December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت

علامہ منیر احمد یوسفی

عاشورا، عشر سے نکلا ہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یوم عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں۔ یوم عاشور، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اس دن روزہ رکھتے۔ رسول کریم کا دستور تھا کہ آپ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے ان کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اسی بنا پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اوراِسی اصول کی بنا پر عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔ پھر آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے یہود کو یوم عاشور کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کو غرق کیا تھا۔ بعد ازیں جب یہ دن آتا تو موسیٰؑ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریمؐ نے (ان کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم موسیٰؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے یوم عاشور کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا‘‘۔(بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، مسند احمد)

یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نبی کریمؐ کا یہ روزہ رکھنا سیدنا موسیٰؑ کی موافقت کے لیے تھا پیروی کے لیے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ہی روایت ہے فرماتے ہیں: ’’جب رسول کریمؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں، سرکارِ کائنات نے فرمایا: اگر ہم آئندہ سال اِس دنیا میں رہے تو نویں محرم الحرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ (ابوداؤد، مسند احمد)

اِس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی کہ وہ صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں اور ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھ کر دور کر لیا کریں گے اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں کریں گے بلکہ اِس میں اضافہ کرکے فرق کردیا کریں گے۔

حکم بن الاعرج سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ زم زم کے قریب اپنی چادر لپیٹے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کیا: عاشورہ کے روزہ کے بارے میں فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو کھاؤ اور نویں تاریخ کا روزہ رکھو۔ (ترمذی، مسلم)

ام المومنین سیدہ حفصہؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں: چار اَعمال ایسے ہیں جن کو رسول اللہ نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یوم عاشور کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ (کے نو روزے) اور ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو ر کعتیں (یعنی سنّتِ فجر)‘‘۔ (نسائی، مسلم احمد)

ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ذی الحجہ کے نو روزے رکھتے تھے (پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) اور عاشورہ کے روزہ (یعنی دسویں محرم کو) رکھتے تھے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کو اور دو جمعرات کو۔ (نسائی، مسند احمد)

مزیدہ بن جابر اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ: میں کوفہ کی مسجد میں تھی اور امیر المومنین سیّدنا عثمان غنیؓ کا دورِ خلافت تھا اور ہمارے ساتھ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ بھی تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریمؐ عاشورہ کے روزے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ روزہ رکھو۔‘‘ (مسند احمد)

ایک روایت میں ہے کہ رسول کریمؐ سے پوچھا گیا کہ کون سا روزہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد افضل ہے؟ فرمایا: اللہ کے مہینے ماہِ محرم الحرام کے (یوم عاشور) کا روزہ‘‘۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں اب سنّت یہی ہے کہ نویں اور دسویں کے روزے رکھیں کیونکہ نبی کریم کا نویں تاریخ کے روزے کا اِرادہ بھی تھا اور اِرشاد بھی ہے۔

بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ نے اِس روزے کا ایسا تاکیدی حکم فرمایا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم یوم عاشورا کے روزے کا حکم فرماتے تھے اور ہم کو اِس پر رغبت دیتے اور عاشورہ کے دن ہماری تحقیقات فرماتے تھے پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو نہ ہمیں روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ ہی منع فرمایا اور نہ تحقیقات فرمائیں‘‘۔ (مسند احمد، درمنثور، مشکوٰۃ، مسلم، ابو داؤد)

اِسی طرح ربیع بنت معوذ بن عفراء اور سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے یوم عاشور کو صبح صبح مدینہ شریف کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار صحابہ کرامؓ رہتے تھے یہ اِطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہیں وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بھی بقیہ دن بھر کچھ نہ کھائیں۔ بلکہ روزے داروں کی طرح رہیں۔‘‘ (بخاری)

یہ حدیث اس زمانہ کی ہے جب عاشورہ کا روزہ فرض تھا اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت ختم ہو گئی اور اِس کی حیثیت نفلی روزے کی رہ گئی۔

نفلی روزوں کے بارے میں ایک طویل حدیث کے آخری حصے میں ہے کہ عاشورہ کے دن کا روزہ، مجھے اللہ کے کرم پر امید ہے کہ پچھلے سال کا کفّارہ بنا دے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ، مسلم، ترمذی)

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘‘۔ (ترمذی)