November 23rd, 2024 (1446جمادى الأولى21)

پاکستان میں اب اسلامی سیاست کا دور آنے کو ہے؟

تحریر: مظفر ربانی

مذہب سے خوف زدہ سیکولر سیاست دان اس وقت جس بدحواسی کا مظاہرہ کررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے بیرون ملک سے کوئی ارجنٹ کال آ گئی ہے اور کوئی ایسا کام ہے جو بہت عجلت میں کرنا ہے لیکن اس کے لیے فضا ان کے لحاظ سے سازگار نہیں ہے اس وقت ایک خاص طبقے کے اینکرز جس طرح بے وقت کی راگنی گا رہے ہیں وہ نہ صرف حیران کن ،پریشان کن بلکہ تشویش ناک بھی ہے ایک ایسے موقع پر جب عالم اسلام اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے اور روے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ نہ کر دیا گیا ہو، مسلمان جہاں جتنا کمزور پایا جاتا ہے دبا لیا جاتا ہے قتل کر دیا جاتا ہے بے گھر کردیا جاتا ہے ہجرت پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ زمین کا وہ حصہ جو سونا اگلتا ہے کہیں تیل اورکہیں معدنیا ت کی فراوانی ہے تو کہیں چاروں موسموں کی بہاریں یہ سب کچھ صرف اور صرف مسلمانوں کے زیر تسلط ممالک میں ہیں لیکن افسوس مسلمانوں نے ان قدرتی وسائل اور اللہ کی عنایتوں کی قدر نہ کی اور وہ زمین کی نصف دولت پر قابض ہونے کے باوجود سیاسی معاشی اور اقتصادی طور پر محکوم بنے ہوئے ہیں۔ فی زمانہ دنیا بھر کے مسلمان کسی نہ کسی کرب سے گزر رہے ہیں۔ ایسی گمبھیر صورت حال میں سیاست سے مذہب کی بیدخلی کا شور و غوغا سمجھ سے باہر ہے۔
تاریخ کے اوراق کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں حقیقت سب کے سامنے ہے کہ یہودیوں نے یہی فارمولا عیسائیوں کو بھی دیا تھا کہ مذہب کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے پھر چشمِ فلک نے دیکھا کے کلیسا بکنے لگے اور مذہبی پیشوا حکومتوں کے ہم نوا بن گئے جب مذہب کو سیاست سے یہ کہہ کر الگ کر دیا گیا کہ مذہب کا سیاست کے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تو دو صدیوں ہی میں مذہب انسان کی ذاتی زندگی سے بھی نکل گیا آج تک مغرب میں چرچ برائے فروخت ہیں یعنی مذہب کو سیاست میں نہ رکھا جائے تو وہ خانگی اور انفرادی زندگیوں سے بھی خود بخود نکل جاتا ہے۔ امریکا جاکر دیکھیں تو یہودیوں کے سیکڑوں مدرسے ملیں گے جہاں یہودی بچے عبرانی زبان میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر ان کے نصاب کو کوئی چیک کرنے والا نہیں کہ ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے لیکن ہمارے مدرسے کے بچوں کے نصاب کو چیک کیا جاتا ہے بلکہ ہماری حکومتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ وہ نظر رکھیں کہ بچے مدرسے میں کیا پڑھ رہے ہیں لیکن عیسائیوں کے مدرسے پورے یورپ اور امریکا میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے کیا یہ یہودیوں کی مذہب کے ساتھ دوغلی اور منافقانہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ اپنے بچوں کو تو مذہبی تعلیم دی جائے جب کہ مسلمان اور عیسائی بچوں کو مذہب کی تعلیم سے دور رکھا جائے۔ شاید اس لیے کہ یہودیوں کو یقین ہے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والا ہی مذہبی تعلیم کے حامل کسی شخص کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مذہب اور سیاست کا کوئی تعلق نہیں پھر پاکستان میں ہی اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے۔
عالمی سیاست میں نظر دوڑائیں تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جتنی بھی منفی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں وہ صرف اور صرف اسلام کی وجہ سے بنائی جا رہی ہے۔ کیا سیاست اسی چیز کا نام ہے کہ عوام کو مختلف ہتھکنڈوں ،جھوٹے وعدوں ،ترقی کے سہانے خوابوں کے جال میں پھنسا کر حکومت حاصل کر لی جائے یا سیاست اس چیز کا نام ہے کہ کون سی جماعت اس ملک میں کون سا نظام متعارف کرانا چاہتی ہے۔ پاکستان چوں کہ بنیادی طور پر ایک اسلامی ملک ہے لہٰذا چند مذہبی سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ یہاں اسلامی نظام ہی نافذ ہونا چاہیے تو اس میں کون سے اچھنبے کی بات ہے یا یہ کہ اس میں مذہب کے نام پر سیاست کی بھپتی کسنے کی کیا گنجائش نکلتی ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں مخصوص مذہبی گروپوں کے نمائندوں کو اس لیے ایڈجسٹ کرایا جاتا ہے کہ وہ مذہبی مسلک کے لیے کام کریں اور دیکھیں کہ کس پارٹی میں کیا پالیسیاں بنائی جا رہی ہے یوں کم از کم دس سیاسی پارٹیوں کی پالیسیوں کو سامنے رکھ کر اگلا لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس بنیاد پر نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے اور اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور کوئی بھی پارٹی بر سرِ اقتدار آئے تو وہاں ان کا نمائندہ موجود ہو جو اپنے مذہبی پیشواؤں کی دی ہوئی حکمت عملی کی بنیاد پر اس پارٹی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
