December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

خوشحال پاکستان بنانے کا راستہ

پاکستان میں تہذیبی ،نظریاتی،معاشی ،معاشرتی ،سیاسی، انتخابی کرپشن اوربحرانوں کا چلن عام ہے ۔قومی سلامتی اور اندرونی امن وامان کے قیام کے لئے حقیقی خطرات درپیش ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم اورپہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید کے بعد سے ہی پاکستان کو کرپٹ اشرافیہ نے اپنے مقاصد سے دور کردیا۔ قومی ترجیحات پر سمجھوتوں،عوامی مفادات کے تحفظ کے بجائے ذاتی مفادات ، ترقی ،وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی مثالی اسلامی ریاست بنانے کی بجائے ذاتی وگروہی مفادات ،شخصی بالا دستی ،لسانیت ،علاقائیت ، فرقہ واریت اور تعصبات و عدم برداشت کا شکار کردیاہے ۔پاکستان اورپاکستانی عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے انہیں لادین اوربے حیا بنانے ، مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے چُنگل میں دینے اورعوام کوآپس میںلڑانے اور اقتدار کے حصول کے مکروہ فلسفے ،قومی وسائل پرقبضے عوام کو تعلیم وصحت ،روزگار،جان ومال ،عزت وآبرو کے تحفظ سے کوسوں دور کردیا ہے۔آئین وقانون کی حکمرانی خواب بن کررہ گئی ہے۔ذاتی مفادات ،گروہی تعصبات ،اقتدار کے لئے ہر ذلت و خواری ،ناجائز حربے آزمائے گئے اور قومی مفادات کو ترجیح دینے کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی ہے۔ پاکستان کی بقاء ،سلامتی اور ترقی قیام پاکستان کے مقاصد اورا ٓئین پاکستان کی روح کے مطابق نفاذ شریعت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ آئین اور قانون کی حکمرانی پاکستان کے عوام کا بنیادی اور جمہوری حق ہے، ملک میں قانون سب کے لئے برابر اور انصاف کے حصول کے نظام کو آسان بنائے بغیر ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ جاگیر دار ،سرمایہ دار ، ذاتی مفادات کے رسیا طبقے اور فوجی آمریتوں نے عوام کو حقوق سے محروم کیاہے ۔انتخابی اور جمہوری نظام کی خرابیوں کا خاتمہ کرکے حقیقی جمہوری انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہی بہتری ممکن ہے۔

