November 23rd, 2024 (1446جمادى الأولى21)

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی

ابراہیم مغل
2017ء جس طور ایک کے بعد دوسری شورش بپا کرتا ہوا گزرا، اس کی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ جاتے جاتے اپنے اواخر میں اس نے بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان سے پوری دنیا کو ہل چل سے دو چار کیا۔ اسی سال کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی جس طور پامالی ہوئی، اس پہ خاموش رہنا بھی اہل کشمیر سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے زمرے میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں 2018ء کا آغاز مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی سے کرنا چاہ رہا ہوں۔ مگر جس طرح سے گزشتہ ماہ دس دسمبر کو نہتے کشمیریوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس پر اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ضروری ہے۔ دس دسمبر پوری دنیا میں یوم انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے۔ چناں چہ اس روز مقبوضہ کشمیر میں مشترکہ مزاحمتی قیادت کی اپیل پر ہڑتال کی گئی جس سے زندگی تھم گئی۔ مگر بھارتی فورسز نے اپنے گھناؤنے مظالم کی پردہ پوشی کی غرض سے کاروبار زندگی کو زبردستی متحرک کرنے کی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں 22 افراد زخمی ہوگئے۔ حریت رہنما یاسین ملک کو گرفتار کرلیا گیا جب کہ وادی میں ہمہ گیر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوئی، کاروباری مراکز بند اور سڑکوں پر ہو کا عالم رہا۔ بھارتی فورسز نے انسانی حقوق کے عالمی دن پر حریت قیادت کو حیدر پورہ میں سیمینار کی اجازت نہیں دی، اقوام متحدہ کے مبصر مشن کو بھی روک دیا جب کہ احتجاجی پروگرام ناکام بنانے کے لیے قائدین کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بدستور نظر بند رہے۔ اس دوران انٹرنیٹ موبائل اور سروس معطل رہی حتی کہ ریل سروس بھی بند کردی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ا قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا یونیورسل ڈیکلیریشن منظور کیا تھا اور 1950ء میں جنرل اسمبلی نے ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے طور پر منانے کے لیے باقاعدہ قرارداد منظور کی تھی۔ تاہم افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی انسانی حقوق کی بدترین پامالی عشروں سے جاری ہے حتیٰ کہ کشمیری عوام کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر بھی اپنے حقوق پر احتجاج کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر ریاستی تشدد کو پوری دنیا نے دیکھا جس پر ہر آنکھ اشک بار رہی۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زیادہ سیکورٹی فورسز رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود خوفزدہ رہتا ہے اور اس کی مثال ایسے مواقع پر دیکھنے کو ملتی ہے جب کشمیری حریت پسند آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے ان کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ ایسے مواقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں اور احتجاجی پروگرام ناکام بنانے کے لیے بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی بڑی تعداد اہم مقامات پر تعینات کی جاتی ہے۔ لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے تاہم لوگوں کی بڑی تعداد تمام تر بندشوں کے باوجود سڑکوں پر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کرتی ہے اور امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم کے پتلے بھی نذرآتش کیے جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے ہر منشور کے مطابق احتجاج کرنا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے لیکن آج کے اس جدید دور میں مقبوضہ کشمیر کے شہریوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی سست روی کے باعث اس مسئلے کا پُر امن تصفیہ نہیں ہوسکا۔ بھارت نے تمام اصول و قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ تو کرلیا لیکن وہ جذبہ آزادی کو کشمیریوں کے دلوں سے نہ نکال سکا۔ اب تک وادی میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہری شہید کیے جاچکے ہیں، ہزارہا خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا جاچکا ہے اور تشدد کے تمام تر طریقے آزمائے جاچکے ہیں لیکن کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کم نہیں کیا جاسکا۔ ممنوعہ پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال بھی جاری ہے جس سے اب تک کئی ہزار بچے اور بڑے بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ یہ چھرے جسم کے مختلف اعضا میں پیوست ہوجاتے ہیں اور مریض زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بھارت عالمی مبصرین کو بھی وادی میں داخلے سے روکے ہوئے ہے۔ تاہم یہاں ایک چبھتا ہوا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی مبصر ین اقوام متحدہ کی نظر اپنے وہاں داخلے پہ پابندی کی جانب کیوں مبذول نہیں کراتی۔ اس پر امریکا اور مغرب کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ امریکی اور مغربی ممالک میں جہاں جانوروں کا بھی خیال کیا جاتا ہے اور ان کے بھی حقوق ہیں، وہی ممالک مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پر مظالم کو دیکھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ کشمیری عوام کا واحد مطالبہ بھارتی جبر و استبداد سے آزادی ہے اور ان کا یہ حق ہے کہ بزور طاقت نہیں چھینا جاسکتا۔ انسانی حقوق کا عالمی دن منانا جدید ممالک کے لیے ایک رسم بن چکا ہے اور اس کا حقیقت اور عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ جبھی تو مسلمان دنیا کے مختلف حصوں میں ظلم و ستم کا شکار ہیں اور کوئی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ دنیا میں امن کے ٹھیکیدار ممالک کو چاہیے تھا کہ وہ دنیا میں جہاں جہاں ظلم کی داستانیں رقم ہورہی ہیں اور جہاں جہاں انسانی حقوق غصب کیے جارہے ہیں، وہاں حقوق دلانے کے لیے کسی پلیٹ فارم پر نہ سہی، انفرادی طور پر ہی آواز اٹھاتے تاکہ یہ ثابت ہوتا کہ مہذب ممالک واقعتا انسانی حقوق کی پامالی کو ایک جرم گردانتے ہیں اور اس کے خلاف ایکشن لینے کو تیار ہیں۔ تاہم دس دسمبر کے روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وحشیانہ پن ایک مرتبہ عروج پر رہا اور بھارت نے ثابت کردیا کہ اس کا سیکولرازم سے دور کا واسطہ نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بھارتی دہشت گردی قابل مذمت ہے، دس دسمبر انسانی حقوق کا دن ایک فیشن سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہو پائے گی، بلکہ اقوام متحدہ کی دنیا میں موجودگی ایک سوالیہ نشان بن کے رہ جائے گی۔