پروفیسر مفتی منیب الرحمن
قمری سال کو سنِ ہجری یا اسلامی سال سے تعمیر کیا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی عبادات زکوٰۃ ، روزہ اور حج کا تعلق قمری سال سے ہے۔ اسی طرح اگر کسی خاتون کا شوہر قمری سال کے کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو وفات پا جائے تو چار قمری مہینے گزرنے کے بعد پانچویں قمری کی دس تاریخ پر اس کی عدت ختم ہو جائے گی، لیکن اگر وفات مہینے کے درمیان ہو تو عّدت کے ایک سو تیس دن پورے کیے جائیں گے۔ ختم المرسلین سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کسی اہم واقعے کی مناسبت سے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے تھے، جیسے کافی عرصے تک ’’واقعہ اصحابِ فیل ‘‘ اس کے لیے معیار بنا رہا۔ یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ضروری ہے کہ اسلامی سال سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے مقابل شمسی سال غیر اسلامی ہے۔ ہماری عبادت میں سے نماز کے اوقات، روزے کے، سحر و افطار کے اوقات اور مناسکِ حج کے بعض اُمور بھی شمسی نظام سے متعلق ہیں: جیسے نو ذوالحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کے لیے روانگی، غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانگی اور دس ذوالحجہ کو طلوع فجر کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانگی وغیرہ، یہی صورتِ حال رمی جمرات کے اوقات کی ہے۔ دراصل شمس (cosmological system) کے تابع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
(1)’’سورج اور چاند ( قدرت کے مقرر کیے ہوئے) ضابطے کے پاپند ہیں اور زمین پر بچھا ہوا سبزہ اور اپنے تنے پر کھڑے درخت (اپنی اپنی ہیئت و استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور) سجدہ ریزہ ہیں۔(الرحمٰن :5,6 )۔
(2)’’اور سورج اپنے مقرر وقت پر را ستے پر رواں دواں ہے، یہ بہت غالب بے حد علم والے (خا لق) کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں، یہاں تک کے لیے وہ (مہینے کے آخر میں خشک ہو کر) پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ( چلتے چلتے) چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن سے پہلے آسکتی ہے، اور ہر ایک (سیارہ) اپنے اپنے مدارس میں تیر رہا ہے۔ (یسٓ:38,40)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں ابتدائے آفرینش سے سال بارہ مہینوں پر مشتمل رہا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بے شک اللہ کی کتابِ (تقدیر) میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا (سال بھر کے) مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں، یہی دینِ مستقیم ہے۔ ( تو بہ:36)‘‘
ملتِ ابراہیمی میں چار مہینے حُرمت والے چلے آرہے تھے، جن میں جنگ و جدال کو ممنوع قرار گیا ہے، اُن کی تفصیل حدیثِ پاک میں ان الفاظ میں بیان ہوئی:’’ سال بارہ مہینے کا ہے، ان میں سے چار حُرمت والے ہیں تین تو متواتر آتے ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک مہینہ ’’رجب مُضرَ‘‘ ہے جو جمادی الثانیہ اور شعبان المعظم کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ (صحیح بخا ری :4662)۔
انِ حُرمت والے مہینوں میں ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے، جو ابتدائے آفرینش سے ہی حرمت والا ہے، اس ماہ کا ایک دن جیسے یومِ عاشور (دس محرم) کہا جاتا ہے، عشر سے مشتق ہے، جس کے معنی دس کے ہیں۔ عاشور سے مراد ماہِ محرم کا دسواں دن ہے۔ بعض اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ اس دن کو عاشورہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن میں اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(1)زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(2)طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی۔
(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور فرعونیوں سے نجات ملی اور وہ سمندر میں غرق ہوئے۔
(4)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور انہیں آسمانو ں پر اٹھایا گیا۔
(5)حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اسی دن ان کی امت کا قصورمعاف ہوا۔
(6)حضرت یوسف علیہ السلام کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالا گیا۔
(7)حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری سے صحت یابی ملی۔
(8)حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔
(9)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی۔
(10)حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطا ہوا ور سلطنت سے نوازا گیا۔ یہ روایت ہیں کہ حقیقت حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
امام احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یوم عاشورہ کی فضیلت دی ہے، آپ ﷺ فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یوم عاشور میں پیدا کیا اور اسی طرح زمینوں آسمانوں، عرش، کرسی اور لوح و قلم کو اسی دن پیدا کیا۔ حضرت جبریلؑ و ملائک اور حضرت آدمؑ و حواؑ اور جنت کو اسی دن پیدا کیا اور انہیں اس میں ٹھہرایا، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام عاشورا کے دن پیدا ہوئے اور اسی دن انہیں نمرود کی آگ سے نجات ملی، (فضائل الاوقات،ص:441)‘‘۔ الغرض سانحہ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مکرم و معظم مانا جاتا تھا، ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی دس محرم جمعتہ المبارک کو وقوع پزیر ہوگی۔ اس دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے:
(۱)’’حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہود یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: اس دن تمہارے روزہ رکھنے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ ایک عظیم دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا) شکر ادا کرنے کے لئے اس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی (ان کی اتباع میں) اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تہماری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہماری (نظریاتی) قربت زیادہ ہے اور ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں (کہ ان کی قائم کردہ سنت کو جاری رکھیں) چنانچہ رسول ﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ (صحیح مسلم :۲۶۵۳)
(۲)عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول ﷺ نے یوم عاشور کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا، تو صحابہ اکرام ؓ نے عرض کی: یا رسول ﷺ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاریٰ اس کی تعظیم کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا، تو ہم انشاء اللہ(عاشوراء کے ساتھ) نو تاریخ کا روزہ بھی (ملا کر) رکھیں گے (تا کہ عاشورا کے روزے کی سعادت بھی حاصل ہو اور یہود کے ساتھ مشابہت بھی نہ رہے )۔( صحیح مسلم: ۲۵۵۵)۔
(۳) رسول اللہ ﷺنے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے حرُمت والے مہینے محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔ (سنن ترمذی :۷۴۰)۔
(۴) ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا: رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے اس سے فرمایا: میں نے اس کے بارے میں کسی کو سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، سوائے ایک شخص کے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا اور میں اس وقت آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ماہ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے اس سے فرمایا: میں نے اس کے بارے میں کسی سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، سوائے ایک شخص کے کہ اس نے رسول اللہ ﷺسے یہ ہی سوال کیا تھا اور میں اس وقت آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! ماہ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم رمضان کے روزے رکھنے کے بعد (کسی اور مہینے کے) روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا۔ (سنن ترمذی :۷۴۱)
(۵)’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے، پھر رسول اللہ ﷺ نے (عہد اسلام میں) اس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ (پھر) رمضان کے روزے فرض ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اب) جو شخص چاہے (نفل کے طور پر) عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے،(مسلم: ۲۵۳۷)۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں یوم عاشور کا روزہ واجب تھا، بعد میں اب اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہے لہٰذا جن احادیث مبارکہ میں عاشورا کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے، وہ سنت و استحباب کے درجے میں ہے۔