November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

الخدمت،فلاحی ریاست

مظفر اعجاز
مختلف تقریبات میں جانے کا اتفاق تو ہوتا ہی رہتا ہے لیکن ایک تقریب ایسی تھی جس میں ایک اسپتال کا افتتاح ہونا تھا۔ اس کا کوئی مالک ہی نہیں اس کے لیے کوئی آمدنی کا نظام نہیں، مریضوں سے لمبی رقم اینٹھنے کا کوئی منصوبہ یا ارادہ نہیں لیکن اسپتال ایک سال سے چل بھی رہا ہے، او پی ڈی میں دو لاکھ سے زائد لوگ اس عرصے میں آبھی چکے اور یہ اب 35 بستروں والا اسپتال ماں و بچے کی صحت کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے کام شروع کرچکا ہے۔ گلشن حدید میں واقع فریدہ یعقوب الخدمت اسپتال کا باضابطہ افتتاح ہوا، الخدمت فاؤنڈیشن کے سینئر نائب صدر احسان اللہ وقاص مہمان خصوصی تھے۔ اس اسپتال میں مریضوں کا علاج اعلیٰ ترین معیار پر کم ترین فیس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ صاف ستھرے فلور، خوبصورت عمارت، باوقار کرسیاں، چاروں طرف پودے اور پھول غرض ایک مختصر سی جگہ پر بہترین ماحول۔ تقریب میں اسپتال کے لیے جگہ عطیہ کرنے والے خاندان کے نمائندے بھی تھے اور اسپتال کے لیے آلات، ادویات اور دیگر ساز و سامان عطیہ کرنے والے مخیر حضرات بھی یہاں دوران گفتگو پتا چلا کہ یہ الخدمت کا 22 واں باقاعدہ اسپتال ہے جب کہ چھوٹے موٹے کلینکس اور ہیلتھ سینٹرز اس کے علاوہ ہیں۔ اس بات پر اچانک خیال آیا کہ فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے اور اس کے کام کون کررہا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی حکومتوں نے یہ کام کیے ہیں۔ اخباری بیانات اور انتخابی منشور کو الگ رکھیں تو یہ بات کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی۔ اس کا کچھ مشاہدہ 1960ء کے عشرے میں ہوا کرتا تھا جب سرکاری ڈسپنسریوں میں بہترین معالج ہوا کرتے تھے، جب سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بہترین اساتذہ ہوتے تھے، پرائیویٹ اسکولز اور بین الاقوامی اداروں کے اسکولوں کا تو تصور نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ سرکاری اسکول اور کالج کے طلبہ پوزیشن لاتے اور نت نئے کارنامے کرتے تھے۔
الخدمت فریدہ یعقوب اسپتال کی تقریب سے واپسی میں ہم سوچ رہے تھے کہ جماعت اسلامی اور الخدمت نے کیا نہیں کیا، ایک ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ شہریوں کو صاف پانی فراہم کرنے، حکومت کے ادارے گٹر کا پانی پینے کے پانی میں ملا کر فراہم کررہے ہیں، فضلہ ملا ہوا پانی گھروں میں پہنچ رہا ہے اور الخدمت آر او پلانٹ لگا کر معمولی نرخوں پر لوگوں کوصاف پانی دے رہی ہے۔ پانی کے حوالے سے پورے ملک کے دیہی علاقوں، غریب بستیوں، تھر، سندھ کے دور دراز مقامات، اونچے پہاڑی علاقوں، پنجاب کے میدانوں ہر جگہ کنویں کھود کر فی سبیل اللہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ کہیں ٹیوب ویل ہے تو کہیں سادہ کنواں۔ صحت کا میدان تو الخدمت نے تقریباً فتح ہی کرلیا ہے، ملک کے طول و عرض میں بہترین لیبارٹریاں، جدید ترین مشینیں، بہترین ڈاکٹرز اور کم سے کم فیس یا اجرت یہ سب پورے ملک میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایک فلاحی ریاست اپنے ملک کے بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرتی ہے لیکن یہاں سرکاری شعبے میں موجود اسکول اوطاق بنے ہوئے ہیں یا کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ الخدمت کے پورے ملک میں بیٹھک اسکول اور جماعت اسلامی کے مختلف اداروں کے تحت چلنے والے سیکڑوں اسکول مناسب فیسوں کے عوض بہترین تعلیم دے رہے ہیں، ان اسکولوں میں تعلیم پانے والے اب عملی میدان میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ ایک ریاست اپنے یتیموں کی سرپرستی کرتی ہے اور یہ کام بھی نان اسٹیٹ ایکٹرو الخدمت بڑی خوش اسلوبی سے کررہی ہے۔ ہزاروں بچوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ان کی مکمل دیکھ بھال، تعلیم و تربیت کا انتظام الخدمت ہی کررہی ہے۔ اس تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان میں ایک نعرے روٹی، کپڑا اور مکان پر طویل عرصے سے سیاست ہورہی ہے اور اب لوگ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اس نعرے پر صرف سیاست ہورہی ہے لیکن الخدمت اور جماعت اسلامی نے بغیر نعرے کے یہ کام کر دکھائے ہیں۔ ملک بھر میں خوراک، راشن پیکٹ اور تیار کھانے فراہم کیے جاتے ہیں، زلزلوں اور دیگر آفات کے متاثرین کو تو فوری طور پر خوراک، کپڑے اور چھت فراہم کی جاتی ہے۔ جب کہ دور دراز کچی آبادیوں، سندھ، پنجاب،کشمیر، کے پی کے اور بلوچستان میں کم لاگت والے مکانات تیار کرکے لوگوں کے حوالے کرنے کا کام جماعت اسلامی اور الخدمت کے رضا کار کررہے ہیں۔ زلزلہ 2005ء سے اب تک الخدمت کے رضا کار وہیں موجود ہیں، ان کا عزم ہے کہ ایک ایک بے گھر کو بسا کر دم لیں گے۔ تعلیم کے حوالے سے اسکولوں کا نظام تو سامنے ہے ہی لیکن ہر سال اسکولوں کی چھٹیوں کے خاتمے کے وقت بچوں کو اسکول بیگ، یونیفارم، کتابیں فراہم کرنے کا کام بھی ہوتا ہے اور ضرورت مند بچوں کی فیسیں بھی ادا کی جاتی ہیں۔ اگر کسی سے موازنہ کیا جائے تو سارے دعویدار ناکام ثابت ہوں گے جو لوگوں کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کے سب سے پہلے دعویدار تھے۔ انہوں نے لوگوں سے تینوں چیزیں چھین لیں۔ جو زبان کی بنیاد پر حقوق دلوانے آئے تھے وہ حقوق سے بھی محروم کرگئے اور شناخت بھی بدل گئے۔ اب سید صاحب، پاجامے، ٹنٹے، لنگڑے کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ الخدمت اور جماعت اسلامی نے صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ بیرون ملک بھی قدرتی آفات اور حادثات کے متاثرین کی جس طرح مدد کی اور اپنے رضا کار ڈاکٹروں اور کارکنوں کو ان کی خدمت کے لیے بھیجا اس سے وہ سافٹ امیج قائم ہوا جس کا دعویٰ مختلف حکمران کرتے رہے۔ یہ حکمران ناچ گانے، مخلوط میریتھن اور ٹی وی اور فلم کے میلے کے ذریعے سافٹ امیج بناتے رہے اور الخدمت اور جماعت اسلامی کے سافٹ امیج کی وجہ سے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، عرب ممالک اور ایشیائی ممالک جاپان وغیرہ نے نہ صرف ان کے کاموں کو سراہا بلکہ بہت سے منصوبوں میں مالی تعاون کرکے اس کا اعتراف کیا۔ حکمران جماعت اسلامی اور الخدمت کی خدمات کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔اس سے بڑھ کر فلاحی ریاست اور کیا ہوگی۔