November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

تحریکِ کشمیر کا موجودہ مرحلہ اور تقاضے

سیّد علی گیلانی

جموں و کشمیر میں جبری بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رواں عوامی تحریک نے بھارت اور اس کے مقامی گماشتوں کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی فورسز اور پولیس فورس ریکارڈ توڑ مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بھارتی سفاک فورسز نہتے لوگوں کو  گلی کوچوں ، سڑکوں ، بازاروں اور گھروں میں گھس کر بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے میں مصروف ہیں۔ بلالحاظ عمر لوگوں کو بے رحم اور انسان کُش قوانین کے تحت گرفتار کر کے پابندِ سلاسل بنانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
جموں وکشمیر میں جاری قتل وغارت اور درپردہ خفیہ منصوبہ سازی،بھارتی بوکھلاہٹ کی عکاس ہے۔بھارت اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ یہاں تعینات کی گئی سات لاکھ سے زیادہ فوج کے بل بوتے پر قابض ہے اور یہی ٹڈی دَل فوج ہماری آزادی کی راہ میں سد راہ ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہم اس مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ اس اَن تھک اور دلیرانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس میں جموں وکشمیر کے لوگوں نے بے باک مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے فوجی قبضے میں وحشت ناک مظالم کا مقابلہ کر کے، اس بات کا ثبوت پیش کیا ہے کہ لوگوں کے عزم واستقامت کے سامنے نہ کوئی قابض فوج مزاحم ہوسکتی ہے اور نہ طاقت کے بل پر دبایا جاسکتا ہے۔
رواں عوامی تحریک کوئی حادثاتی واقعہ نہیں ہے کہ جس کا تعلق محض ایک صدمہ انگیز واقعے سے ہو، بلکہ یہ جموں وکشمیر کے لوگوں کی، بھارت کے جبری قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کا تسلسل ہے۔ کمانڈر برہان مظفر وانی شہید اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت پر لوگوں نے گھروں سے نکل کر والہانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں اپنے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ترال کی جانب مارچ کیا اور ان کے مشن کے ساتھ وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔
اس وقت سے لے کر آج تک تحریک آزادی کے ساتھ وادی کی ہر بستی ، ہر قصبے ، ہرشہر ، ہرسڑک اور ہر بازار میں جس جذبے اور وابستگی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ ا س حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے اور بھارت کے درمیا ن اگر کوئی تعلق ہے، تو وہ صرف مظلوم وظالم ، مقہور و قابض اور مجبور وجابر کا ہے۔ بھارت نے متعدد شکلوں میں اپنے جو گماشتے تیار کر رکھے تھے، وہ اس عوامی تحریک کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہم نے بار بار یہ کہا کہ یہ مفادات و مراعات یافتہ اور ہندنواز طبقہ کلہاڑی کے دستے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قابض بھارت کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کو مضبوط بنانے کے علاوہ بھارتی فورسز کی وحشت ناک قتل وغارت گری اور شرم ناک  ظلم وجبر اور لوگوں کو اپاہج اور اندھا بنانے جیسے مظالم کا جواز پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔
رواں عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر لی ہے، جس سے بھارت حواس باختہ ہو چکا ہے۔ اس کے حکومتی ایوانوں ، پارلیمنٹ اور متعصب میڈیا چینلوں میں ہلچل بپا ہے۔ اس عوامی تحریک نے بھارتی مکروفریب پر مبنی فوجی منصوبوں کو ہلاکے  رکھ دیا ہے۔ حصولِ آزادی کے لیے ہمارے عزم راست کے سامنے ان کے شیطانی منصوبے اور فریب کاری مات کھا رہے ہیں۔
 موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک اور بالخصوص ۱۹۸۹ء کے بعد سے اپنے ان جانباز شہیدوں ،مجاہدوں اور محسنوں کی بیش بہا قربانیاں یاد رکھیں، جو انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو پروان چڑھانے کے لیے پیش کی ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں پوری دنیا ورطۂ حیرت میں پڑگئی کہ اب جموں و کشمیر کے لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ پُرزور تحریک آزادی کشمیر عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے جواب میں بھارت نے طویل ظلم وتشدد اور جبرو سفاکیت کا مسلسل بازار گرم کیے رکھا ہے۔ قتل وغارت گری ، لوٹ مار، گھیرائو جلائو، عصمت دری اور کُشت وخون سے پوری ریاست کو لالہ زار بنا دیا گیا ہے۔ بھارتی سفاکوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں اہل کشمیر،  تحریک آزادی سے دست بردار ہو جائیں گے اور بھارت کی غلامی پر رضامند ہو جائیں گے ۔ لیکن ہمارے مجاہدین اور بہادر عوام نے عظیم قربانیاں دے کر بھارتی منصوبوں کو ناکام بنا کر، تحریک آزادی کی شمع فروزاں رکھی ہے۔ عام شہریوں اور ہتھیار بند مجاہدین میں کوئی تمیز کیے بغیر بھارتی فورسز  گھپ اندھیروں میں اور دن دہاڑے بے تحاشا قتل عام انجام دیتی رہیں۔ بھارت کے اس ظلم وجبر کے باوصف ہر موقعے پر جذبۂ مزاحمت کے پیکر ہمارے بزرگوں اور نئی نسل نے بھارتی فوجی قبضے کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت جاری وساری رکھی ہے۔
گذشتہ دو عشروں کے دوران بھارت نے بچوں اور خواتین سمیت ہمارے لاکھوں لوگوں کو شہید کر ڈالا ہے۔ ۱۰ ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کر کے لاپتا کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچوں کو یتیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کو بیوائوں اور نیم بیوائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جوانوں اور بزرگوں کو ٹارچر سیلوں میں اپاہج اور معذور بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید یا لاپتا کر دیا ہے۔ بھارت کی اس سفاکیت نے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا جذبۂ آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ہم ان الم ناک واقعات و حوادث کے باوجود آج بھی اپنی آزادی کے مطالبے کو لے کر پوری جاںفشانی کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہمارے دل جذبۂ آزادی سے سرشار ہیں۔  ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۰ء اور اب۲۰۱۶ء سے اُبھار پانے والی عوامی تحریک نے ہماری جدوجہد آزادی کو نئی زندگی اور نئی قوت بخشی ہے۔ قابض بھارت کے پاس دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے، جس میں سے سات لاکھ سے زیادہ فوجی صرف جموں وکشمیر میں تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس کے مقابلے میں نہ ہمارے پاس کوئی فوجی طاقت ہی ہے، نہ وسائل وذرائع ہیں اور نہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت ہے۔ اگر ہمارے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور ہماراجذبۂ مزاحمت ہے۔ ہماری سب سے بڑی قوت اللہ پر توکل اور تحریک کی صداقت ہے۔ ہماری طاقت ہمارا باہم اتحاد اور اعتماد او ر غلامی کی ذلّت سے آزادی حاصل کرنے کا عزمِ صمیم ہے۔ ہماری فتح ونصرت کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی قابض فوج کو کشمیر میں آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے عمر رسیدہ خواتین اور بزرگوں، چار چار سالہ معصوم بچوں پر فائرنگ اور جواں سال کالج اساتذہ کو لاٹھیوں اور بندوق کے بٹوں سے تشدد کرکے اَبدی نیند سلانا پڑتا ہے۔ اگر ۷۰سال کے فوجی قبضے کے بعد بھی بھارتی فوجی اہلکاروں کو ایک نہتی عورت اور ہاتھ میں چھوٹا سا پتھر اٹھانے والے کمسن بچے کو کشمیر کو بھارت کے جبری قبضے میں رکھنے کے لیے گولیوں سے بھون ڈالنا پڑتا ہے، تو آپ خود ہی بتائیے کہ اس سے بڑھ کر ان کی بدترین شکست کی اور کیا مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
کوئی بھی تحریک قربانیوں کے بغیر منزل کی طرف رواں نہیں رہ سکتی۔ہماری تحریک قربانیوں سے مزین ہے۔ ہم نے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ ہمارے بچے قابض بھارتی ٹارچر سنٹروں میں تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں۔ بزدل بھارت ہمارے بچوں کو منصوبہ بند انداز میں اندھا بنا رہا ہے۔ ہم نے اپنی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو معطل کرکے، ظلم کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا مزدور ، کاشتکار ، ٹرانسپورٹر ، بڑھئی، غرض معاشرے کا ہر طبقہ ہر لحاظ سے قربانیاں پیش کر کے ہماری تحریک کا ہر اول دستہ ہے ۔ یہ تحریک، یہاں کے  ایک ایک فرد کے دل کی آواز ، آرزو اور تمنا کا مظہر ہے۔ چاہے کوئی فرد درس وتدریس ، تجارت ، ڈاکٹری ، نوکری یا کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اس کے دل کی اُمنگ آزادی ہے۔ ہماری یہ قربانیاں آزادی کی اس عمارت کے پیوست اور راست ستون ہیں۔
رواں عوامی تحریک کے دوران لوگوں نے جس باہمی اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینے کا آغاز کیا ہے ۔ ہمارے گلی کوچوں سے لے کر ہمارے قائدین تک، ہم تحریک آزادی کے لیے یک جا اور یک سو ہیں۔ حالاں کہ ہمیں باربار سخت کرفیو میں جکڑا جارہا ہے۔ ہمیں جیلوں میں قید اور گھروں میں نظر بند کیا جارہا ہے۔ ہمیں تعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی ہم سے ہمارا   جذبۂ آزادی چھین نہیں سکتے اور ہمیں غلامی پر رضا مند نہیں کرسکتے۔ ہم ایک ہیں ، ہم متحد ہیں، اور ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے۔ ہمارا اتحاد واتفاق ہی ہمارے دشمن کی شیطنت کی موت ہے۔
ہماری تحریک میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان نے ہمارے محسن ، وکیل اور دوست ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ہمارا درد محسوس کیا ، ہمارے حق میں آواز بلند کی اور ہر سطح پر ہماری سفارتی اور اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے آزادی کے لیے آج جو زور دار آواز اٹھائی ہے، وہیں پاکستانی حکومت اور عوام بھی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر حمایت کرنے کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔    ہم عوامی جمہوریہ چین ، ناروے، سعودی عرب ، نیوزی لینڈ، ایران اور اسلامی تعاون تنظیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے حق میں آواز اٹھائی اور جموں وکشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کی مذمت کی۔ ترکی کی جانب سے بھارت کے خلاف اور ہماری تحریکِ آزادی کی غیر مبہم اور برملا سپورٹ کرنے پر ہم دل کی گہرایوں سے ان کے شکر گزار ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمیں خطوط لکھنے اور انھیں دنیا کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ہماری آزادی کی اُمنگ اور درد وکرب اور مظالم کی داستانیں، برہمنی قوم پرست صحافیوں اور قلم کاروں کے استحصال کا شکار ہوتی تھیں۔ ہم پر ٹوٹنے والی افتاد کی اصلی صورت حال، بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی تھی۔ سواے چند حقیقت پسند اور انسانیت دوست افراد کے، بھارت کی تمام میڈیا مشینری جھوٹ کا سہارا لے کر ہماری مبنی برحق وصداقت تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے موسوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی تھی۔ ہندستانی میڈیا دراصل بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا ترجمان ہے اور بھارت کا جموں وکشمیر پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے یہ ادارے حکومتی ڈکٹیشن پر من وعن عمل پیرا ہیں۔
ہمارے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے قلم کار اور مصنّفین، بڑی دلیری اور غیرمبہم طریقے سے بھارتی مظالم اور تحریک آزادی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کی وابستگی کی حقیقی صورت حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا ہماری سڑکوں ، گلی کوچوں اور ہسپتالوں سے حقیقی صورت حال کی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ ہم بین الاقوامی پریس کی طرف سے دیانت دارانہ انداز میں حقیقی صورتِ حال کو دُنیا کے سامنے پیش کرنے پر ان کے شکرگزار ہیں۔
آج، جب کہ ہم بہ حیثیت قوم، اجتماعی طور پر حصول آزادی کی تحریک میں یکسو ہو کر برسرِپیکار ہیں، وہیں ہم غاصب بھارت کے طرف دار گنتی کے ان مقامی مفاد پرست عناصر سے تحریکِ آزادی میں شامل ہونے کی ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں ۔ کیوںکہ اپنی قوم کے ساتھ دغابازی کا مرتکب یہ طبقہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ وہ تاریخ اور تحریک کی سچائی اور حقیقت کے مدمقابل کھڑا ہوکر محض ذاتی مفادات ومراعات کے لیے قابض بھارت کا آلۂ کار ہے۔     اس حیثیت سے وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بر سرِ جنگ ہو کر اپنی عاقبت کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ فریب خوردہ مقامی لوگ، فاشسٹ برہمن قوتوں سے اقتدار حاصل کرنے کے بہکاوے میں آئے ہیں،جنھوں نے ریاست جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔     یہ ہمارے ملّی اور دینی تشخص کو مٹانے کے در پے ہیں، اور ہم سے ہماری تہذیب اور ثقافت چھیننے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان مقامی فریب خوردہ عناصر کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ اس طرزِعمل سے باز آ جائیں اور اپنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر غداری اور دغا بازی سے کنارہ کش ہوجائیں، اور اس طرح اپنے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے تحریکِ آزادی کشمیر میں شمولیت اختیار کریں۔
ہم خصوصاً ان لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں،جو محض رزق کے چند ٹکڑوں کے لیے قابض بھارتی مشینری کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں، اور اپنے ہی لوگوں پر مظام ڈھانے اور تحریکِ آزادی کو کچلنے کے عمل کو فرض شناسی تصور کرتے ہیں ۔ میں ان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ظالم اور ظلم سے اجتناب کریں اور حق وصداقت کا ساتھ دیں تو اللہ آپ کے دلوں کو طمانیت اور سکون سے نوازے گا۔ اللہ آپ کے لیے رزق کی فراہمی کے ذرائع واسباب کشادہ کرے گا۔ ظالم وجابر کا مددگار بننے پر اللہ تعالیٰ نے خوف ناک انجام کی وعید سنائی ہے۔ اس لیے آپ قابض بھارتی قوتوں کا مدد گار بننے سے تائب ہوں، اور مظلوم قوم کی اجتماعیت میں شامل ہو کر جاری جدوجہد میں شریک ہوجائیں۔
وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ ہم مزاحمتی تحریک کے اس دور کو راسخ اور پیوست کریںاور سودے بازی کے بجاے مزاحمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں ۔ ترجیحات اور ذمہ داریوں کا ادراک کر کے تحریک آزادی کو مستحکم اور منظم کریں۔ ہماری اس مزاحمت اور قربانیوں نے تحریکِ آزادی کو کسی بھی ابہام اور شک وشبہے سے محفوظ کر دیا ہے ۔ تحریک تسلسل کا نام ہے ۔ ہم واضح اور شفاف تحریک، اور اس کی منزلِ مقصود کو ابہام اور دھندلاہٹ کا شکار نہ ہونے دیں۔ اس مقدس مشن کو  گم کرنے کی کوئی دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں اس مرحلے کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے ایک مشعل کی حیثیت دینا ہو گی۔ ہمیں فوراً اپنے گردونواح میں رواں تحریک میں متاثرہ افراد، اہل خانہ اور دیگر متاثرین تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بستی میں بیت المال قائم کر کے حاجت مندوں کی حاجت روائی کی جانی چاہیے۔ شہدا ، زخمیوں ، جیلوں میں بند ہم وطنوں اور ان کے لواحقین اور دیگر متاثرین کی جانب خصوصی توجہ کے ساتھ دل جوئی اور معاونت کا خیال رکھا جائے، تا کہ ہند نواز اور تحریک مخالف عناصر کے استحصال سے انھیں محفوظ رکھا جا سکے ۔
ہمارے ایمان، ہماری قوت، اتحاد اور عزمِ صمیم سے حواس باختہ ہو کر بھارت نام نہاد اور لایعنی بات چیت، ٹریک ٹو گفت وشنید اور ڈپلو میسی کا جھانسہ دے کر ہمارے ارادوں کو کمزور اور راے کو منقسم کرنے کی چال بازی کر رہاہے۔ یہ محض دکھاوے کی باتیں اور وقت گزاری کے حربے ہیں، جو اس کا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔ یہ انفرادی واجتماعی طور پر ڈراما رچانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ حالاںکہ وہ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہم صرف اور صرف بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی چاہتے ہیں اور ہم دیر سویر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے۔ ان شا اللہ!