December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

کربلا کا پیغام

حسن افضال

ہر سال محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے اذہان میں اس عظیم معرکے کی یاد تازہ ہوجاتی ہیز جو آج سے 1376 سال قبل یعنی سن 61 ہجری میں عراق کے ایک بے آب و گیاہ تپتے صحرا میں جو اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے کسی کرب اور بلا کی زمین ہے،حق و باطل کی قوتوں کے مابین رونما ہوا۔اس معرکہٓ حق و باطل کے ساتھ دینوی اقتدار کا جاہ و چشم ، جابر سلطان کی ہیبت، مادی وسائل کی فراوانی اور طاغوت کی حق کو نابود کرنے کی یہہ رعونیت بام عروج پر تھی جبکہ حق کے جلو میں حق کی معرفت رکھنے والے وہ چنیدہ غیر معمولی افراد تھے جن کی زیادہ سے زیادہ تعداد بھی 200 نفوس سے کم تھی اور جنہیں بخوبی علم تھا کہ اس معرکے میں نہ مال غنیمت ہاتھ آئے گا،نہ اقتدار ملے گا اور نہ ہی انہیں کسی انعام و اکرام اور منصب کی خواہش نے اسے تپتے صحرا میں مجتمع کیا تھا بلکہ اس کے برعکس انہیں بھوک کی اذیت،پیاس کی شدت اور سروسامانی کے عالم میں سفاک موت کا سامنا تھا۔یہ چنیدہ افراد حسین ابن علیؓ کی مصیت میں آہنی عزم اور چٹانی حوصلے کے ساتھ ایک مقصد کے تحت میدان عمل میں اترے تھے اور وہ عظیم موصد تھا اعلائے کلمتہ الحق اور اس دین حنیف کو حیات نوع بخشا،جس کی بنیاد آدمؑ نے دالی اور جس کی تکمیل رسول عربی کے ہاتھوں انجام پائی۔

کربلا میں یزید کی حکومت تمام انبیاء ؑ کی دین حق کی کاطر انجام دی گئیں ریاضتوں اور قربانیوں کی نابودی کے در پے تھے،اللہ کے دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جارہا تھا، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا کو پیش کیا جارہا تھا، شعائراسلام کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں، اہرمن یزدان کے منصب پر قابض ہورہا تھا،دیر حرم سے طواف کا تقاضہ کررہا تھا، ظلمات نے نور پر دھاوا بول دیا تھا، دیو سیہہ تخت سلیمان کی آرزو کررہا تھا،ابلیسیت احدیت سے ٹکرانے جارہی تھی اور دین خدا پر خاقانیت حملہ آور تھی۔ایسے سرکشیدہ، ابتر اور پر ہول ماحول میں جہاں حق گوئی ناقابل معافی بلکہ قابل گردن زدنی جرم بن چکی ہواصلاح معاشرہ کے لیے انقلابی اقدامات ناگزیر تھے۔لہٰذا ان حالات میں حسین ابن علیؓ جو اپنے جد محمد عربی کے دین کے حقیقی وارث تھے،نے رسول اکرمکی حدیث مبارکہ ’’حسین منی وانا من الحسین‘‘کی عملی تفسیر اپنے،اپنے خانوادے اور وفا شعار و مقدس اصحاب کے پاکیزہ لہو سے رقم کرکے اسلام کو دائمی حیات بخش دی۔کربلا میں حسین ابن علیؓ نے ظالم اور سفاک حکومت کو اپنی بیعت کا خراج پیش کرنے کے بجائے سرکٹا کر کل انسانیت سے خراج عقیدت وصول کیا اور فتح و شکست کے معنی و مفہوم بدل ڈالے۔انسانیت حسینؓ اور دیگر شہداء کربلا کو گزشتہ چودہ صدیوں سے خراج عقیدت پیش کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔

حسینؓ نے تقریباََ چودہ صدیاں قبل ایک ظالم حکمراں کی بیعت سے انکار کرکے حق اور سچ کے متوالوں کے لیے نہ صرف ایک روشن مثال قائم کی بلکہ ان کے لیے ایک واضح راہ عمل بھی متعین کردی کہ حق کے راستے میں کسی مصلحت، لیت و لعل اور اگر مگر کی گنجائش نہیں ہوتی۔حسینؓ اور ان کے رفقاء اور اہل و عیال کی فقید المثال قربانیوں نے عقل انسانی کو آج بھی ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ کس طرح اور کس قدر نامساعد اور اعصاب شکن حالات میں مختلف قبیلوں، خاندانوں اور مختلف عمروں اور مزاجوں کے افراد جن میں بچے،نوجوان اور ضعیف العمر افراد بھی شامل تھے ایک مرکز اور ایک مقصد کی خاطر اپنی قیمتی جانیں دینے پر مجتمع اور متحد ہوگئے تھے، اور وہاں موجود ہو شخص نصرت امام میں طاغوت سے لڑتے ہوئے شہید ہونے میں اپنے ساتھیوں پر سبقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔تاریخ انسانی کا یہ مُحیّر العقول واقعہ تا قیامت انسانوں کو ظلم و جور، ناانصافی اور جبر و استبداد نبرد آزما ہونے کی جرات و حرارت بخشتا رہے گا۔

واقعہ کربلا کمزوروں کو حوصلہ،مظلوموں کو جرات پیکار،بے وسیلوں کو خدائے لم لیزل پر توکل اور غم زدوں کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔افسوس ہم نیکربلا کے سانحہ فاجعہ کو صرف اور صرف نالہ و شیون تک محدود کردیا ہے۔ہم حق وباطل کے اس عظیم واقعے کی یاد تو بڑی شدومدسے مناتے ہیں لیکن اس میں پنہاں انسانیت کی فلاح اور رہنمائی سے ان زریں اصولوں اور ضابطوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے جن کی سربلندی کی خاطر امام عالی مقام اور دیگر شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانیں قربان کی تھیں۔اگر ہم اسلام کے سچے پیروکار ہونے اور امام عالی مقام سے عقیدت و مودت رکھنے کے دعویدار ہیں تو ہمیں اپنی موجودہ روش کوبدلنا ہوگا۔ہمیں نفرت،عداوت،بعض، ریاکاری، مکر و فریب، تکبر، حسد،لالچ اور بے راہ روی کے زہریلے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچانا ہوگا اور سب سے بڑھ کرلسانی، گروہی اور فرقہ واریت کی دیواروں کو گرانا ہوگا۔شہدائے کربلا کی یاد منانے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم گروہوں اور مختلف طبقات اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ملت واحدہ کے طور پر خود کو پیش کریں اور اپنے معاشرے سے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ کردیں اسی میں ہماری بقا ہے اور یہی کربلا کا پیغام ہدایت ہے۔