امریکا ایران اور قادیانی جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو وہاں قادیانیوں کو قادیانی مسلم کہا جاتا ہے اور ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے وہاں تو کوئی ان کو مسلم کہہ کر دہشت گرد نہیں کہتا جیسا کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت گرد گرداننے کے لیے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور افغانستان پر ناٹو افواج نے چڑھائی بھی اسی لیے کی تھی کہ وہ ایک ایسا مسلم ملک تھا جہاں شریعت نافذ تھی۔مانا کہ ایران کے یورپ سے اختلافات رہے ہیں مگر یہ کیسے اختلافات تھے کہ پینتیس سال تک جس ملک کا یورپ اور امریکا نے بائیکاٹ کر رکھا ہو وہ نہ صرف اقتصادی معاشی اور معاشرتی طور پر مستحکم ہوتا جا رہا ہو اور یہاں تک کہ ایٹم بم تک بنانے کے قریب تک پہنچ گیا ہے ایران اور مغرب کی نورا کشتی بھی اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔
آج مغرب نے پاکستان میں مذہب کو سیاست سے بیدخل کرنے کے لیے اپنے ایجنٹ مقرر کر رکھے ہیں جو دن رات یہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ مذہب کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہیے اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ جب تک پاکستان میں مذہب کا سیاست سے سر رشتہ جڑا رہے گا اس وقت تک پاکستان کے آئین میں موجود اسلامی دفعات اور خاص طور پر قانون ناموس رسالت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ اللہ کا اس ملک پر بڑا کرم ہے جب بھی کسی نے آئینِ پاکستان کی اسلامی دفعات پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی تو پوری قوم اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر سامنے کھڑی ہو گئی لیکن مخصوص لابی کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی فکری تنگ نظری اور نظریاتی بانجھ پن کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں سرِ دست قومی اسمبلی کے حلف نامے ہی کو لے لیجیے کہ اس کے نتیجے میں اٹھنے والی فکری تحریک کو دبانے اور ثبوتاژ کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، اقتدار سے وابسطہ ایسے مخلص اور محب اسلام اور محب وطن افراد کو ان لوگوں پر نظر رکھنی پڑے گی جو مذہب کے نام پر سیاست کی مخالفت کی آڑ میں گھناؤنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں قانونی طور پر سیاست میں مذہب کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے یا مذہبی سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی جائے، پیپلز پارٹی نے بھٹو کا وہ فلسفہ بھلا دیا جس میں بھٹو صاحب نے نعرہ لگایا تھا دین ہمارا اسلام اور معیشت ہماری سوشلزم ہے یعنی اسلامی سوشلزم کا نعرہ اس لیے لگایا گیا کہ پاکستانی عوام کو باور کرایا جائے کہ پیپلز پارٹی سیاست میں مذہب پر یقین رکھتی ہے اور شاید اسی لیے ایک بڑے مذہبی خانوادے کو پیپلز پارٹی میں خاطر خواہ جگہ دی گئی تھی لیکن آج پیپلز پارٹی اور اس میں شامل سیاست میں مذہب کے سخت مخالف بنے ہوئے ہیں کیا آج بھٹو اس لیے زندہ ہے کہ سیاست سے مذہب کو بیدخل کر دیا جائے نواز شریف نے بھی اپنی سیاست کا آغاز مذہب سے قربت کی بنیاد پر کیا تھا لیکن آج وہی ختم نبوت کے حلف نامے کا سب سے بڑا ناقد ثابت ہوا اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے اور پاکستان اپنے مذہبی نشاۃ ثانیہ کی طرف بڑھ رہا ہے اب یہاں سیاست ہوگی تو مذہب کی بنیاد پر ہی ہوگی اب تو عمران خان بھی اپنے ہر جلسے میں مذہب کا حوالہ کسی نہ کسی طرح دیتے نظر آتے ہیں کیوں کہ سب سیکولر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ووٹ لینا ہے تو مذہب کو گلے لگانا ہے وگرنہ قوم سارے سیکولر سیاست دانوں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دے گی اس لیے اب پاکستان میں صرف اور صرف اسلامی سیاست ہی کا دور دورہ ہوگا۔