April 16th, 2024 (1445شوال8)

راتوں کی قدر اور قدر کی راتیں

افشاں نوید

سورۃ القدر میں جس رات کا ذکر ہے اس عظیم رات کا ادراک کرنے سے انسانی ذہین قاصر ہے۔وما ادراک ما لیلۃ القدر (تم لیلۃ القدر کا ادراک نہیں کر سکتے) اس لیے کہ نہ صرف رات سلامتی ہے بلکہ وہ پیغام رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے سلامتی کا پیغام ہے،اور وہ پیغام جو اس قدرت والی رات میں اترا ،بہت قابل قدر ہے کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور تدبیر جو اس رات میں کئی شکل میں جو عقیدہ قانون اور آئین دیا گیا اب رہتی دنیا تک کے انسانوں کی سلامتی اسی پر عمل سے مشروط ہے۔

اس قدر والی رات میں انسانیت کو جو قدریں دی گئیں انہوں نے پرانی اقدار ،تہذیب،اور تمدن سب کو بدل کررکھ دیا ۔نہ صرف نسلی اور نسبی غرور خاک میں ملا دیے گئے بلکہ ایک دوسرے پر شرف و برتری اور عزت و اکرام کے پیمانے بھی تبدیل کر دیے گئے ۔آپ نے ارشاد فرمایا :’’جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے ‘‘(بخاری و مسلم)

حضرت ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ رسول نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر کیا جو اییک ہزار مہینے تک مسلسل جہاد میں مشغول رہا اور اس نے ہتھیار نہیں اتارے۔مسلمان یہ سن کر تعجب اور شک کرتے تھے ،جس پر سورۃ القدر نازل ہوئی اور امت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا ۔شب قدر یقیناًامتِ محمد کے امتیاز ات میں سے ایک امتیاز ہے۔ لیلۃ القدار اور طاق راتیں اس کاآخری عشرہ مبارک کی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی راتیں ہیں ۔استغفار اور محاسبے کی راتیں ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم راتوں کی قدر پہنچان لیں تو ہر رات کی قدر کرنا شروع کردیں ۔اس لیے کہ رات کی تنہائی میں رب ذوالجلال کا قریب حاصل کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں اور انہیں ’’نشاط آہ سحر‘‘ حاصل ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا آخرت کی کوئی خیر و بھلائی مانگے تو اللہ اس کو وہ خیر و بھلائی ضرور عطا فرماتے ہیں اور وہ ساعت ہر رات آتی ہے ‘‘(مسلم) اولیا اللہ جو نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر رات کی سواری پر سوار ہو گئے ،معروفتِ الہی کی جستجو میں عازم سفر ہوئے ،رب کے در پر حاضر ہوئے تو اللہ پاک نے ذکر ان الفاظ میں فرمایا:’’وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں اور بو قت سحر استغفار کرتے ہیں‘‘(الذاریات17تا18)

جلیل القدر تا تا بعی حضرت فضیل بن عیا ضؓ جن کو اللہ نے شب بیداری کی حلاوت کا مزہ چکھا دیا تھا فرماتے ہیں؛مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ علان کرتے ہیں کہ جھوٹا ہے وہ شخص جو مجھ سے محبت کا ذم بھر تا ہے اور رات کا غافل ہو کر سو رہتا ہے ۔کیا ہرمحب محبوب کے ساتھ خلوت کو پسند نہیں کرتا دیکھو!میں تو اپنے پیارے کی طرف متوجہ ہوں جب رات چھا جاتی ہے اور وہ حالت مشاہدہ میں مجھ سے مخاطب ہے ‘‘ (حلیۃ الاولیا) تیام لیل کی یہ عبادت ہمیشہ سے مسلمانوں کا شعار رہی ہے حتیٰ کہ وہ جنگ جیسے حالات میں بھی اس سے غافل نہیں ہوت تھے اور اس سے ایسی قوت پاتے تھے کہ میدان جنگ میں اپنے سے کئی گناہ بڑے لشکر کو نہ صرف للکارتے بلکہ اس پر ہیبت طاری کردیتے ۔بلاشبہ وہ مستغفرین بالاسحار تھے۔حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں :’’اگر ان میں حلاوت نہ پاؤتو جان لو کہ خیر کے درازے تم پر بند ہو چکے ہیں ،لہذا ان کو کھولنے کی کوشش اور ہمت میں گے رہو‘‘(شعب الیمان )

حقیقت یہ ہے کہ داعیانہ کردار کے تقاضوں کو نبھانے کے لیے جس ٹھوس جد وجہد کی ضرورت ہے قیام لیل ہی اس کا حوصلہ پیدا کرسکتا ہے۔اسی لیے آپ کو عظیم مشن سونپتے وقت حکم دیا گیا کہ ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی رات یعنی نصف رات یا اس سے کسی قدر کم کر دو یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو‘۔(المزمل 1-4 )

اللہ کے نبی او اصحابؓ رسول نے اس حکم کی تعمیل اس شان سے کی کہ قیام لیل میں ان کت پاؤں اور پنڈلیاں سوج جاتیں کھڑے کھڑے ۔پھر اللہ نے اس میں تخفیف فرمادی ،

چنانچہ قیام الیل جو امت پر فرض تھا اب نفلی ہوگیا ۔’’آپ کے دب کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے معض دو تہائی رات کے قریب ۔آدھی رات اور کبھی تہائی رات کھڑے رہتے ہیں ‘‘(المزمل20 )

لہذا یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ’’اس کو معلوم ہے کہ بعض آدمی تم میں سے بیما رہوں گے ،سو تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو ‘‘(المزمل20 )تا ہم فرض نہ ہونے کے با وجود اس کو متقین اور صالحین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے :’ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں اپنے رب کوخوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘۔(السجدہ16 )

اور وہ راتوں کو کھڑے رہنے والی اپنے رب کی مناجات اور گریہ وزاری کرنے والے اپنے چہروں سے بھی پہچان لیے جاتے ہیں ۔’’انکے آثار بوجہ تا ثیر سجدہ ان کے چہروں پر نمایاں ہیں‘‘۔(الفتح29 )سفیان ثوری ؒ فر ماتے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ رات کے وقت نماز پڑبتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے تو ان کے چہروں پر اس گریہ وزاری کے اثرات نظر آتے ہیں ۔حضرت حسن بصری ؒ سے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تہجد گزاروں کے چہرے بڑے رونق اور خوب صورت ہوتے ہیں؟فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے رحمن سے خلوت میں ملاقات کی تو رحمن نے ان کو نور کا لباس پہنادیا۔روایات میں ہے کہ نبی اور اصحاب رسول ایک دوسرے کو یہ دعا دیا کرتے تھے کہ’’اللہ تمہیں صلاۃالابراز یعنی تہجد کی دولت سے مالا مال فرمائے ‘‘۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ’’آپ جب دعا میں ذیادہ مبالغہ کرتے تو فرماتے اللہ تمہیں نیک لوگوں کی نماز عطا فرمائے جو راتوں کو قیام کرتے ہیں اور دن کو روزہ کھتے ہیں ۔نہ وہ پیشوا ہیں نہ ہی فاجر ‘‘۔(الادب المفرد631 )حضرت ابو مالک الاشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول نے فرمایا :ہم نے عرض کیا:’’یا رسول وہ بالا خانہ کن لوگوں کے لیے ہے؟آپ نے فرمایا ’’اللہ نے وہ بالا خانہ ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور گفتگو نرم انداز میں کرتے ہیں اور راتوں کو قیام کرتے ہیں جب کہ لوگ سو رہے ہوں ‘‘۔(احمد البہیقی)ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہؓ نے رسول سے ایسے کام کے بارے میں دریافت کیا کہ جب اس پر عمل کیا جائے تو جنت میں داخلہ نصیب ہو۔آپنے فرمایا ’’اسلام کو رواج دو کھانا کھلاؤصلہ رحمی کرواور رات کو قیام کرو جب لوگ سو رہے ہوں،تو تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘(رواہ احمد والحاکم) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ رات کو کون سا حصہ قبولیت والا ہے؟آپ نے فرمایا ’’رات کا آخری حصہ ،پس جتنی چاہو نمازیں پڑھو ،کیونکہ یہ نماز ایسی کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ،اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کے قریب آکر تمام گناہ معاف فرمادیتے ہیں مگر شرک اور ظلم کو معاف نہیں کرتے ‘‘۔(نسائی ابن ماجہ)

جلیل القدر صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو یوں عرض گزار ہوئے:’’اے اللہ بے شک آپ جانتے ہیں کہ میں دنیا کی محبت نہیں رکھتا اور نہ ہی نہریں کھودنے یا درخت لگانے کے لیے دنیا میں لمبی زندگی کا کبھی خواہش مند ہوا ہاں لبتہ سخت دوپہر کے وقت کی پیاس اور قیام الیل کے لیے رات کی وقت کی مشقت پسند کرتا تھا اور ذکر کے حلقوں کے وقت علماء کا ازوحام پسند کرتا تھا‘‘۔(النودی فی تہذیب الاسماء)حضرت علی بن بکار ؒ جو امام و فقیہ اور عارف باللہ تھے ،فرماتے ہیں کہ چالیس سال تک کسی چیز نے مجھے غمناک نہیں کیا سوائے طلوع فجر کے‘‘۔

امام ابو سلیمان الداری ؒ تہجد گزاروں کی لذت اور حلاوت حاصل ہوتی ہے وہ اس لذت سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے جو لہو و لعب میں مبتلا لوگوں کو اپنے لہو لعب میں محسوس ہوتی ہے ۔اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا پسند نہ کرتا ۔اگر اممہ تعالیٰ ان کو عمل پر ملنے والے ثواب کے عوض وہ لذت اس سے بہت زیادہ ہوگی ،اور مناجات کی لذت کا تعلق دنیا سے نہیں بلکہ جنت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء پر ہی آشکارکیا ہے اور اس کو وہی محسوس کیا جاتا ہے‘‘۔(حلیلۃ الاولیاء ۔صلۃ الصلوۃ)

علمائے اسلاف قیام لیل کو آسان کرنے کے جو طریقے بیان کرتے ہیں ان میں بنیادی چیز قلت اطعام ہء یعنی بھرا ہوا پیٹ بندے اور اس کے رب کے درمیان حجاب بن جاتا ہے اور کھانا اور بے وقت کھانا دونوں ہی حلاکت جان اور سستی وغفلت کا سبب ہیں۔اور جو اپنے نفس اور پیٹ پر قابوپانے میں ناکام رہتا ہے بہت سے اعمال صالح کی اسے توفیق عطا نہیں ہوتی ۔امام شافعیؒ نے ایک مرتبہ اپنے تلامذ ہ سے فرمایا ’’میں نے سولہ سال میں صرف ایک مرتبہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے اس لیے کہ پیٹ بھر کر کھانا بدن کو بھاری اور ذہانت کو زئل کردیتا ہے‘‘۔

مروی ہے کہ جلیل القدر تابعی محمد بن سیرین کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ ’’مجھے قیام وعبادت کی تعلیم دیجیے ۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’پہلے مجھے بتاؤ تم کتنا کھاتے اور پیتے ہو؟ ‘‘اس نے کہا کہ خوب پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں اور سیر ہو کر پانی پیتا ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’یہ تو حیوانوں کی طرح کا کھانا پینا ہے ۔جاؤ پہلے کھانے پینے کے آداب سیکھو پھر میرے پاس آنا ،میں تمہیں عبادت کی تعلیم دوں گا‘‘۔اہنے اسلاف اور اولیاء اللہ کے ان اقوال کی روشنی میں قیام الیل کی سعادت نہ ملنا سوئے بد نصیبی کے اور کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ہمارے دل سخت ہوجاتے ہیں،اور فرض نمازوں کا بھی خشوع و خضوع رخصت ہوجاتا ہے ۔حضرت حسن بصری ؒ سے کسی نے اپنی بے ہمتی کی شکایت کی کہ قیام اللیل کے لیے وہ اپنے اندر ہمت اور طاقت نہیں پاتا۔آپ نے فرمایا ’’تیرے گناہوں نے مجھے پابہ زنجیر کر رکھا ہے بندہ جب گناہ کرتا ہے تو قیام الیل کی دولت سے محروم کردیا جاتا ہے‘‘۔

