پروفیسر محمد منور مرزا
تمام پیغمبر ؑ ایک ہی دین لے کر آتے رہے، اس دین کا نام اسلام ہے۔ وہ دین جب دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوپ میں ظاہر ہوا، تو کمال کو پہنچ گیا۔ گویا ہروحی جو رسولوںؑ پر نازل ہوئی، آخرکار قرآن مجید کی صورت میں اتمام سے ہمکنار ہوئی۔ تمام رسولوں کی سیرتیں، سیرتِ محمدیہؐ کے جلو میں پروان چڑھیں، اور یوں انھوں نے اپنی معراج و منتہا کو پالیا۔ اب تاقیامت دینِ محمدیؐ، یعنی اسلام کامل بنوآدم کا ضابطۂ حیات رہے گا۔ اس ضابطۂ حیات کا مقصد آخری لفظی وحی، قرآن کریم ہے، اور آخری عملی معیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔
زندگی ایک مسلسل حقیقت ہے اور اس تسلسل میں کہیں انقطاع نہیں۔ حضرت علّامہ اقبال کے نزدیک پوری کائنات ایک نامیاتی (Organism) وجود ہے۔ جب سے یہاں آدم کا ظہور عمل میں آیا ہے، سیرتِ آدم کا تکمیلی سفر حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخ کی طرف رہا، اور تاقیامت سیرتِ آدم کا یہ سفر جاری رہے گا، اس لیے کہ تکمیلِ سیرتِ آدم ؑ کا نقطۂ آخریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ قدسی صفات ہے۔ آپؐ ہی کا طریقۂ زندگی، اسوئہ حسنہ ہے، اور اسی اسوے کو اپنا کر بنوآدم اپنی ذات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
دین کا فہم گویا روحِ محمدؐ و ابراہیم ؑ تک رسائی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ روح ابراہیم ؑ خود آپ ہی کی ذات میں پہنچ کر کمال یاب ہوئی۔ اسی لیے ملت اسلام کا دوسرا نام ’دینِ ابراہیمی‘ ہے۔ عربی میں ’ملت‘ کا معنی ’دین‘ ہے، اس کے معنی ’اُمت‘ نہیں ہیں۔ ملتِ ابراہیمیؑ یا دینِ ابراہیمیؑ کے تکمیلی سفر کو حضرت علّامہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت
تا چراغِ یک محمدؐ برفروخت
[اس کے شعلوں نے سیکڑوں ابراہیم ؑ جلادیے، تاکہ ایک محمدؐ کا چراغ روشن ہو]۔
حضرت علّامہ نے ایک خط میں واضح کیا ہے، اور یہ خط حافظ محمد فضل الرحمٰن انصاری کے نام (۱۶جولائی ۱۹۳۷ء) لکھا ہے، یعنی علّامہ کی وفات سے تقریباً نو ماہ پہلے۔ مکتوب الیہ ریسرچ کی نیت سے یورپ جانا چاہتے تھے۔ علّامہ نے انھیں منع کیا اور تلقین یہ کی کہ عربی زبان میں مہارت پیدا کرکے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں:
مصر جایئے،عربی زبان میں مہارت پیدا کیجیے۔ اسلامی علوم، اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ، تصوف، فقہ، تفسیر کا بغور مطالعہ کرکے محمدؐ عربی کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اگر ذہن خداداد ہے اور دل میں خدمت ِ اسلام کی تڑپ ہے تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے، جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے۔
واضح ہوا کہ:
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
اجتہاد دراصل اس عملی ارتقا کا نام ہے جو فقہ کے باب میں جلوہ گر ہو۔ رہا یہ کہ فقہ کیا ہے؟ تو علّامہ زمخشری کا قول ہے: ’’فقہ کی حقیقت تحقیق و تفتیش کرنا اور کھولنا ہے‘‘۔
ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قانون اور ضابطہ، اُمت مسلمہ کی توحیدی روح ہے۔ قدرتی امر ہےکہ علّامہ اقبال جو مسلمانوں کی شخصی وحدت کے بھی متمنی تھے اور اجتماعی توحید کے بھی، وہ فقہ کی اس حاوی کیفیت اور بھرپور اہمیت کو بخوبی محسوس کرتے تھے، اور یہ ان کا عقیدہ تھا کہ اسلام آخری ضابطۂ حیات ہے، جسے تاحشر انسانی معاشروں کی رہنمائی اور روح افزائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ لہٰذا، اصل روح کو بحال رکھتے ہوئےفقہ اسلامی کو ہرزمانے کا ساتھ دینا ہوگا۔ حضرت علّامہ کہتے ہیں:
باطن او از تغیر بے غمے
ظاہرِ او انقلابِ ہر دمے
[اس کا باطن (بنیادی اصول) تغیر ناپذیر ہوگا، لیکن اس کے ظاہر میں ہردم نئی تبدیلی ہوگی]۔
اس حقیقت کے شدید احساس کے باعث، حضرت علّامہ کی دلی تمنا تھی کہ وہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں قرآن کے مطالب قلم بند کریں، مثلاً ۱۹۳۵ء میں انھوں نے سرراس مسعود کے نام ایک خط میں یہ اظہار کیا:
چراغِ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرجائوں۔جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کےلیے وقف کردینا چاہتا ہوں، تاکہ قیامت کے دن آپ کے جدامجد (حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضورؐ نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا۔
خود علّامہ کے الفاظ ہیں:
میں نے اپنے خیالات کا بڑی تفصیل سے، اشعار میں اظہار کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں ان سے بھی بڑی چیز ہے، جسے قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔
یہ الفاظ حضرت علّامہ نے اپنے دوست خواجہ عبدالوحید صاحب سے اکتوبر ۱۹۳۴ء میں کہے تھے۔ یہی وہ کتاب تھی جس کے قلم بند کرانے کی خاطر سر راس مسعود کے توسط سے نواب صاحب بھوپال نے ۱۹۳۵ء میں حضرت علّامہ کا ۵۰۰ روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر فرمایا تھا تاکہ آپ وکالتی دھندوں سے فارغ الذہن ہوکر اس کتاب کی تصنیف کی جانب متوجہ ہوسکیں، مگر صحت نے ساتھ نہ دیا۔ یہ آرزو شکست یاب ہوکر حسرت بن گئی، جسے علّامہ اپنے ساتھ عالم عدم میں لے گئے۔
اسلامی فقہ سے ان کی یہ دلچسپی زندگی کے آخری برسوں ہی میں پیدا نہ ہوئی تھی۔ سیّد سلیمان ندوی کے ساتھ ان کی جو خط کتابت ہوئی، اس میں بھی کئی خطوط میں فقہی مسائل زیربحث رہے۔ کوئی خط ۱۹۲۴ء میں تحریر ہوا، کوئی ۱۹۲۵ء میں،اور کوئی ۱۹۲۶ء میں، مثلاً مارچ ۱۹۲۶ء میں سیّد سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں:
اس وقت سخت ضرورت اس امر کی ہے کہ فقہ کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اسی بحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے، جو میری نظر سے گزری ہے، اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر مولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا، مگر چونکہ میرا دل بعض اُمور کے متعلق خود مطمئن نہیں، اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا۔
حضرت علّامہ نے مکتوب بالا کے بعد اپریل ۱۹۲۶ء کے ایک مکتوب میں بھی اپنے رسالہ اجتہاد کا ذکر دُہرایا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ علّامہ نے اجتہاد کےباب میں جن خیالات کا ذکر کیا، سیّد سلیمان ندوی نے گمان کیا کہ شاید عبادات بھی اجتہاد کی زد میں آگئی ہیں یا آسکتی ہیں۔ اس غلط فہمی کا ازالہ حضرت علّامہ نے بایں الفاظ کیا:
عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں، معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چونکہ شریعت احادیث (وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہوجاتا ہے، اور ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا۔ میرا مقصود یہ ہے کہ زمانۂ حال کے ’جورس پروڈنس‘ کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے، مگر غلامانہ انداز میں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں۔
چند سطور آگے جا کر اسی مکتوب میں علّامہ نے ایک دو فقہی مسائل سے تعرض کیا ہے:
آپ کے خط کے آخری حصے سے ایک سوال میرے دل میں پیدا ہواہے، اور وہ یہ کہ امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کردے اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقرر کردے۔ اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرآنی ہے؟ حضرت عمرؓ نے طلاق کے ضمن میں جو مجلس قائم کی ہے، اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا؟میں اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ زمانۂ حال کی زبان سے یوں کہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی امام کی قائم مقام ہوسکتی ہے؟ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی دُنیا کے لیے ایک واحد امام؟ مؤخرالذکر صورت موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیوں کر بروئے کار آسکتی ہے؟
فقہ سے ان کی دلچسپی واضح ہے اور فقہ کو معاصر احوال پر منطبق ہونے کے لائق بنانا اجتہاد ہے، اور حضرت علّامہ نے۱۹۲۶ء میں کوئی رسالہ اجتہاد کے موضوع پر مرتب بھی کیا تھا جس کا ذکر سطوربالا میں گزر چکا ہے کہ جسے حضرت علّامہ نے بوجوہ شائع نہ کرایا۔ بہرحال، وہ خواہاں تھے کہ اسلام کے اساسی اصولوں کی روح کو پیش نظر رکھ کر ہرزمانے میں اُبھرنے والے سوالوں کا جواب دیا جائے۔ یہ مباحث یوں محسوس ہوتا ہے گویا مدراس میں دیے جانے والے خطبات، خصوصاً چھٹے خطبے کے تمہیدی یا پس منظری تعاونات تھے۔
حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ فتوحات اسلامی کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل نے سر اُٹھایا۔ چنانچہ فقہا نے خوب محنت صرف کی، ضابطے اور قاعدے مرتب کیے، مسائل کے حل تجویز کیے، جو ہوتے ہوتے چند مستقل مذاہب کی صورت میں متعین ہوگئے۔ علّامہ کی رائے میں ان فقہی مذاہب کے یہاں اجتہاد کے تین درجے ہیں:
۱- تشریح یا قانون سازی کی مکمل آزادی، جس سے فقط بانیانِ مذاہب نے فائدہ اُٹھایا۔
۲- محدود آزادی جو کسی مذہب کی حدود کے اندر ممکن ہو۔
۳- وہ مخصوص آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے سے ہو، جسے مؤسسین مذاہب نے جوں کا توں چھوڑ دیا ہو۔ یہاں علّامہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بحث شق اوّل تک ہی محدود رکھی۔
اسی ضمن میں حضرت علّامہ وضاحت کرتے ہیں کہ علمائے سنت والجماعت اصول اور نظریے کے طور پر تو اس امر کے قائل ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہیے، مگر انھوں نے اس ضمن میں شرائط ایسی عائد کررکھی ہیں، جن کا پورا کرنا اگر ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ یہاں حضرت علّامہ بعض مستشرقین کی اس رائے یا الزام کی تردید کرتے ہیں کہ اجتہاد کی راہ ترکوں کے اثر سے بند ہوئی۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ترکوں کا اثر شروع ہونے سے قبل حرکتِ فقہ میں جمود رُونما ہوچکا تھا۔ بہرحال، حضرت علّامہ فقہ و اجتہاد کے باب میں بندش کے اسباب بیان کرتے ہیں:
۱- بنوعباس کے دور میں فروغ پانے والی تعقلیت جس نے بعض ایسے مسائل کھڑے کر دیے کہ جن کے نتائج آگے چل کر بڑے خطرناک ہوتے، مثلاً خلقِ قرآن کا مسئلہ۔ علما و فقہائے اُمت کو (خواہ بربنائے غلط فہمی) خوف لاحق ہوا کہ نظام جیسے متکلمین کی حد سے بڑھی ہوئی بے باک کلامی بحثیں کہیں اُمت کے فکری انتشار کا باعث نہ بن جائیں۔ اس ڈر کے مارے انھوں نے فقہ و اصول میں اور بھی زیادہ تشدد پیدا کرلیا تاکہ اسلامی سوسائٹی کا ڈھانچا بحال رہے۔
۲- متکلمین اور فقہا کی عقلی و فقہی موشگافیوں سے بے زار ہوکر ایک گروہ الگ ہوبیٹھا۔ وہ گروہ غیراسلامی مؤثرات سے متاثر تھا۔ یہ اہل تصوف کا گروہ تھا۔ علّامہ کہتے ہیں کہ تصوف کو عقلیین کے خلاف ایک طرح کی بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے۔ علّامہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سوسائٹی کے عالی دماغ لوگوں نے تصوف کے دامن میں پناہ لے لی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اصول و قانون کا شعبہ متوسط درجے کے افرادِ علم و عقل کے قبضے میں چلا گیا۔
۳- سقوطِ بغداد سے مسلمانوں کو شدید دھچکا لگا اور اس کے جلو میں آنے والی تباہی و بربادی نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر اسلامی سوسائٹی اور دین کے مستقبل کے باب میں نیم مایوسی کا سایہ ڈال دیا۔ نتیجہ یہ کہ فکری و قومی اضمحلال بڑھا اور انتشار بھی۔ حضرت علّامہ خود بھی اس صورتِ حال میں جس امر پرزور دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ’’قوائے انحطاط کا سدباب نظم وربط ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھے، اور ہمارے زمانےکے علما نہیں سمجھتے تو یہ کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس امرپر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے، بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں، قدرت اور صلاحیت کیا ہے۔ یوں بھی جب معاشرہ حد سے زیادہ منظم ہوجائے تو اس میں فرد کی ہستی سرے سے فنا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے گردوپیش کی اجتماعی افکار کی دولت سے تو مالا مال ہوجاتا ہے، لیکن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھتا ہے‘‘۔
ترکوں کے تجدد کو زیربحث لاتے ہوئے علّامہ نے کہا: ’’پھر اگر اسلام کی نشاتِ ثانیہ ناگزیر ہے جیساکہ میرے نزدیک قطعی ہے، تو پھر ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدروقیمت کا اَزسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اصل بات جو توجہ طلب ہے، وہ یہ ہے کہ حقِ اجتہاد کس کو حاصل ہے؟ فرد کو یا جماعت کو؟ ترکوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے یا اسلامی تعلیمات کے مطابق اس منصب کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلس کے سپرد بھی کیا‘‘۔ علّامہ اس طریق کو اس لیے درست قراردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ طرز عصرحاضر میں بحالی جمہوریت کے لیے ناگزیر تھا۔
علّامہ اقبال تاکید کرتے ہیں کہ علما کا بھی ایک گروہ اسمبلی میں شامل ہونا چاہیے، جو دین سے متعلق زیربحث آنے والے مسائل اور ان کے ضمن میں روپذیر ہونے والے ضوابط و قواعد کا جائزہ لیتے رہیں۔ یہاں حضرت علّامہ نے ایرانی دستور کی مثال دی جس کی رو سے مجلس قانون ساز کی ایک مجلس علما نگران تھی۔ ساتھ ہی علّامہ نے خدشہ بھی ظاہر کیا کہ علما کی یہ مجلس خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت علّامہ کے مزاج میں تو لذت کاری کا جوہر ایسا رچا ہوا تھا کہ وہ ہرشے کے محاسن و مصائب پر بیک وقت نظر رکھتے ہیں۔
حضرت علّامہ نے اذان و نماز کے ترکی زبان میں تبدیل کیے جانے کو قابلِ اعتراض قرار دیا۔ حضرت علّامہ متنبہ کرتے ہیں کہ جن احوال سے ترک دوچار ہیں، انھی احوال سے دیگر مسلمان اقوام کو بھی واسطہ پڑنے والا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ خوش آیند ہے کہ حقیقت حال سے گریبان گیر ہونے کا جذبہ پیدا ہو، مگر اس ساری تائید کے ہمراہ یہ حرفِ انتباہ بھی ہے جو علّامہ اقبال کے مزاج کی توازن پسندی اور اعتدال جوئی پر دلالت کرتا ہے:
بہرحال ہم اس تحریک کا جو حُریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ ہے، آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقے اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔
بشکریہ ترجمان القرآن