میاں منیر احمد
کشمیر کی وادی میں اتریں تو ہمیں شہداء کے پاکیزہ خون کی خوشبو آتی ہے، جیسے یہاں قبرستانوں میں پھول دفن کیے گئے ہوں۔ یہ واقعی پھول ہی دفن کیے گئے ہیں۔ یہاں کے قبرستان معصوم بچوں، عفت مآب خواتین، بزرگوں اور جوانوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ قبرستان کی چار دیواری سے باہر دیکھیں ہمیں مودی کا ظلم اور اس ظلم پر خاموش رہنی والی بھارت نواز قیادت نظر آتی ہے ایک طرف مودی اور اس کے ہامیوں کا ظلم ہے اور دوسری جانب مظلوم، جو گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے لیے کسی اچھے وکیل کی تلاش میں ہیں اور انہیں کسی ٹیپو سلطان کا انتظار ہے ایسا ٹیپو سلطان نہیں، جس نے جمعہ جمعہ خاموش احتجاج کیا، کسی ایسے ٹیپو سلطان کی تلاش ہے جو ایک دن جیے اور دشمن پر ایسے زخم لگائے کہ ہزار سال تک دشمن اپنے زخم سہلاتا رہے۔
پانچ اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے اقدام کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں اور چھٹا سال شروع ہوگیا ہے، انتہا پسند مودی، جسے گجرات کے قصاب کا خطاب ملا ہوا ہے ، اسی نریندر مودی نے اپنے آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر پر ایک کاری وار کیا تھا، اس اقدام کے ذریعے بھارت میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی اور وادی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے لداخ کو کشمیر سے الگ کر دیا گیا اور اسے وفاق کا زیر انتظام علاقہ قرار دے کر اس کی الگ قانون ساز اسمبلی بنانے کا اعلان کیا گیا جب کہ جموں کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت حاصل خصوصی ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا۔ بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والوں کے علاوہ کوئی دوسرا فرد اس ریاست کی شہریت حاصل نہیں کر سکتا تھا اور کسی بھی دوسری بھارتی ریاست کے شہری کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں جائداد خرید سکے یا یہاں کا مستقل شہری بن سکے یا ریاست جموں و کشمیر کی ملازمتوں میں حصہ دار بن سکے۔ ان دفعات کے ذریعے بھارت کے زیر قبضہ رہنے کے باوجود کشمیری عوام کے بہت سے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا اور اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا تھا کہ بیرون کشمیر سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا نہ جائے، اس طرح اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اگر رائے شماری کا مرحلہ آئے تو بھارتی حکومت بیرون کشمیر کے لوگوں کے ذریعے خطہ میں اس رائے شماری پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
دفعات 370 اور 35 اے کی موجودگی میں خارجہ امور، سلامتی اور کرنسی کے اختیارات تو بھارت کی مرکزی حکومت کو حاصل تھے مگر دیگر تمام اختیارات جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت کے پاس تھے حتیٰ کہ جو دو دفعات بھارتی آئین سے نکالی گئی ہیں وہ بھی اس وقت تک ختم نہیں کی جا سکتیں جب تک ریاستی اسمبلی ایسا کرنے کی قرار داد منظور نہ کرے مگر مودی حکومت نے ان حالات میں یہ دفعات بھارتی آئین سے خارج کر دیں اور اب بھارتی سرکار ریاست کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات میں مصروف ہے، ہم نے اس کا جواب کیا دیا؟ صرف ہر جمعہ کے روز صرف آدھے گھنٹے کا احتجاج، اور یہ سلسلہ بھی تین جمعہ تک جاری رہا اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، اور اب تو چراغ بھی نہیں رہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کی سفارش کی ہے، یہ علاقہ کشمیر کا حصہ ہے، اور پوری قوم میں مجال ہے کسی نے اس کا نوٹس لیا ہو کہ ہم کر کیا کررہے ہیں؟
پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو اب چونکہ پانچ سال مکمل ہو چکے ہیں اس کے باوجود پوری ریاست فوجی محاصرے میں ہے مگر نوجوان نسل کے حوصلے بلند ہیں، بڑی تعداد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور عقوبت خانوں میں اذیتوں سے گزارے جانے کے باوجود کشمیری مسلمانوں کا جذبہ آزادی سرد نہیں کیا جا سکا عزیمت اور استقامت کے کوہ گراں سید علی گیلانی اور ان کے جانشین اشرف صحرائی بھارتی نظر بندی میں اپنی جانیں جاں آفریں کے سپرد کر چکے ہیں بھارتی فوج اور حکومت آج بھی ان کے نام سے خوفزدہ ہے کیونکہ ان کا بلند کردہ نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ آج بھی مقبوضہ علاقے کے گلی کوچوں میں گونجتا ہے، بھارتی خواتین، بچے اور بوڑھے بھارت سے اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اور بھارت کے یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر یوم سیاہ مناتے ہیں جب کہ پاکستان کے یوم آزادی چودہ اگست پر پاکستانی پرچم مقبوضہ وادی میں جابجا لہراتے دکھائی دیتے ہیں جو کشمیری مسلمانوں کی پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں قطعی غیر جمہوری، ظالمانہ اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا 58 فی صد رقبہ لداخ، 28 فی صد جموں اور 16 فی صد وادی کشمیر پر مشتمل ہے، مودی حکومت نے مسلم تشخص کو مجروح کرنے کے لیے جنیوا کنونشن کی شق 49 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مردم شماری کو بہانہ بنا کر اکثریتی علاقوں کی اسمبلی میں نشستیں 83 سے بڑھا کر 90 کر دی ہیں جب کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی نشستوں میں صرف ایک کا اضافہ کیا گیا ہے یوں ریاست کے مسلم تشخص کو مسخ کرنے کی دیدہ دانستہ کوشش کی گئی ہے، بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کی 56 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر ناجائز اور جابرانہ قبضہ کر رکھا ہے، نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت 55 لاکھ سے زائد ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا گیا ہے، پانچ لاکھ پنڈتوں کو بسانے کے لیے اسرائیل کی طرز پر کالونیوں کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے، ہندو اکثریت پر مشتمل ایک نیا ڈویژن بنانے کی تیاریاں بھی آخری مراحل میں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مختلف قوانین میں تبدیلیوں کے ذریعے بھی ریاست کے مسلم اکثریتی حیثیت کو ہندو اکثریتی حیثیت میں بدلنے کے منصوبے پر تیز رفتاری سے عمل جاری ہے تاکہ ریاست کو عوام کی خواہشات کے برعکس بھارت کا حصہ بنایا جا سکے اپنے گھنائونے منصوبے کی تکمیل کے لیے بھارتی حکومت تمام گھٹیا حربے استعمال کر رہی ہے مگر کشمیری عوام کے حوصلے پست کرنے میں قطعی ناکام ہے چنانچہ پانچ اگست کے موقع پر ایک بار پھر کشمیر کی حریت قیادت نے ’’یوم سیاہ‘‘ مناتے ہوئے پانچ اگست 2019ء کا اقدام واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارتی تسلط کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا اور شہدا کے مشن کو ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔ کشمیری عوام نے جان و مال، عزت و آبرو اور ہر طرح کی قربانیاں دے کر اپنے جذبہ آزادی کو زندہ رکھا ہے مگر افسوس پاکستان میں سرکار کی سطح پر اب ان کے لیے ماضی جیسا جذبہ نہیں مل رہا اور اقوام متحدہ بھی ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم، کی کیفیت سے دو چار ہے۔
بشکریہ جسارت