August 11th, 2025 (1447صفر17)

کشمیر بنے گا پاکستان!

ڈاکٹرحمیرا طارق

آزاد کشمیر ،جہاں خاموش پہاڑ، اللہ کی حمد گنگناتے ہوئے دریا اور چاروں طرف پھیلا ہوا سبزہ ۔

چار جولائی کی صبح ہم کشمیر کے لیے روانہ ہوئے۔جیسے جیسے ہم مری کے پہاڑوں کو پیچھے چھوڑتے گئے ۔

آزاد جموں و کشمیر میں گذشتہ 94 سالوں سے جاری جدوجہد آزادی کے اہم واقعات نظروں میں گھومنے لگے۔

13جولائی 1931ء کو سری نگر کی سینٹرل جیل کے سامنے پہلے مظاہرہ ہوا۔ جہاں دو کشمیری شہید ہوئے۔ 1989ء میں مسلح تحریک کا آغاز ہوگیا۔ بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف نوجوانوں نے بندوق اٹھا لی۔ 1990ء میں گیارہ ہزار سے زائد کشمیری نوجوان شہید ہوئے۔سید علی گیلانی اور میر واعظ فاروق کو پابند سلاسل کیاگیا۔ 2013ء میں افضل گوروکو شہید کیا گیا۔ برہان وانی نے تحریک جہاد کشمیر میں نئی روح پھونکی۔ نوجوانوں کو متحد اور متحرک کیا۔ 8 جولائی 2016ء کو بھارتی فوج نے اُسے بھی شہید کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کو مزید توانا کردیا۔ بھارت نے بیلٹ گنز سے حملے کیے۔ جس سے 1000 سے زائد افراد بینائی سے محروم ہوگئے۔ پھر ایک تاریک دور شروع ہوا۔ 5،اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے ، بھارت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور کشمیر کودوحصوں میں تقسیم کرکے براہ راست دہلی کے زیر انتظام کر دیا گیا۔ اس طرح ایک صدی پر محیط جدوجہد آزادی تاریک دور میں داخل ہوگئی۔

               4جولائی 2025ء کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم جب کوہالہ پل پر پہنچے تو یوں لگا جیسے آزاد کشمیر کا دروازہ کھل گیاہو۔ نیچے نیلگوں پانی شور مچا رہا تھا اور اوپر پہاڑ خاموش کھڑے نظارہ کر رہے تھے۔ ہمارا پہلا قیام مظفر آباد میں تھا۔ شہر صاف ستھرا، لوگ مہمان نواز اور زبان میں خالص پن موجود تھا۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی آزد کشمیر کے مرکزی نظم کی بہنیں کوہالہ پل پر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ جنھوں نے بہت محبت سے ہمارا استقبال کیا۔ نئے تعمیر شدہ خوبصورت شجاع ہوٹل میں ہمارے قیام و طعام کا انتظام کیاگیا۔ کچھ دیر باہم گفت و شنید میں مصروف  رہنے کے بعد نماز اور کھانے سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی کے دفتر گئے ،جہاں کارکنان جماعت سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اجتماع کارکنان کے بعد تعلیمی اداروں کی سربراہ خواتین ،پروفیسرز، ڈاکٹرز اور سوشل ویلفیئر کرنے والی خواتین کے ساتھ نشست تھی۔ جس میں مسئلہ کشمیر کے حل پر بات ہوئی ۔ ہال میں موجود تمام خواتین نے مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان سے الحاق ہی بتایا۔ تعلیم یافتہ اور دانش ور خواتین نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بہت سے فوائد بتائے اور دلائل سے ثابت کیا کہ کشمیر کے تحفظ اور ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ الحاق ضروری ہے۔

               نماز مغرب کے بعد سنو ایف ایم(Sunno FM) ریڈیو پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، ثمینہ سعید اور میں پوڈ کاسٹ کے لیے گئے۔ اینکر نے محترم قاضی حسین احمد ؒ کی آزادی کشمیر کے لیے کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور جماعت اسلامی پاکستان اور الخدمت فاؤنڈیشن کی کوششوں کو سراہا۔ اورجماعت اسلامی سے تعلق کی وجہ سے ہمیں بہت ادب  و احترام سے بٹھایا اور جماعت اسلامی اور قاضی حسین احمدؒ کے حوالے سے سوالات کیے۔  پوڈ کاسٹ کے بعدہم شجاع ہوٹل واپس پہنچ گئے ۔ بہت لذیز کھانا کھایا اور سو گئے۔

               5 جولائی کی صبح نماز فجر کے بعد اٹھمقام کے لیے روانہ ہوئے جہاں گرلز کالج میں جلسہ عام تھا۔ جس میں کشمیر بنے گا پاکستان اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے جلسہ گاہ کو گرمایا گیا۔ کیرن کے مقام پر Valley tracker ہوٹل پر رُکے ، جو دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے وہاں پر دوپہر کا کھانا کھایا اور دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہو کر دریا کے دوسری پار مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کے درد کو صرف محسوس  ہی کیا کیونکہ فاصلے کی دوری نے مجبور کر رکھا تھا  البتہ کشمیری عوام کو محبت، اخوت اور اپنائیت کا پیغام بھیجا۔

                کیرن سے طاؤبٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں ہماری دائیں طرف مقبوضہ جموں و کشمیر کا علاقہ تھا۔ جہاں پر بھارت کی فوج چوکیوں پر موجود تھی اور بائیں طرف آزاد جموں کشمیر اور درمیان میں دریائے نیلم بہ رہا تھا۔مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کی گولیوں سے مسافروں کو بچانے کے لیے اُن کی چوکیوں کے سامنے سڑک پر کنکریٹ اور لکڑی کی باڑلگائی گئی تھی۔ کیل سے آگے طاؤبٹ کا راستہ بہت دشوار اور خطرناک تھا۔ بہت تنگ اور کچا راستہ جسے بارشوں نے کھنڈرات بنا رکھا تھا۔ فور ویل گاڑی بھی ماہر ڈرائیور کی مہارت کا امتحان تھا۔ انتہائی خطرناک موڑ پر مشتمل تنگ راستہ تھا۔ جسے دیکھ کر 1989ء سے جاری مسلح جدوجہد میں مجاہدین کا سفر یاد آیااورجب وہ برف پوش پہاڑوں میں چھپ چھپ کر بارڈر کراس کیا کرتے ۔ برف کی وجہ سے کتنے مجاہدین کی ٹانگیں اور بازو شہید ہوئے۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کی آزادی کے لیے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانی دی گئی ۔ اس دشوار گزار راستے پر سفر کرتے ہوئے ایک فخر بھی محسوس ہوا کہ یہ تو مجاہدین کا راستہ ہے ۔ یہ شہداء کی منزل ہے ۔ یہ تو وہی سفر اور راستہ ہے جس کے لیے جماعت اسلامی نے پاکستان ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ  کشمیر میں جان و مال کی ہر طرح سے قربانی دی۔ مگر ان ساری قربانیوں کو ہماری نااہل حکومتوں نے خاک میں ملا دیا ۔ آج مقبوضہ کشمیر، دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اُن کی آزادی کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ مگر ہم اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہیں۔ جلد ہی وہ دن آئے گا جب کشمیر آزاد ہوگا ان شاء اللہ۔

               طاؤبٹ میں نوجوان لڑکیوں کی تین روزہ تربیت گاہ تھی۔ اس دوردراز کے علاقے میں تین سو سے زائد خواتین و طالبات کا جمع ہونا باعث حیرت تھا۔ یہ سب خواتین میلوں پیدل سفر کر کے تربیت گاہ میں پہنچی تھیں۔ جب ہم کھچا کھچ بھرے ہال میں داخل ہوئے تو پاکستان زندہ باد، جماعت اسلامی زندہ باد ، کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے ہمار ا استقبال کیا گیا۔ ۔جامعۃ المحصنات لاہور سے فارغ التحصیل طالبات اور نگران اپر نیلم کی محنتوں کے نتائج خواتین و طالبات کے جوش و جذبہ ، اسلام اور پاکستان سے محبت کی صورت میں نظر آرہے تھے۔ واپسی پر اٹھمقام میں پریس کانفرنس اور نیلم یونیورسٹی میں سیمینار تھا۔ آزاد جمو ں وکشمیر کے چار روزہ دورے کے مشاہدات متاثر کن تھے۔ کشمیریوں کی پاکستان اور جماعت اسلامی سے والہانہ محبت کا اظہار جابجا نظر آیا۔ قاضی حسین احمد کے کشمیریوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ اُن کا نام لے کر وہ جس محبت ، وارفتگی اور شوق سے ذکر کرتے ،دل احساس تشکر سے لبریز ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔قاضی صاحب نے کشمیریوں کی جس طرح معاونت کی۔ اُن کو حق خود ارادیت دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔اُس پر ہر کشمیری شکر گزار تھا۔ اُن کی نظریں احترام سے جھک جاتیں اورآنکھیں جدائی کے غم سے نمناک ہوجاتیں۔

               ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی آواز سن کر مردو خواتین تڑپ کر گویا ہوئے کہ قاضی صاحب یاد آگئے ہیں۔ پھر والہانہ انداز سے ان کے ساتھ تعلقات کے واقعات بیان کرتے۔ بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ بندوں کی محنتوں کا قدر دان ہے دنیا  اورآخرت دونوں میں بدلا دیتا ہے۔ شرط صرف اخلاص کے ساتھ محنت ہے۔

کشمیری بہت مہمان نواز ، خوش خلق  اور مہذب ہیں۔ دشوار گزار راستے میں جس طرح خوش دلی سے ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں اور پھر شکریہ ادا کرتے ہیں ، یہ قابل تقلید ہے۔

طاؤبٹ میں ہم رات کو دروازے اور کھڑکیاں کھول کر سوئے ۔ راستے میں چوری اور ڈکیتی کا خطرہ نہیں ہے۔ امن و امان کی فضا ہے۔ پاکستان ، افواج پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت ہے۔ تنگ و تاریک، دشوار گزارراستے پر سفر کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ راستے میں کوئی خطرہ تو نہیں ہوگا۔ میزبانوں نے جواب دیا کہ نہیں، راستہ محفوظ ہے۔

پاک آرمی کے نوجوان مستقل پہرہ دیتے ہیں ۔ اس لیے جان ،مال ،عزت و آبرو محفوظ ہے۔ ہر چوکی پر خوش اخلاق جوان آئی ڈی کارڈ چیک کر کے اندراج کرتا اور آگے بڑھنے کے لیے راستہ دیتا۔ کشمیری آپریشن" بنیان مرصوص" کی کامیابی پر بڑے خوش تھے اور پُر اُمید بھی  کہ پاک آرمی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروائے گی۔ ان شاء اللہ

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے