جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال
علّامہ محمد اقبال کے فرزند، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء-۳؍اکتوبر ۲۰۱۵ء) کے قلم سے والدکی سوانح حیات زندہ رُود ،سوم، ناشر : شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، طبع دوم ۱۹۸۷ء،ص ۶۱۱-۶۱۳ اور ۷۰۵
اسلامی علوم کے احیاء اور تعلیمات کی، وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق تعبیر کے سلسلے میں اقبال کی بہت سی تمنائوں میں سے ایک تمنا یہ بھی تھی کہ کسی مسلم یونی ورسٹی کے اندر یا کسی پُرسکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جہاں بہترین دل و دماغ کے مسلم نوجوان، خالص اسلامی ماحول میں اسلامی ریاضیات، طبیعیات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علومِ جدیدہ کا علومِ قدیمہ سے تعلق دریافت کرسکیں، اور یوں نہ صرف اُن میں جدید مذہبی، سیاسی، اقتصادی، قانونی، علمی، سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدار کر دیا جائے بلکہ اُن میں مسلمانانِ عالم کی ہرشعبے میں صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی پیدا ہوجائے۔
اس خواہش کا اظہار اقبال نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں شعبہ علوم اسلامیہ کی تشکیل کے زمانے میں کیا تھا اور اپنا ایک منصوبہ بھی نوٹ کی صورت میں تحریر کرکے مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی خدمت میں بھیجا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بہرحال ایک دردمند اور مخلص مسلم زمیندار چودھری نیاز علی خان [۲۴ جون ۱۸۸۰ء- ۲۴فروری ۱۹۷۶ء]کو خیال آیا کہ موضع جمال پور نزد پٹھان کوٹ میں خدمت ِدین کے لیے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مُدعا بیان کیا۔ اقبال نے ان کے سامنے اپنی دیرینہ اسکیم کا ذکر کیا۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء میں اُنھوں نے ایک قطعۂ اراضی تعلیم القرآن کے لیے وقف کر دیا، اور اس میں ضروری عمارات یعنی مسجد، مکتب، کتب خانہ، دارالاقامت ، رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر شروع کردی۔
جنوری ۱۹۳۷ء کے اوائل میں جب مصری علما کا وفد لاہور پہنچا اور اقبال سے ملا، تو وفد کی اس خواہش کے اظہار پر کہ وہ ہندوستان کے اسلامی اداروں کی مناسب طریق پر امداد کرنا چاہتے ہیں، انھیں مشورہ دیا گیا کہ اس کا ایک طریق یہ ہے کہ وہ جامعہ ازہر کی طرف سے کوئی استاد مقرر کردیں۔ اس سلسلے میں آخرکار طے پایا کہ شیخ جامعہ ازہر مصطفےٰ المراغی کو ایک خط اقبال کی طرف لکھا جائے اور انھیں اس ادارے کی خاطر ایک ایسا روشن خیال اور قابل مصری عالم اپنے خرچ سے مقرر کرنے کے لیے فرمائش کی جائے، جو انگریزی خواں بھی ہو اور حالاتِ حاضرہ یا علومِ جدیدہ سے خوب واقفیت بھی رکھتا ہو۔
)محمدمصطفےٰ المراغی (۵مارچ ۱۸۸۱ء، مراغہ، سوہاگ، مصر۔ ۲۲؍اگست ۱۹۴۵ء،قاہرہ) نامور فقیہ، مصلح، استاد، منتظم اور مفتی عبدہٗ کے شاگرد تھے۔سوڈان اور مصر میں بطور جسٹس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اجتہاد کے لیے پیش رفت کی، تفسیری خطبات دیئے، دین و سیاست کی تفریق کے سخت ناقد تھے۔ پہلے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۲۹ء تک اور پھر اپریل ۱۹۳۵ء سے وفات تک جامعہ الازہر کے وائس چانسلر رہے۔(
چنانچہ چودھری نیاز علی خان نے اپریل ۱۹۳۷ء میں ایک خط مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو تحریر کیا، جس میں عرض کی کہ وہ مجوزہ خط کا ڈرافٹ عربی میں تحریر فرما دیں۔(اقبال دارالاسلام اور مودودی، از اسعد گیلانی، ص ۱۳۸ تا ۱۴۰)۔
اس ضمن میں مولانا مودودی نے نیاز علی خان کو دو خط لکھے، پہلا خط، اُردو ڈرافٹ کے ساتھ ۱۳مئی ۱۹۳۷ء اور دوسرا خط عربی ترجمہ کے ساتھ۶جولائی ۱۹۳۷ء کو۔ دیکھیے : خطوطِ مودودی، دوم (مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد) منشورات، لاہور، نومبر ۱۹۹۵ء، ص ۹۰ اور ص ۱۰۰
اسی طرح انھوں [یعنی نیاز علی خان] نے اقبال کو بھی خط تحریر کیا اور اپنے ادارے کے متعلق مزید گفتگو کرنے کے لیے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اقبال نے انھیں اپنے خط مؤرخہ ۲۰جولائی ۱۹۳۷ء میں لکھا:
آپ ضرور تشریف لائیں۔ میں آپ سے ادارے کے متعلق گفتگو کروں گا۔ اسلام کے لیے اس ملک میں نازک زمانہ آرہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے اُن کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہرممکن کوشش اس ملک میں کریں۔ ان شاء اللہ آپ کا ادارہ اس مقصد کو باحسن وجوہ پورا کرے گا۔ علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبارنویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزّت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے، مگر ان کا کوئی بے غرض رہنما نہیں ہے۔(اقبال نامہ،مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، حصہ اوّل،ص ۲۴۹-۲۵۰
اگست ۱۹۳۷ء کے اوائل میں چودھری نیاز علی خان پھر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں مولانا مودودی کا عربی میں تیار کردہ ابتدائی مسودئہ خط بنام شیخ مصطفےٰ المراغی دکھایا۔ اقبال نے اُسے پسند فرمایا اور بالآخر ۵؍اگست ۱۹۳۷ء کو عربی میں تحریر کردہ یہی خط اقبال کے نام سے شیخ مصطفےٰ المراغی کو ارسال کیا گیا۔ خط کا مندرجہ ذیل حصہ قابلِ توجہ ہے:
ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا، اور ان شاء اللہ، اُسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اُونچی حیثیت حاصل ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کردیں، جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں۔ اور ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شوروشغب سے دُور ایک دارالاقامت بنادیں، جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے۔ اور اس میں ہم ان کے لیے ایک لائبریری ترتیب دیں، جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتب موجود ہوں، جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزیدبرآں اُن کے لیے ایک کامل اور صالح گائیڈ (رہبر) کا تقرر کیا جائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرتِ تامہ حاصل ہو، اور جو دُنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو۔ تاکہ، وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سمجھاسکے، اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاسیات کے شعبوں میں فکر ِ اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انھیں مدد دے سکے، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں۔ آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اَزراہِ کرم ایک روشن دماغ مصری عالم کو جامعہ اَزہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوبست فرمائیں، تاکہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔ لازم ہے کہ یہ شخص علومِ شرعیہ نیز تاریخ تمدن اسلامی میں کامل دست گاہ رکھتا ہو، اور یہ بھی لازم ہے کہ اُسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو۔(خطوطِ اقبال، مرتبہ:رفیع الدین ہاشمی، ص ۲۸۴، ۲۸۶
(مولانا مودودی کے ہاتھ سے لکھے اس مسودے کا عکس ملاحظہ کیجیے: خطوطِ مودودی، دوم،ص ۹۴،۹۵۔ تاہم اس عکس کو دیکھیں اور جناب جاوید اقبال کے مذکورہ متن کو دیکھیں تو دونوں میں جزوی فرق موجود ہے، مگر جوہری فرق نہیں ہے۔ادارہ)
شیخ مصطفےٰ المراغی کے جوابی مکتوب مؤرخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۷ء سے ظاہر ہے کہ جامعہ اَزہر میں اقبال کی حسب منشا کوئی ایسا مصری عالم نہ تھا، جسے جامعہ اَزہر کی طرف سے ہندوستان روانہ کیا جاسکتا۔(ایضاً، اصل خط کا عربی متن مع اُردو ترجمہ، ص ۲۸۷ تا ۲۸۹)
بعدازاں بقول چودھری نیاز علی خان، اس سلسلے میں چونکہ ان کی خط کتابت مولانا مودودی سے جاری تھی، اقبال کی نظر بھی مولانا مودودی [مدیر:ماہ نامہ ترجمان القرآن، حیدرآباد دکن] پر جاپڑی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی ۱۹۳۷ء کے آخری حصہ میں حیدرآباد دکن سے پٹھان کوٹ میں اس ادارے کا موقع محل دیکھنے کی خاطر تشریف لائے اور اقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر تین صحبتوں میں اُن سے مفصل گفتگو کے بعد اس [ادارے] کا نام ’دارالاسلام‘ تجویز کیا اور نقل مکانی کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا (صحیفۂ اقبال نمبر،حصہ اوّل، مرتبہ: ڈاکٹر وحید قریشی، ص۲۲۹-۲۳۰)۔