’’انشا مشتاق‘‘ کشمیری ہیں۔ لیکن ساری دنیا کے لیے عزم و ہمت کی مثال ہیں۔ یہ اُن کشمیریوں میں شامل تھیں جن کو پچھلے سال انڈین فوجیوں نے پیلٹ گن کا نشانہ بنایا تھا۔ خاص طور سے ان میں جن کی دونوں آنکھوں کی بینائی پیلٹ گن کے چھروں کے باعث ضائع ہوئی اور معلوم ہوا کہ معصوم انشا اب کبھی نہیں دیکھ سکیں گی۔ وہ عمر بھر کے لیے نابینا ہوگئیں۔ یہ تکلیف دہ حقیقت انشا اور ان کے گھر والوں کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔ لیکن بہادر انشا نے حوصلہ نہ ہارا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھیں گی اور آج انشا نے دسویں کلاس کا امتحان پاس کرلیا۔ انشا کے والد مشتاق احمد کہتے ہیں کہ ’’جب انشا نے کہا کہ وہ پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہیں تو ہم پریشان ہوگئے تھے اور آج ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔
2016ء میں انڈیا نے عوامی مزاحمت کو دبانے کے لیے چھروں والی شکاری بندوق کا بے تحاشا استعمال کیا جس سے سیکڑوں کشمیری آنکھوں سے محروم ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ چھروں کے زخمی عالمی توجہ کا مرکز بنے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ چھروں کی بندوق پر پابندی عائد کی جائے لیکن یہ سب بے کار ہی رہا۔ آج بھی انڈین فوجیں کشمیر میں اس بندوق کا استعمال کررہی ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا غیر انسانی سلوک عالمی طاقتوں کو قابل اعتراض محسوس نہیں ہوتا نہ ہی وہ بھارت پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے زور ڈالتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی کمزوری دیکھیے کہ حافظ محمد سعید کو نظر بند کردیا گیا اور کہا گیا کہ ایسا اقوام متحدہ کی قرار داد کے باعث کیا گیا ہے۔ حالاں کہ بھارت کشمیر میں روز اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کررہا ہے، انسانی حقوق ہی نہیں انسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے، لیکن نہ اقوام متحدہ کو یہ سب نظر آتا ہے اور نہ وہ اس کو اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے مجبور کرتا ہے۔ کشمیر میں بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی روایت پرانی ہے۔ کشمیری کہتے ہیں کہ ’’بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانا ہمارا حق ہے، کیوں کہ بھارت نے ہمارے جمہوری حقوق سلب کر رکھے ہیں، بھارت نے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا لیکن ستر سال ہوگئے ہمیں آج تک یہ موقع نہیں فراہم کیا گیا‘‘۔ اس دفعہ یوم جمہوریہ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہوا جب لندن میں کشمیریوں اور سکھوں کا مشترکہ احتجاجی مظاہرہ ہوا اور بھارتی حکومت تلملا اُٹھی۔ تلملاہٹ میں کتنا اضافہ ہوا؟؟ یہ معلوم نہیں ہوسکا جب مقبوضہ کشمیر کے ممتاز عالم دین مفتی صلاح الدین نے بھارت میں ایک اور آزاد مسلم ملک کی تشکیل کا مطالبہ کر ڈالا۔ انہوں نے دلیل دی کہ ستر سال ہوگئے ہیں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ یہ تو ہونا ہی ہے کہ جموں و کشمیر بھارت سے علیحدہ ہو لیکن بھارتی مسلمانوں کا بھی ایک الگ وطن ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں کو نہ صرف دبا کر رکھ جارہا ہے بلکہ انہیں ووٹ کے حق سے بھی محروم کرنے کی سازش ہورہی ہے، انہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے اور ہر شعبے میں ان کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے۔
ان ساری باتوں پر دو رائے تو نہیں ہے یہاں تک کہ خود ہندوستان کے ہندو بھی پوچھ رہے ہیں اور وہ بھی سرکاری افسر یعنی مجسٹریٹ کہتے ہیں ’’عجب رواج بن گیا ہے مسلم محلوں میں جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاؤ کیوں بھئی؟ وہ پاکستانی ہیں کیا؟۔ دراصل اس دفعہ یوم جمہوریہ کے موقعے پر ہندو قوم پرستوں نے یہ نئی بدعت ایجاد کی کہ ریلی لے کر مسلمان محلے میں پہنچ گئے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے۔ مجسٹریٹ نے اس پر پوچھا کہ کوئی بتاؤ کہ کیا وہ پاکستانی ہیں؟؟ پھر یہ بھی پوچھا کہ ’’چین کے خلاف کوئی کیوں نہیں نعرہ بلند کرتا حالاں کہ وہ تو زیادہ بڑا دشمن ہے۔۔۔ بھلا ترنگا لے کر چین مردہ باد کیوں نہیں؟؟۔
واقعی سنجیدہ سوال ہے اگر کوئی جواب دینے والا ہے تو۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پچھلے ہفتے ریٹائرڈ سرکاری افسران نے وزیراعظم کو کھلا خط لکھا کہ ’’ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘‘۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق سیکرٹری صحت، سابق سیکرٹری اصلاحات و نشریات، سابق چیف انفارمیشن سمیت 67 بیورو کریٹ شامل تھے۔ انہوں نے اپنے خط میں ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے قتل کے واقعات کا بھی ذکر کیا جن میں مسلمان مارے گئے تھے۔ یہ واقعات بھارتی وزیراعظم مودی کے لیے تنبیہہ ہیں۔ پھر بھارت میں فری خالصتان، فری آسام، فری ناگالینڈ اور منی پور کے علاوہ بھی پندرہ کے قریب آزادی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت بجائے اپنے حالات کو سدھارنے کے امریکا کی آشیر باد پر افغانستان میں داخل ہوگیا ہے، افغانستان میں داخلے کے بعد روس پھر روس نہیں رہا تھا تو پھر بھارت نہ روس سے زیادہ طاقت ور ہے نہ طالبان اس وقت سے زیادہ کمزور ہیں۔ دیکھیے وقت کیا رنگ دکھاتا ہے اور کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت سے اور کتنی ریاستیں آزاد ہوتی ہیں!!!۔