December 27th, 2024 (1446جمادى الثانية25)

عورت اقبال ؒ کی نظر میں

تحریر: صائمہ اسماء

مغرب کی طرز پر مغربی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کو مغربی تہذیب کی ذہنی غلامی سے نکالنے میں علامہ اقبال ؒ کا کردار بہت اہم ہے ۔ علامہ چونکہ خود مغربی تعلیم کے اعلیٰ ترین درجات تک پہنچ گئے تھے اور مغربی تہذیب اور فلسفے کی اصلیت اور جڑوں سے واقف تھے اور ان کی یہ حیثیت مسلمان تعلیم یافتہ گروہ میں مسلمہ تھی ‘ اس لیے جب انہوں نے پورے اعتماد اور پوری قوت سے مغربی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی پر تنقید کی تو روایتی علماء کی تنقید کے مقابلے میں مغربی تعلیم یافتہ طبقے نے اس وقعت دی۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی ناآشنا ہے اور خود اقبال ؒ کی بھی گہرائی میں مطالعہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس لیے اقبال ؒ کا نام لینے کے باوجود وہ اقبال ؒ کی فکر سے ناآشنا ہے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے ‘ جیسے اقبال ؒ نے علماء کے برعکس اسلام کے کسی ’’ مغربی ایڈیشن ‘‘ کی وکالت کی ہے۔

اقبال ؒ نے مسلمان عورت کی جو صفات بیان کی ہیں ‘ ایک اسلامی معاشرے کے قیام اور اس کے ارتقاء میں مسلمان عورت کا جو مقام متعین کیا ہے اور انہوں نے مسلمان عورت سے جو اُمیدیں باندھی ہیں اور اسے جو کردار ادار کرنے کی دعوت دی ہے ‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے کسی جدید ایڈیشن کے نہیں ‘ بلکہ اسی اسلام کے احیاء کے داعی تھے ‘ جو صدیوں کے دور انحطاط‘ غیر اسلامی افکار کے گردو غبارہ کے نیچے عام نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے‘ لیکن اب بھی قرآن کریم اور سنت نبی ؐ کی صورت میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کا معاشرہ ان تعلیمات سے دور ہٹ گیا ہے۔ رواجی اور روایتی معاشرتی اقدار کے زیر اثر عوام کے علاوہ صوفیاء اور علماء کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔

اسلامی معاشرے میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے ‘ عورت کی تعلیم حجاب ‘ ضبط ولادت اور اس طرح کے بہت سے موضوعات پر اقبالؒ کی تعلیمات کو پڑھنے اور ان پر غور کرنے کا موقع ملا۔

خواتین کے نام اقبالؒ کے پیغام کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں۔ ان کے بارے میں مغربی تعلیم یافتہ طبقہ یہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتاکہ وہ مغربی جدید علوم سے بے خبر ی کی بنا پر دقیانوسی خیالات پیش کررہے ہیں۔ مغربی فکر اور مغربی فلسفے سے اقبالؒ کو جتنی آگاہی حاصل تھی ‘ وہ ہمارے ہاں کے متجد دین کو حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں کو مغربی طرز فکر اپنانے کی دعوت دینے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے ‘جو محض وقتی چمک دمک یا مغرب کی مادی بالا دستی سے مرعوب ہیں‘ مغربی فکر کا حقیقی یا گہرائی شعور نہیں رکھتے ، اس لیے وہ مغربی تہذیب کی بنیاد ی کمزور ی سے بھی کماحقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اقبالؒ چونکہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب و تمدن کی فکری بنیادوں کا گہرا شعور بھی رکھتے ہیں‘ اس لیے ہم انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ محکمات عالم قرآنی ۔( جاوید نامہ صفحہ 28) میں کہتے ہیں:

عالم قرآنی کے پختہ اور دائمی اصولوں میں سب سے پہلا اصول زمین پر انسان کی حیثیت کا ہے۔ اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: ’’ میں زمین میں اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں۔ ‘‘ خلافت کا یہ مقام مرد اور عورت دونوں کو حاصل ہے ‘ کیونکہ دونوں کو جس نقش واحدہ سے پید ا کیا گیا ہے ‘ وہی نفس واحدہ خلافت کا حقدار تھا۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے : ’’ اے لوگو! اپنے اسی رب کا تقویٰ اختیار کرو ‘ جس نے تمہیں ایک نفس واحدہ سے پید ا کیا ۔ ‘‘

اسی ضمن میں اقبال ؒ فرماتے ہیں ؂

زن نگہ دارندہ نار حیات

فطرت او لوح اسرار حیات

آتش مارا بجان خود زند

جوہر او خاک را آدم کند

( عورت زندگی کی حرارت کی پاسبان ہے اس کی فطرت زندگی کے راز ہائے دروں کی لوح ( تختی ) ہے۔ وہ تپش کو اپنی جان پر لے لیتی ہے اور اپنے جوہر سے مٹی کو انسان بنادیتی ہے)۔

در ضمیرش ممکنات زندگی

از تب و تابش ثبات زندگی

( اس کے ضمیر میں زندگی کی ممکنات چھپی ہوئی ہیں ۔ اس کی تب و تاب سے زندگی کو ثبات حاصل ہے)۔

ارما از ارجمند یہائے اُو

ما ہمہ از نقشبند یہائے اُو

(ہماری ترقی اس کی بلند شان کی وجہ سے ہے ۔ ہم سب اس کی نقشبندیوں میں سے ایک نقش ہیں)

اس کے بعد اقبال ؒ ’’حجاب ‘‘کی اصل مصلحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہی:

از زدینت عصر حاضر بردہ تاب

فاش گویم با تو اسرار حجاب

(تیرے دین سے حصر حاضر نے حرارت چھین لی ہے۔میں تمھیں حجاب کے رازوں کی کھل کرخبر دیتا ہوں)

ذوق تخلیق آتشے اندر بدن

از فروغ او فروغ انجمن

( ذوق تخلیق اصل میں اندر کی آگ ہے جس کے فروغ سے انجمن کو فروغ حاصل ہے)

ہر کہ بردارد ازیں آتش نصیب

سوز وساز خویش گردد رقیب

(جو شخص اس اندرونی حرارت کا سرمایہ رکھتا ہے وہ اپنے اندرونی سوز و ساز پر فریفتہ ہوجاتا ہے)

ہر زماں بر نقش خود بندو نظر

تا نگیرد لوح او نقش دیگر

(وہ ہر لمحہ اپنے ہی نقش کی نگہبانی میں لگا رہتا ہے تاکہ اس نفس پر کوئی اور نقش نہ چڑھ جائے)

مصطفی اندر حرا خلوت گزید

مدتے جز خویشتن کس را ندید

(مصطفی نے حرا میں خلوت اختیار کی۔ ایک عرصے تک اپنے سوا انہوں نے کسی کو نہیں دیکھا)

نقش ما را در دل او ریختند

ملتے از خلوتش انگیختند

( ہمارے نقش کو ان کے دل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی خلوت سے ایک ایک ملت اٹھائی گئی)

گرچہ داری جان روشن چوں کلیم

ہست افکار توبے خلوت عقیم!

(اگر چہ کلیم اللہ کی طرح ایک جان روشن(ید بیضا)۔۔۔۔

صاحب تحقیق را جلوت عزیز

صاحب تخلیق را خلوت عزیز

(تحقیق والا جلوت کو عزیز رکھتا ہے جب کہ صاحب تخلیق خلوت کو پسند کرتا ہے)

چشم موسیٰ خواست دیدار وجود

ایں ہمہ از لذتِ تحقیق بود

(موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کو سامنے سے دیکھنے کی خواہش کی۔ یہ تحقیق کی لذت کی وجہ سے تھا)

حفظ ہر نقش آفریں از خلوت است

خاتم او رانگیں از خلوت است

(ہر نقش پیدا کرنے والے کی حفاظت خلوت میں ہے۔ اس کے انگھوٹے کا نگینہ خلوت سے حاصل ہوتا ہے)

اقبال اس طویل بیان میں یہ بنیادی نکتہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت چونکہ تخلیق کرنے والی ہے اور نقوش نو کی صورت گری کرنے والی ہے ، اس لیے اس کی نقش کی حفاظت کے لیے کم آمیزی اور خلوت مفید ہے۔ چنانچہ ایک دوسری جگہ خواتین اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بتولےؓ باش وپنہاں شو ازیں عصر

کہ در آگوش شبیرےؓ بگیری

(حضرت فاطمہ بتولؓ کی طرح اس عصر جدید کے فتنے سے چھپ جاؤکہ تیری گود حضرت حسینؓ جیسی فرزند سے بھر جائے)

ارمغان حجاز میں ’’حضور ملت‘‘ کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے۔ رباعیات کی صورت میں پہلی رباعی میں مسلمانوں کی نسل نو کو مخاطب کرتے ہوئے عمومی نصیحت کرتے ہیں:

بمنزل کوش مانند مہ نو

درین نیلی فضا ہر دم فزوں شو

مقام خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دل بند وراہ مصطفی رو

( نئے چاند کی طرح کوشش کرتے ہوئے بڑھتے چلے جاؤ اس نیلی فضا میں ہر دم پھیلتے چلے جاؤ۔ اگر اس دنیا میں اپنا حقیقی مقام چاہتے ہوتو اللہ کے ساتھ دل جوڑ لو اور مصطفی کے نقش قدم پر چلو)

اس باب میں’’دختران ملت‘‘ کے عنوان سے رباعیات کا ایک مجموعہ موجود ہے، جو مسلمان بچیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

بہل اے دخترک ایں دلبری ہا

مسلماں را نہ زیبد کافری ہا

منہ دل برجمال غمازہ پرورد

بیاموز از نگر غارت گری ہا

’’ اے ’’ بٹیا‘‘(پیاری دختر) یہ دلبرانہ نازوانداز چھوڑو مسلمانوں کو یہ کافرانہ اطوار زیب نہیں دیتے ۔ بناؤ سنگھار پر تکیہہ کرنے کے بجائے کردار سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو‘‘

نگاہ تست شمشیر خداداد

بزخمش جان مارا حق بما داد

دل کامل عیار آن پاک جہاں برد

لہ تیغ خویش را آب از حیاداد

اے دختر ملت تیر ی نگاہ شمشیر خدا داد ہے۔ اس کے زخمہ ( جس سے ساز کے تار کو چھیڑا جاتا ہے ) سے حق نے ہمیں ہماری جان عطا کی ہے ۔ اس پاکیز ہ ہستی نے دل جیت لیا جس نے اپنی تلوار کو حیا سے آبدار کردیا۔

ضمیر عصر حاضر بے نقاب است

کشادش در نمو و رنگ و آب است

جہاں نابی زنور حق بیا موز

کہ او باصد تجلی در حجاب است!

عصر حاضر کا ضمیر بے نقاب ہے اس کی چمک دمک رنگ و آب کی مرہون منت ہے ( لیکن اے دختر ملت ) پورے جہان کو روش کرے کا سلیقہ نور حق سے سیکھ لے کہ و ہ صد ہا تجلیوں کے باوجود حجاب میں ہے ) ۔

چھوتی رباعی

جہاں را محکمی از امہات است

نہاد شان امین ممکنات است

اگر این نکتہ را قومے نداند

نظام کاروبارش بے ثبات است

( جہاں کو ثبات ماؤں کی برکت سے حاصل ہے۔ ان کی باطن تازہ ممکنات کی امین ہے( یعنی ان کے باطن سے انقلابات پھوٹتے ہیں ۔ اگر کوئی قوم اس نکتہ سے بے خبر ہے تواس کا نظام اور کاروبار بے بنیاد ہے)

خطاب بہ ’’مخدرات اسلام‘‘

اے روایت پردہ ناموس ما

تاب تو سرمایہ فانوس ما

طینت پاک تو مارا رحمت است

قوت دین واساس ملت است

کودک ماچوں لب از شیر تو شُد

لالہ آموختی او را نخست

مے تراشد مہر تو اطوار ما

فکر ما گفتار ما کردار ما

( اے مسلمان عورت تیری چادر ہماری عزت کی پاسبان ہے اور تیری حرارت ہمارے فانوس کا سرمایہ ہے۔ تیری پاک طینت ہمارے لیے رحمت ہے اور یہ دین کی قوت اور ملت کی بنیاد ہے۔ جب ہمارے بچے نے اپنے ہونٹ تیرے دودھ سے تر کر لیے تو سب سے پہلے تو نے لاالہ الااللہ کا کلمہہ سکھایا۔ تیری محبت ہمارے طور طریقوں کو سنوارتی ہے۔ ہماری فکر، ہمارے کردار اور ہمارے گفتار کی سلیقہ بندہ کرتی ہے)۔

حضور ؐ کی یاد میں

میرے مالک !

زمین پر تو نے جتنے مرسلین ، جتنے نبی بھیجے وہ سارے مرد تھے ‘ لیکن

دُکھی مخلوق پر تیری

وہ یکساں ابیر رحمت بن کے برسے تھے

کوئی دعوت نہیں ملتی زما نو ں کے کٹہروں میں

جو کہتی ۔۔۔۔

اے خدا ! تیرا نبی ؐ کوئی

ہماری صنف سے ہوتا تو اچھا تھا۔۔۔۔

انہیں مر دانگی عورت کے پنہاں درد کے ادراک سے کب روکتی تھی

اور پھر وہ بھی تو آئے تھے

جنہیں یہ طعنہ ملتا تھا۔

محمد ؐ جب سے آئے ہر طرف عورت ہی عورت ہے

میرے مالک !

ان کے بعد تو کوئی نبیؐ آنا نہیں ہے

اور میرے خطے میں جتنے مرد ہیں

اپنے غرور جنس کی بھاری چٹانوں میں دبے ہیں

ان گنت صدیوں کی ژولیدہ رواجی گرد

سینوں پر سلیں بن کر پڑی ان کے جماؤ میں اضافہ کررہی ہے

کون آئے گا

چٹانوں میں دبے آثار کے کانوں میں انؐ کا آخری خطبہ انڈیلے گا۔

بتائے گا

کہ سب انسان برابر ہیں

جہالت کی سبھی عصبیتیں پائے مبارک رک کے تلے ہیں

اور نصیحت ہے

کہ عورت سے نبا ہی کے قرینوں میں خدا سے ڈرتے رہنا ہے !