March 28th, 2024 (1445رمضان18)

پاکستان کی تعمیر اور استحکام

جوش، ہوش، صبر آزما جدوجہد، امانت دیانت کی ضرورت

لیاقت بلوچ

سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
پاکستان کی آزادی بڑی نعمت ہے اور اس کا تحفظ اہل پاکستان کے لیے ایک آزمائش بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں اور صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے اور پاکستانیوں کو گوناں گوں صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ لیکن کئی خرابیاں مثلاً جذباتی پن، منفی رجحانات اور اخلاقی اقدار کا زوال بھی موجود ہے بد قسمتی سے ان کو قومی مزاج بنا دیا گیا ہے۔ معاشرہ میں جذباتیت، جوش خطابت، گفتگو میں دلیل و شائستگی کی بجائے ہلہ گلہ زور پکڑ گیا ہے اوراب یہ طرز معاشرت بنتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حوادث کا مقابلہ کرنے، نازک ذمہ داریوں اور آزمائشوں سے عزت کے ساتھ عہدہ برا ہونے کے لیے پرعزم رہنے، پُر جوش جذبوں کا اظہار کرنے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آزمائش، خطرات اور ملک و ملّت کو درپیش امتحانات میں دانش مندانہ، فہم و فراست کی بنیاد پر سیاسی و مذہبی قیادتیں رہنمائی کرتی ہیں۔ وگرنہ جذباتی و ہیجانی کیفیت اور آتش نوائی بہت جلد اپنا اثر کھو دیتی ہے اور مسائل و مشکلات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
نظریہ پاکستان حقیقت میں اسلامی نظریہ ہی ہے۔ اس کی جڑیں قرآن و سنت کی تعلیمات سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔ اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی حقوق کے لیے خیر خواہی، ہوش مندی، انصاف و دیانت کا ماحول نا گزیر ہے۔ اسی سے نظریہ پاکستان کا حق ادا ہوسکتا ہے۔ معاشرتی حوالوں میں اخلاص، درد مندی، جوابدہی اورتقویٰ کی بنیاد ختم ہوجائے تو نفسا نفسی، دہشت، حلال کی بجائے حرام اور ظلم زور پکڑتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں عام آدمی کی جان و مال، عزت، روزی روٹی سب غیر محفوظ ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان دشمن قوتیں اپنا کھیل کھیلنے میں آزاد ہیں جس سے تعمیر اور استحکام خواب بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان ایسا ملک ہے جس میں مسلم غالب اکثریت کے ساتھ ساتھ ،غیر مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ مختلف فرقے اور قومیں بھی موجود ہیں۔ کلمہ گو اسلامیان پاکستان کی مسالک کی بنیاد پر تقسیم بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس صورت حال میں نظریہ پاکستان پر پختہ یقین کے ساتھ عمل درآمد، باہمی رواداری اور برداشت نا گزیر ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جمہوری طرز عمل ہی پائیدار طریقہ ہے۔ قیادت اور نظام کی تبدیلی کے لیے محض جمہوریت اور انتخابات ہی نہیں بلکہ جمہوری رویوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ شائستگی اور باہمی احترام ہی ملّت کی تعمیر کے لیے بنیاد بنتے ہیں۔ جوش، جذبہ اور الزام تراشیوں کی بجائے جدوجہد وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ یہ مسلّمہ اور عالمگیر حقیقت ہے کہ اقتصادی اور سماجی اعتبار سے مغلوب قوم کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے غالب اقوام کے مقابلے میں دوگنا بلکہ چہار گناہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنا ہوتا ہے۔ حکمت و دانش بڑی متاع ہے لیکن اس گم شدہ متاع کی تلاش اخلاص اور لگن سے ہی ممکن ہے۔ جن قوتوں نے بڑے بڑے سیاسی معرکے سَر کیے ہیں، مخالف کو اپنی قوت سے سرنگوں کیا ہے، انہوں نے جوش خطابت کی بجائے مناسب الفاظ کے بر وقت استعمال سے کام لیا ہے۔ ایسی اقوام متوازن رویے اور ڈائیلاگ سے بڑے بڑے مسائل حل کرلیتی ہیں لیکن وقتی اُبال اور دھواں دھار جذبات کا اظہار، خود انسان کو بے وزن بھی کرتا ہے اور ملک و ملّت کی تعمیر، استحکام اور خوشحالی کے راستے کی دیوار بھی بن جاتا ہے۔
70سال آزادی کو ہوچکے ہیں۔ ہم اس دوران ذلت اور رسوائی کے کئی مدو جزر سے گزرے ہیں۔ آج بھی ماضی کی مسلسل غلط روش اور منفی رویوں نے ملک کو مشکلات و خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب کہ اسی مدت میں ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ملک تعلیم، صحت، جمہوریت اور اقتصادی ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ پاکستان کو دوسروں کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہونے سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت بھی قومی سلامتی، اقتصادی صورت حال، قومی وحدت اور جمہوریت و پارلیمانی نظام کے لیے اندرونی اور بیرونی حقیقی خطرات دیوار پر لکھے نظر آتے ہیں۔ تعمیر نو اور استحکام، صبر و استقلال، حکمت و دانش، مسلسل جدوجہد اور طویل المیعاد سعی و عمل کی محتاج ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی تعمیر و استحکام کے لیے جوش، ہوش، صبر آزما جدوجہد اورامانت و دیانت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں قیام پاکستان کے مقاصد سے انحراف اور اسلامی اصولوں کے برعکس ایک ہمہ گیر نظام زندگی ہم پر مسلط کردیا گیا ہے۔ اس نظام نے ہمیں اپنے اندراس طرح جکڑ لیا ہے کہ کشکول اٹھائے ملک و ملّت کی عزت نیلام کر رہے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوچکا ہے کہ اس دلدل اور گرداب سے کیسے نکلا جائے اور اس کام کو کیسے کیا جائے؟
؂فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ہمارے ماحول میں جذبات کے اظہار کے بے شمار ذرائع موجود ہیں، ابلاغ کی ترقی نے اور بھی نئے در وا کر دیئے ہیں لیکن سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں معمول کے تعمیری کام کی بجائے ہنگامہ خیزی کے مراکز بن گئی ہیں۔آزاد میڈیا کے ٹاک شوز ریٹنگ کے چکر میں، جذباتی طرزِ اظہار اور الزام تراشیاں، قومی مزاج میں اور زیادہ اشتعال پیدا کررہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج قصداً دبائی جارہی ہے۔ عوام مایوس ہو کر ہمت ہار رہے ہیں۔ جرأت و بہادری کی بجائے بزدلی اور خوشامد ان کی عادت بن گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف یہی حکم نہیں دیا کہ انسان اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچائے رکھے بلکہ اس بات کو بھی اہل حق کا فریضہ ٹھہرایا کہ وہ ظالم کو ظلم سے روکیں اور ستم گروں کا ہاتھ پکڑیں، اس طرح حکمت کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اور طاقت سے ظلم کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ مقابلہ صرف بندوق اور لاٹھی و تلوار سے نہیں ہوتا بلکہ ہر اس طریقہ سے کیا جاسکتا ہے جو دشمن کو ظلم سے روکنے میں مؤثر کردار ادا کرسکتا ہو۔ جمہوری نظام میں ووٹ بھی بڑی طاقت ہے۔ اس کے ذریعے انسان تخت اقتدار پر بیٹھتا بھی ہے۔ وہ چاہے توعوام کی خدمت، ملک و ملّت کی تعمیر و استحکام کا فریضہ ادا کرے اوراَمر ہوجائے یا ظلم و جبر، کرپشن بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال کرکے ملک و ملّت کی بربادی اور تحمل و برداشت کی بجائے باہمی مفادات کو فروغ دے کر سیاسی اعتبار سے اپنے آپ کو تختۂ دار کی طرف لے جائے۔ ایک محبّ وطن، عوام کی خیر و فلاح کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے یہ رویے بربادی کا باعث ہوتے ہیں۔ پاکستان کی دشمن قوتیں تو جنگی اور معاشی، خوف و لالچ کے ہر ہتھیار سے حملہ آور ہیں۔ اپنی صفوں کو درست کرنا، گھر کی حقیقی صفائی کرنا اور ایسی حکمت عملی اختیار کرنا جس سے وطن عزیز کی تعمیر و استحکام کی جڑیں مضبوط ہوں اور منفی رویوں، لاحاصل جوش و جذبہ، نا اہلی اور بد دیانتی کی جگہ ہوش، حکمت و دانش، برداشت و تدبر پیدا ہو۔ معمولی ذاتی مفادات کے لیے رات کی تاریکی کو دن کی روشنی کہنے سے باز رہنا چاہیے۔ میری دانست میں چند بنیادی امور پر اہل دانش، صاحب الرائے اور پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا اور عمل کرنا ہوگا اسی سے ماحول کی بہتری کے لیے پیش رفت ہوسکتی ہے۔
* پاکستان میں یکسوئی اور اعتماد کے لیے قرار داد مقاصد سے راہنمائی، آئین پاکستان کی بالادستی پر پختہ یقین پیدا کرلیا جائے، اغیار کی نقالی ہمیں زیب نہیں دیتی۔ ایک قوم بننے کے لیے اپنے قومی نظریہ پر اخلاص سے عمل کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد کو متنازعہ بنانے کی بجائے اتفاق رائے پیدا کر کے یک جان ہو جانا لازم ہے۔
* اتفاق رائے پیدا کر کے زوال کے اسباب جاننے کے لیے تحقیق کریں، ٹاسک فورسز بنائیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں غلام ذہن اور مغلوب جذبات و احساسات کسی انقلابی راستہ کی کوئی تدبیر نہیں سجھا سکتے صرف خود احتسابی، اپنی غلطیوں سے رجوع کر کے ہی مسئلے کا پائیدار حل ہے۔ باہر کے دشمنوں سے لڑنے سے قبل ہمیں اپنے اندر کے دشمن سے لڑنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آج ہم 22کروڑ آبادی ہونے کے باوجود سیلاب کے لائے ہوئے جھاگ کی طرح بے وزن اور بے وقعت کیوں ہوگئے ہیں، ملکی وسائل، صلاحیتیں اور ہنر و محنت حقیقت ہیں لیکن یہ سب افادیت کھو رہے ہیں اس کے اسباب کا ازالہ ہی مسائل کا حل ہے۔
* حکومت، ادارے، گروہ، افراد اپنے اپنے دائروں میں ہر طرح کی خود مختار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کی نظر دوسروں کی غلطی پر ہوتی ہے۔ خود جس قدر چاہے لاقانونیت کرے وہ اپنے لیے ہر طرح کا تحفظ اور استثناء چاہتا ہے، قانون کا نفاذ کمزور پر نافذ ہو۔ طاقت ور کو کچھ نہ ہو، یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ عدلیہ کی آزادی، انصاف کو یقینی بنانے کے لیے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی روش اختیار کرنا ہوگی۔ تا کہ قانون اور انصاف سب کے لیے ایک جیسا ہو۔
* سول،ملٹری اور ریاستی اداروں کے تعلقات ترقی، تعمیر اور استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ سیاسی جمہوری قوتیں ملکی اقتدار کے لیے اپنی اہلیت، امانت اور دیانت ثابت کریں۔ اپنے آپ کو محض حصول اقتدار کے مفادات کی خاطر، چاپلوس اور نااہل گروہوں کے گرداب میں پھنسنے سے بچائیں۔ آئین، قانون، پارلیمنٹ ریاستی اداروں کے دائرہ کار متعین ہیں لیکن یہ عجب تماشہ ہے مقتدر طبقے کرپشن کریں، عوام کے خون پسینے کی کمائی پر لوٹ مار کریں، اقتدار کے مزے پاکستان میں لوٹیں لیکن مال و دولت، کاروباراپنی اولادوں کے نام بیرون ملک رکھیں، معاشرے میں ٹھہراؤ اور استحکام محض جمہوری اقتدار کے کوڑے سے نہیں آسکتا۔ اس کے لیے رویے اور اسلوب یکسر بدلنے ہوں گے۔