 اللہ نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن قومی وسائل چند ہاتھوں میں ہیں جن پرچند خاندان قابض ہیں ۔ قومی معیشت کو خود انحصاری ،سود کی لعنت سے چھٹکارے، توانائی کے بحران سے نجات ،قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اوراسلام کے بابرکت اور شاندار اسلامی معاشی فلاحی نظام کے نفاذ کے بغیر یہ کام انجام نہیں پاسکتا ۔ قومی معیشت پر سے غیر ترقیاتی اخراجات سے% 30کمی لاکر اس کا رخ غریب اورپسماندہ طبقے کی طرف موڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم سب کے لئے ہونی چاہیے۔یکساں نظام تعلیم کو اپنائے بغیراس منزل کو پانا ممکن نہیں، طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیے بغیریہ ہو نہیں سکتا۔ ملک میں ہر سطح پر قومی زبان اردو کا نفاذ اور علاقائی زبانوں کا تحفظ کرکے ہی پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتاہے۔دینی مدارس ہوںیایونیورسٹیز اور سکول و کالجز ان کے نظام کو باہم مربوط بناکر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ صحت عامہ کاحصول سب کے لئے آسان کیسے ہو،یہ بہت اہم سوال ہے اس کے بغیرصحت مند معاشرے کا قیام ممکن نہیں،بیرون ملک علاج کی بجائے ملک کے اندرضلع ،تحصیل ،یوسی سطح پر ہسپتالوں کا نظام ، غریب مستحق اورناداروں کے لئے ضروریات کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کا کام ہے۔ زراعت قومی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،زراعت کی ترقی کے لئے IMF،ورلڈ بنک اور بیرونی پیداوار کی آمد کا دروازہ بند کرناوقت کا تقاضاہے ،ملکی زراعت کو سودی قرضے سے نجات دینا،سستی بجلی کی فراہمی ،ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات دلانا،کھاد ،بیج اورادویات کی قیمتوں میں کمی لا کر، کسان اور ہاری کو باعزت مقام دلا یا جاسکتاہے۔ خالی خولی دعوئوں اور وعدوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ مزدور کی محنت ملک و ملت کا اصل اثاثہ ہے۔قومی اداروں بالخصوص پی آئی اے ،ریلوے ،واپڈا ، پاکستان سٹیل ملز،OGDC کو نج کاری سے بچاکر اور بحال کرکے ہی محنت کش طبقے کے دلدّراور مشکلات دور کیے جاسکتے ہیں۔اسی طرح کلرکوں کے مطالبات اورمسائل حل کرکے انہیں وطن عزیز کے لیے مزید مفید اور کارآمد بنایاجاسکتاہے۔ آباد ی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ جس کے قانونی ،سیاسی ،معاشی اوراسلامی شریعت کے عطا کردہ حقوق وراثت وملکیت اورروزگار کو یقینی بناکرہی خواتین کو عزت ، وقار، عظمت کا مقام دلایا جاسکتاہے۔ نوجوان نسل وطن عزیز کا اصل سرمایہ ہے۔علم وہنر ، روزگار، کھیل اورکھیل کے میدان ، میرٹ ،صحت مند ثقافتی سرگرمیوںکا اہتمام کرکے ہی نوجوانوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔اتحاد امت عالم اسلام کابڑا مسئلہ اور اہل ایمان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ اتحاد امت کے لئے تمام مسالک و دینی قوتوں کو اسلامی نظریے اور اسلامی تہذیب کے تحفظ کے لئے متحد کرکے جدوجہد کے لیے آمادہ و تیار کرکے ہی مغربی تہذیب ، سیکولرزم اور لبرلزم کو شکست دی جاسکتی ہے اور اسلام کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ،بلکہ رگ جاں اور برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔کشمیریوں کی حمایت کے لئے، قومی اتفاق رائے خوش آئند ہے کشمیرپرمستقل قومی پالیسی ،سفارتی و خارجہ محاذ پر فعالیت و تحرک اور مستقل وزیر خارجہ کا تقرر کیے بغیر سفارتی محاذ پر کامیابی مشکل ہے۔ خارجہ محاذ پرباوقار ملک بننے کے لئے داخلی اور معاشی پالیسیوں میں بنیادی انقلابی تبدیلی لانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے اس کے بغیر اورتمام ممالک کے ساتھ برابری،انصاف ،پرامن بقائے باہمی اور عدم مداخلت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔ایک ایسا پاکستان جو آزاداور خودمختارہو ، ترقی یافتہ اورجدیدہو،مضبوطی اور اندرونی اعتماد کے بغیر عالم اسلام کی قیادت نہیں کر سکتا ہے ۔قبائل کی صورت حال میں بہتری کے لیے ، حکومت ،فوج اور سیاسی اور جمہوری قوتوں کی بے حسی کا خاتمہ کئے بغیر بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ۔قبائلی عوام کو ایف سی آر سے نجات دلا کر اورتعلیم ،صحت ،روزگاراور انصاف کا حق دے کر ہی ان کا اعتماد حاصل کیاجاسکتاہے۔ قبائلی علاقہ جات کو صوبہKPK کا حصہ بنا کر PATAکا سٹیٹس دیناوقت کا تقاضا ہے ۔ قبائلی عوام کی محرومیوں کا خاتمہ کئے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا۔عیسائی ،سکھ،ہندوبرادری پاکستان کی آبادی کا اہم ترین حصہ ہیں ۔ اقلیتوں کے آئینی ، قانونی ، مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بہت اہم ہے ۔اقلیتوں کو تعلیم ،روزگار اور شہری حقوق کی فراہمی ریاست کی مضبوطی کے لیے لازمی ہے ۔

 آج پاکستان کو کرپشن کے سرطان کے جان لیوا مرض کاسامنا ہے ،کرپشن کے زہریلے ناگ کا سر کچلنا ضروری ہے ۔جماعت اسلامی آئین،آزاد عدلیہ اور جمہوری حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی ۔ ملک میں سیاسی داخلہ،خارجہ معاشی حکمت عملی واضح اوردوٹوک نہیںہے ۔ کرپشن اورپانامہ لیکس پر غیر جانبدارانہ تحقیقات اور احتساب کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے۔لیکن اصل فیصلہ عوام کی طاقت ہی نے کرنا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ قوم کو ایک دلدل میں الجھا دیا گیا ہے بظاہر اس سے نکلنے کے راستے مسدود کر دئیے گئے ہیں ۔ لیکن جماعت اسلامی پُرعزم اورپُرامید ہے ہم ان شاء اللہ اسلامی پاکستان ،خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

    آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

    اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

    پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود

    پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی