بابا الف
ایک ماہ سے جاری بھارت چین تنازعے میں اس وقت ایک ڈرامائی موڑ آیا جب چین نے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہترکرنے کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ کشمیر کی صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ اب بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کی جانب مبذول ہونے لگی ہے۔ بیجنگ میں وزارت خارجہ کی ترجمان گنگ شوانگ نے ایک نیوز کانفرنس میں کشمیر کے سوال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کنٹرول لائن پر جس طرح کا ٹکرائو ہے اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کا استحکام خطرے میں پڑے گا بلکہ یہ کشیدگی پورے خطے پر اثر انداز ہوگی۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس طرح کے بیانات نے بھارت کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں آگ لگا دی۔ وزیرخارجہ، سیکرٹری خارجہ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سیاست دان اور میڈیا چین کے خلاف حرکت میں آگئے۔ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے الزام لگایا کہ چین نے بھی کشمیر میں مداخلت شروع کردی۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا کہ ہندوستان مسئلہ کشمیر کے حل میں چین کے تعمیری کردار کی پیشکش کو مسترد کرتا ہے۔ یہ ایک سیاسی اور باہمی معاملہ ہے اور اس تنازع پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف کا بیان آیا کہ بھارت اپنے دفاع کے لیے ڈھائی محاذوں پر جنگ کے لیے تیار ہے۔ ڈھائی محاذوں سے ان کی مراد پاکستان، چین اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی سے تھی۔ اسی دوران چین کے سرکاری ترجمان اخبار گلوبل ٹائمز نے شگوفہ چھوڑا کہ جس طرح ہندوستان کی فوجیں بھوٹان میں داخل ہوئی ہیں اسی طرح ایک تیسرے ملک چین کی فوج پاکستان کی درخواست پر ریاست کشمیر میں داخل ہوسکتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس تجویز پر بھارتی حکومت نے کسی ردعمل کا اظہار کیا اور نہ میڈیا میں کوئی واویلا دیکھنے میں آیا۔ انڈیا کے سیاست دان اور حکومت جانتی ہے کہ اگر اس بات کو اچھالا گیا تو کیا نتائج نکلیں گے۔
کشمیر پر چین کی اس فعالیت اور پروایکٹو رول پر دو آرا ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ چین یہ سب کچھ بھارت کو تنگ کرنے کے لیے کررہا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے دوکلام میں جس کی فوجیں بھارتی افواج کے مقابل کھڑی ہیں۔ 1962کی چین اور بھارت جنگ کے دوران بھی چین نے مسئلہ کشمیر پر سر گرمی دکھائی تھی۔ پاکستان میں چینی سفیر نے حکومت پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ اگر اس موقعے پر پاکستان کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کردے تو بھارت کے لیے دومحازوں پر لڑنا ممکن نہیں۔ امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کا شمار جارح ملک کے طور کیا جائے گا۔ بعد میں امریکا اور برطانیہ مسئلہ کشمیر حل کروا دیں گے۔ اس دھمکی پر صدر ایوب کی ٹانگیں کانپ گئیں اور انہوں نے کشمیر کے محاذ پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔ چین کی طرف سے جنگ بندی کے ساتھ ہی امریکا، برطانیہ اور نہرو کو پاکستان سے اپنا کوئی وعدہ یاد نہیں رہا۔ ہمیں بھی کشمیر کے باب میں امریکا اور برطانیہ کا منافقانہ کردار یاد نہ رہا۔ آج بھی ہماری فوجی اور سول قیادت اس مسئلہ پر امریکا سے ثالثی کی درخواست کرتی رہتی ہے۔ چین سے ہم نے کبھی رجوع نہیں کیا۔ اس دوران چین نے علامتی طور پر تو بارہا اس حقیقت کا اظہار کیا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے لیکن اس معاملے میں اہل چین یا پاکستان کی مدد کرنے کا اس نے کبھی اشارہ بھی نہیں کیا بلکہ چین کی طرف سے اس قسم کی تجویز سامنے آئی کہ پاکستا ن صبر سے کام لے۔ ایک دن ہانگ کانگ کی طرح کشمیر بھی پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان کی جھولی میں آگرے گا۔ ایک دوسری دلیل جو اس ضمن میں دی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جو چین اپنے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں پر آئے دن کسی نہ کسی قسم کی پابندیاں لگاتا رہتا ہے اسے کشمیر کے مسلمانوں سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔ یہ سب بھارت کو تنگ کرنے کے لیے ہے۔
چین کی فعالیت کی دوسری وجہ یہ ممکن ہے کہ چین بھارت اور امریکا پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ اگر وہ چین کو گھیرنے کی کوشش کریں گے تو چین بھی انہیں گھیرنے اور تنگ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ایک طرف وہ انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے تو دوسری طرف روس اور ایران سے اتحاد کی صورت میں امریکا کے لیے راہیں مسدود کرسکتا ہے۔ چین اور روس کے درمیان پہلے ہی اسٹرٹیجک معاہدہ ہوچکا ہے۔ امریکا چین کی بحری ناکہ بندی کی کوشش کررہا ہے۔ مالا بار مشقیں جو حال ہی میں ختم ہوئی ہیں ان کا مقصد آبنائے ملاکا میں چین کی بحری سرگر میوں کی نگرانی کرنا اور بوقت ضرورت انہیں کنٹرول اور بند کرنا ہے۔ جاپان بھی اس ناکہ بندی میں امریکا کے ساتھ ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان کی حیثیت ایک امریکی کاسہ لیس ملک کی سی ہے۔ اوکی ناوا کے جزائر، مارشل آئی لینڈ، گوام اور جنوبی کوریا میں امریکا نے بہت بڑی تعداد میں اپنی فوجیں اتاری ہیں۔ امریکا کے طیارہ بردار بحری جہاز بحرالکاہل میں چین کے مشرقی اور جنوبی بحری ساحلوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ اگر امریکا، بھارت، جاپان اور دوسرے اتحادی ان کوششوں میں کا میاب ہوجاتے ہیں تو متبادل کے طور پر چین کے لیے سی پیک اور پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے چین سی پیک سے آگے بڑھ کر پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے معاملے میں اترا ہے۔
بھارت آئے دن پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کوئی دندان شکن جواب نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ گولہ باری معمول بنتی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی طرف سے بھارت کو دھمکی دی گئی کہ وہ ان کارروائیوں کو بند کردے ورنہ اس کی کنٹرول لائن کے ساتھ پٹھان کوٹ سے جموں وکشمیر جانے والی شاہراہ بند کردی جائے۔ 1999 میںکارگل کی جنگ کے موقعے پر پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی اس واحد گرائونڈ شاہراہ کو بند کردیا تھا۔ سیکڑوں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت اس شاہراہ کو کھلوانے میں کا میاب ہوا تھا۔ ایک ایسے موقع پر جب دوکلام میں بھارت اور چین کے درمیان کسی بھی وقت جنگ ممکن ہے پاکستان کی طرف سے بھارت کو یہ دھمکی بہت معنی خیز ہے۔ چین بھارت تنازع سے پاکستان اپنے مفاد میں بہت کچھ کشید کرسکتا ہے لیکن پا کستان کی سول قیادت کو پاناما کے تھیلے میں بند کردیا گیا ہے۔ جب کہ افواج پاکستان دفاعی جنگ پر یقین رکھتی ہے اور اندرون ملک ایک کے بعد دوسرے آپریشن میں مصروف ہیں۔