پڑھ لیں: ذرا سی عقل اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ جو انسان خدا سے بے خوف ہو اور جسے یہ فکر ہی نہ ہو کہ کسی کو حساب دینا ہے جو اپنی جگہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اوپر کوئی نہیں جو مجھ سے پوچھ گچھ کرنے والا ہو وہ طاقت اور اختیار پا کر شتر بے مہار نہ بنے گا تو اور کیا بنے گا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں جب لوگوں کے رزق کی کنجیاں ہوں جب لوگوں کی جانیں اور مال اس کی مٹھی میں ہوں جب ہزاروں لاکھوں سر اس کی آگے جھک رہے ہوں تو وہ راستی اور انصاف پر قائم رہ سکے گا؟
ایسے ہی شتر بے مہام کو لگام دینے کے لئے شبیر نے تلوار اٹھائی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ جان جائے گی لیکن آنے والی نسلوں کو تو پیغام مل جائے گا۔ لیکن آج یہ ذرا سی عقل بھی منقود ہے اور زندہ جاوید کا ماتم۔