ستائیس اکتوبر کو اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ہم کشمیری عوام کے جائز حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ یہ دن اس تاریخی سانحے کی یاد دلاتا ہے جب انیس سو سینتالیس میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اُتار کر جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کی بنیاد رکھی۔ یہ قبضہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ انسانی ضمیر کے بھی منافی تھا۔ کشمیر جسے قدرت نے جنت نظیر بنا کر زمین پر اُتارا، اس جنت کو ظلم و درندگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر غلامی کے طوق کو قبول نہیں کیا۔ ستائیس اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی عوام سیاہ پرچم لہرا کر اس دن کو یوم احتجاج کے طور پر مناتے ہیں تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکے کہ وہ اس دیرینہ مسئلے پر اپنی خاموشی توڑے اور انصاف کی حمایت میں آواز بلند کرے۔
کشمیر کا مسئلہ برصغیر کی تقسیم کے وقت اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آیا اور اس کے حق میں قراردادیں منظور ہوئیں جن میں واضح طور پر کہا گیا کہ کشمیری عوام اپنی مرضی سے فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ بھارت نے ان قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور طاقت کے زور پر وادی کو قید خانے میں بدل دیا۔ ہر گلی کوچے میں فوجی چوکیاں، ہر دروازے پر بندوق، ہر آنکھ میں خوف اور ہر دل میں امید کا دیا جلتا ہے کہ شاید ایک دن آزادی کی صبح طلوع ہو۔ بھارتی مظالم کی داستانیں وقت کے صفحات پر خون سے لکھی جا رہی ہیں۔ عصمت دری، جبری گمشدگیاں، اندھادھند فائرنگ، محاصرہ اور اظہار کی آزادی پر پابندیاں کشمیر کے روزمرہ کا المیہ بن چکے ہیں۔ دو ہزار انیس میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل تین سو ستر منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی، جس کے بعد وادی میں ایک اور سیاہ دور کا آغاز ہوا۔ ہزاروں نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، انٹرنیٹ بند کر دیا گیا، میڈیا کی زبان پر تالے لگا دیے گئے۔ مگر آزادی کے متوالے کشمیری نہ جھکے نہ رکے۔ انہوں نے اپنے خون سے عزم و استقلال کی ایسی تاریخ لکھی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی ہے۔ ہر پاکستانی دل میں کشمیر کی دھڑکن سنتا ہے اور ہر پاکستانی زبان سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ یہ نعرہ صرف ایک سیاسی دعویٰ نہیں بلکہ ایمان کی علامت بن چکا ہے۔ یوم سیاہ کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر کوئی علاقائی تنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی اور عالمی طاقتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کروائے۔ کشمیری عوام سات دہائیوں سے اپنے حق کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کے شہیدوں کے جنازے خاموش چیخ بن کر دنیا سے انصاف مانگتے ہیں۔ ان ماؤں کی سسکیاں جن کے بیٹے لاپتا ہیں، ان بہنوں کے آنسو جو اپنے بھائیوں کی لاشیں پہچاننے سے قاصر ہیں، ان بوڑھوں کی دعائیں جو ہر اذان کے ساتھ اللہ سے آزادی کی صبح مانگتے ہیں، یہ سب انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ ستائیس اکتوبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ غلامی کے اندھیروں میں بھی امید کا چراغ بجھایا نہیں جا سکتا۔ یہ دن ہمیں اتحاد، یقین اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ کشمیر کے بچے آج بھی گولیوں کے سائے میں کھیلتے ہیں مگر ان کی آنکھوں میں آزادی کے خواب زندہ ہیں۔ یہ خواب کبھی نہیں مریں گے کیونکہ یہ خواب حق اور سچ پر مبنی ہیں۔ دنیا کی ہر طاقت ظلم سے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوں تو کوئی طاقت انہیں غلام نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کی وادیوں میں بہنے والا ہر نالہ، ہر چشمہ، ہر درخت اور ہر پتھر گواہ ہے کہ یہاں کے لوگ آزادی کے لیے جی رہے ہیں اور آزادی کے لیے مر رہے ہیں۔
یوم سیاہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے ہر فورم پر انصاف کا مطالبہ جاری رکھیں۔ جب تک ظلم کی زنجیریں ٹوٹ نہیں جاتیں، جب تک کشمیر کے آسمان پر پاکستان کا پرچم نہیں لہراتا، جب تک مظلوم کی فریاد کو انصاف نہیں ملتا، تب تک یہ دن ہمیں پکار پکار کر یاد دلاتا رہے گا کہ ایک قوم اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔ کشمیر کی آزادی اب صرف وقت کی بات ہے کیونکہ حق کی شمع جب بھڑک اٹھتی ہے تو باطل کی تمام دیواریں راکھ ہو جاتی ہیں۔
بشکریہ جسارت