* جمہوریت کی بنیادی اکائی عوام ہیں۔ تعمیر واستحکام عوام کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ عوام تعلیم، صحت، باعزت روزگار، اپنے بچوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، خصوصاً پسماندہ اورمجبور و بے کس طبقات اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ خواتین، نوجوان آبادی کا دو تہائی ہیں۔ لیکن محرومیوں کا شکار ہیں۔ عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لیے برابری اور انصاف کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی وگرنہ بے یقینی، عدم اطمینان اور تباہی و بربادی کے دروازے کھلے رہیں گے۔
* داخلہ اور خارجہ محاذ پر پالیسی سازی عوامی خواہشات کے مطابق آزاد، باوقار، خودار قوم کی حیثیت سے بنائی جائے لیکن اگر قومی اقتصادی خود مختاری کی بجائے کشکول اٹھانے، بھیک مانگنے، قرضوں پر مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقہ اللے تللے کرے تو داخلہ و خارجہ حکمت عملی باوقار نہیں بن سکتی۔ خودانحصاری، اپنے آپ پر اعتماد اور اپنی قوم کے نوجوانوں، تاجر و صنعت کاروں، کسانوں مزدوروں، طلبہ، اساتذہ، ہنر مندوں اور خواتین کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا ہوگا، بیرون ملک پاکستانیوں کے متزلزل ہوتے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔ تعمیر و استحکام اور خوشحالی کا یہ ہی پائیدار اور مضبوط راستہ ہے۔
* 70سال کی تاریخ کا یہ اہم واقعہ ہے کہ مقتدر حکمران خاندان کا پانامہ لیکس اور کرپشن پر احتساب کا عمل جاری ہے لیکن احتساب کا تقاضا ہے کہ کرپشن میں ملوث سب افراد کا محاسبہ ہو وگرنہ کرپٹ مافیا انتقامی اور امتیازی کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر احتساب کے لیے پیش قدمی روک سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے لیے پوری قوم کی طرف سے داد رسی کا بڑا مقدمہ دائر ہوچکا ہے۔
* یہ امر بالکل عیاں ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں آئین، پارلیمانی جمہوریت اور نظریہ پاکستان ہی اصل طاقت اور قوت ہے۔ مارشل لاء، آئین سے بالا اقدامات مسائل کا حل نہیں۔ جمہوری عمل محض انتخابات کے انعقاد سے مستحکم نہیں ہوسکتا صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابی نظام ہی عوامی اعتماد بحال کرسکتا ہے۔ انتخابات تو ہوں لیکن مرضی کے نتائج کے لیے ہر غیر جمہوری حربہ استعمال ہو تو یہ تعمیر اور استحکام کے لیے زہر قاتل ہے۔
* تعمیر و استحکام پاکستان کا تقاضا ہے کہ مضبوط نظام کے ساتھ ’’احتساب سب کا‘‘ ہو۔ مقتدر طبقے انسانوں کو انسان تسلیم کریں، انسانی اقدار کو فروغ دیاجائے، غریب اور امیر کے بڑھتے فاصلے ختم کیے جائیں۔ پاکستان میں ہر فرد کو عزت کا مقام اور جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ باوسائل، با اختیار، مقتدر حلقے اپنے آپ کو قانون، امانت و دیانت کا پابند بنائیں گے تو اعتماد و یقین کا ماحول پیدا ہوگا محض جھوٹے دعوے، وقتی نمائشی اقدامات تعمیر و استحکام کا باعث نہیں بن سکتے۔