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:’’پندرہ دن تک ایک گناہ کی وجہ سے میں صیام اور قیام سے محروم رہا ۔کسی نے پوچھا :’’ایسا کون سا گناہ تھا؟‘‘فرمایا:’’ایک دن میں نے ایک شخص کو روتے ہوئے دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص ریا کار ہے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی نیک عمل کی توفیق نہ ملنا کسی بد عملی کی سزا بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ جلیل القدر تابعی حضرت کرزبن وبرہ الحارثی ؒ کے بارے میں مذکورہے زاروقطار رورہے تھے لوگ سمجھے گھر میں کوئی فوت ہوگیا ہے۔پوچھا تو فرمایا وہ فوتگی سے بھی بڑی پریشانی ہے۔لوگوں نے استفار کیا :وہ کون سی ایسی مصیبت اور پر یشانی ہے؟ فرمایا: میر ادروازہ بند ہے اور میرا پردہ لٹکا ہوا ہے ،میں گزشتہ شب قیام اللیل نہ کر سکا ،اس کی وجہ کوئی گناہ ہے جس کا میں نے ارتکاب کیا ہے‘‘۔ (الحیۃ) مقام افسوس یہ ہے کہ ہمارے دل فرئض وواجبات میں کوتاہی پر بھی اس درجہ ملول نہیں ہوتے تھے جتنے یہ اللہ کے ولی نوافل چھوٹنے پر غمگین ہو جاتے تھے۔ یقیناًہمیں اپنے دلوں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ فرمایا گیا ’’ہر گز نہیں بلکہ گناہوں کے ارتکاب سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں‘‘۔ (المطففین۔۱۴) ایک آدمی ابراہیم بن ادھم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے شب بیداری کی تو فیق نہیں ملی ۔کچھ علاج تجویز کیجیے ۔فرمایا ’’دن کو اس کی نافرمانی نہ کر،تجھے رات کو اپنے سامنے کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا ۔یہ عظیم ترین شرف و اعزاز ہے ،عاصی اور گناہ گار اس شر ف اعظیم کے مستحق نہیں ہوسکتے ۔‘‘(تنبیہ المفترین للشعرانی)نہ معلوم ہمیں اگلے برس کا رمضان اور یہ قدر والی راتیں نصیب ہوں کہ نہ ہوں لہذا اس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانیں اور ایمان اور احتساب کے ساتھ ان لعل ویاقوت سے زیادہ قیمتی لمحوں کو معتبر بنائیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر بندہ ء خاکی اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قریب کی اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں ۔شب قدر جو احتساب کی رات ہے اور اسی عظیم شب میں ہمیں وطن عزیز حاصل ہوا لس لیے کچھ احتساب اس کا بھی کریں کہ لا الہٰ کی وراث یہ سر زمینّ ج کتنے فتنوں کی زد میں ہے۔روز شب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہو رہا ہے ہم اللہ کی حدوں کو توڑتے رہے اور آزمائشوں کے پھندے سخت ہوتے رہے ۔شب قدر کی نعمت کی ہم نے قدر نہ کی تو شقاوت اور بد بختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ۔آج نہ گھر محفوظ ہیں نہ سرحدیں ،نہقومی حمیت باقی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت یہ سلامتی والی رات ہمارے لیے یاددہانی ہے کہ پھر سلامتی کی طرف پلٹیں ۔ایمان کی سلامتی ،کردار کی سلامتی، دلوں کی سلامتی ،گھروں کی سلامتی ،ملک وملت کی سلامتی اس سلامتی کا پیغام شب قدر میں مضمر ہے کیونکہ خود مالک کائنات نے اس کو سلامتی والی رات کہا۔ہمارامادی ارتقا ء،ہمارے روحانی ارتقاسے وابستہ ہے۔اسی سے ہمارے تہذیب و تمدن کا ارتقا وابستہ ہے ۔یہ نورانی رات ہمیں مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھر اسی نور کی طرف دعوت دے رہی ہے جو چودہ سو برس قبل جب چمکا تھا تو عرب و عجم غلام ہوگئے ۔یہ عظیم ملائے اعلیٰ سے رابط و تعلق کی رات ہے۔جبرئیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں ایک بار پھر اتر یں گے ۔اس سلامتی کی رات میں ہم اپنے قلب اور روح کو اتنا بیدار کر لیں کہ ان کے اترنے کو محسوس کر سکیں ۔اللہ کرے اس رمضان لیلۃ القدر کے اثرات ہمارے عمل سے اس طرح ظاہر ہوں کہ پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوت متحرکہ بن جائیں۔

تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف