November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

کشمیریوں کا یوم سیاہ، عالمی پیغام

بھارت کے یو م جمہوریہ پر اس سال بھی مصنوعی جمہوریت کے ڈسے ہوئے مظلوم کشمیریوں نے یوم سیاہ منا کرا یک بار پھر ثابت کیا ہے کہ کشمیریوں کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس موقع پر نہ صرف کنٹرول لائن کے دونوں طرف بلکہ دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے احتجاج کیا اور بھارت سے آزادی کے نعرے لگائے۔ مقبوضہ وادی میں ہر جگہ سیاہ جھنڈے لہرا دیے گئے اور گھروں پر پاکستانی پرچم اپنی بہار دکھاتے رہے۔ پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔ بھارتی حکومت نے لاکھوں فوجی مسلط کر کے مقبوضہ علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے اس کے باوجود کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کچلنے میں ناکامی رہی ہے اور ناکام رہے گی۔ گزشتہ جمعہ کو سری نگر کی جامع مسجد میں مسلمانوں کو نماز جمعہ بھی ادا نہیں کرنے دی گئی۔ متعدد حریت پسند رہنما جیلوں میں ہیں یا طویل عرصے سے گھروں میں نظر بند ہیں۔ اس کے باوجود جب کوئی کشمیری بھارتی درندوں کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے تو اس کے جنازے میں ہزاروں کشمیری شریک ہوتے ہیں اور عموماًتابوت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر اپنے عزائم کا اعلان کیا جاتا ہے کہ انتہائی ظلم و ستم کے باوجود کشمیری پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ یہ وہ نوشتۂ دیوار ہے جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہر کے دور سے آج تک نمایاں ہے لیکن کوئی بھارتی حکمران اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد موجود ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور کشمیریوں کو آزادانہ حق خود ارادیت دیا جائے۔ اس قرار داد میں کشمیریوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ یا تو بھارت سے الحاق کریں یا پاکستان کے ساتھ۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے برہمن وزیر اعظم پنڈت نہرو کا یہ وعدہ ریکارڈ پر ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیں گے گو کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا فیصلہ کیا ہوگا۔ پنڈت نہرو کو کشمیریوں کے فیصلے کا علم تھا اس لیے وہ اپنے وعدے کو ٹالتے رہے اور اس کے بعد تو بھارت میں جو بھی حکمران آیا اس نے اقوام متحدہ کی قرار داد کو الماری میں بند کر کے رکھ دیا۔ خود اقوام متحدہ نے بھی کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ قرار دادپر عمل کیوں نہیں ہوا۔ اور پاکستان کہتا ہے کہ سلامتی کونسل کشمیر و فلسطین سے متعلق قرار دادوں پر عمل کرائے ورنہ اقوام متحدہ کی ساکھ خراب ہوگی اور اس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ یہ بھی اچھا مذاق ہے، اقوام متحدہ کی ساکھ ہے ہی کہاں کہ خراب ہوگی۔ اس پر اعتماد کرنے والے شاید احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ورنہ جہاں کسی مسئلے میں ایک فریق مسلمان ہو وہاں اقوام متحدہ کہیں نظر نہیں آتی البتہ امریکا اس کی اجازت کے بغیر کبھی افغانستان پر اور کبھی عراق پر حملہ کردیتا ہے، اجازت بعد میں لے لیتا ہے۔ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی کسی قرار داد پر عمل نہیں ہوسکا کیوں کہ اسرائیل کی خاطر امریکا ایسا نہیں چاہتا۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل یکساں ہیں۔ ایک بھارت کے جبر کا شکار ہے اور دوسرے پر صہیونیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جس دن کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ منا رہے تھے اسی دن فلسطینی اسرائیل اور امریکا کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور امریکا اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کررہا تھا۔ امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر ڈاکٹر خالد محمود نے دورہ کراچی میں کہا ہے کہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی کمزوری کے سبب مسئلہ کشمیر اہمیت حاصل نہیں کرسکا، پاکستان اس مسئلہ پر مستقل نائب وزیر خارجہ مقرر کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل ہی سے جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ لیکن نام نہاد بڑی طاقتیں کب اس خطے میں امن چاہتی ہیں ۔ مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین ، دونوں ہی برطانوی سازشی ذہن کی پیداوار ہیں ۔ اب امریکا برطانیہ کی نمائندگی کررہاہے۔ پاکستان صرف کشمیر کمیٹی بنا کر مطمئن ہوگیا ہے۔

بشکریہ جسارت